نیک لوگوں کے ساتھ تعلق بنانا اور نسبت جوڑنا کیوں ضروری ہے
اور کتنا اہم ہے ؟
قرآن
مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۱۹)ترجمہ: کنزالایمان : اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے
ساتھ ہو جاو
اسی
مضمون کو اللہ تعالی نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
وَ
اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ
الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ-تُرِیْدُ
زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ
ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا(۲۸)ترجمہ:
کنزالعرفاناور اپنی جان کو ان لوگوں کے ساتھ مانوس رکھ جو صبح و شام اپنے رب کو
پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں اور تیری آنکھیں دنیوی زندگی کی زینت چاہتے ہوئے
انہیں چھوڑ کر اوروں پر نہ پڑیں۔
یہ
کون لوگ تھے اصحابِ کہف ؟ کیا یہ پیغمبر تھے؟ کیا رسول تھے ؟ نہیں یہ لوگ تھے جن سے متعلق اللہ جل
شانہ نے ارشاد فرمایا :
اِنَّ
الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ
الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ
الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(حم سجدہ۳۰)
ترجمہ:
کنزالایمانبےشک وہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے اُن پر فرشتے
اُترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا
جاتا تھا۔
اصحابِ
کہف پر اللہ تعالی کے انعامات ::
سورج
کو پھیر دینا اور نظام فطرت کو بدل دینا : وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ
وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ ۚ
(سورہ کہف 17)
ان
کا سونا ایسا تھا کہ دیکھنےو الا محسوس کرے کہ جاگ رہے ہیں: وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ(سورہ کہف 18)
اللہ
تعالی ان کی کروٹیں بدلتا تھا جیسے ماں بچے کو کافی دیر سے ایک ہی کروٹ پر لیٹا دییکھ
کر محسوس کرتی ہے کہ یہ تھک گیا ہو گا تو کروٹ بدل دیتی ہے اللہ فرماتا ہے بچہ سو
جائے کروٹ ماں بدلتی ہے ولی سو جائیں کروٹیں اللہ بدلتا ہے بلکہ صرف ان کی ہی نہیں
جو ان کے ساتھ ملنے والا کتا ہے اللہ اس کی بھی کروٹیں بدلتا رہتا ہے : وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ۖ
وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ ۚ(سورہ کہف 18)
اللہ
نے ان کے کتے کا ذکر بھی قرآن میں کیا اور اس کی ہیئت اور بیٹھنے کے انداز کو بھی
بیان کیا اس میں نہ نماز کا مسئلہ ہے نہ روزے کا نہ توحید کا نہ رسالت کا نہ آخرت
کا نہ تقدیر کا اس میں اللہ تعالی بتانا چاہتا ہے کہ جب اللہ کے ولیوں کے در پر
بیٹھو تو ہاتھ پھیلا کر بیٹھا کرو، کتا بھی آ جائے اسے خالی نہیں موڑتے اب ایک
اور بات بھی ہے کہ دینے والا اللہ تعالی ہے کرنے والا اللہ تعالی ہے وہ چاہتا تو
کتے ولیوں کے در پر لیٹنے پر بھی نواز سکتا تھا مگر وہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ ولیوں
کی نسبت کا حیا کرتا ہے۔
جنوں
نسبت پاکاں دی مل جاوے او جنتی اے
بھاویں
کتا ہووے بیٹھا کوئی غار دے بوہے تھے
سچے
لوگ کون ہیں؟
وَ
لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ
صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ(العنکبوت ۳)
ترجمہ:
جنہیں اللہ تعالی نے آزمایا اور وہ پورے اترے اور اپنا سب کچھ اللہ کی رضا کے لیے
قربان کر دیا یہی لوگ سچے ہیں۔
وَالَّذِي
جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴿33 الزمر﴾ پرہیزگار ہی سچے لوگ ہیں اور سچے لوگ پرہیز گار ہیں۔
إِنَّمَا
الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا
وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ
الصَّادِقُونَ (سورہ الحجرات 15)
ترجمہ:
ایمان والے تو وہی ہیں
جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ
کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے ہیں
وَيَنْصُرُونَ
اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿8 الحشر﴾ ترجمہ: اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی لوگ
سچے ہیں
لَیْسَ
الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ
لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ
وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ-وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى
وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ-وَ السَّآىٕلِیْنَ وَ فِی
الرِّقَابِۚ-وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَۚ-وَ الْمُوْفُوْنَ
بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاۚ-وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ
حِیْنَ الْبَاْسِؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُتَّقُوْنَ(سورہ البقرہ177)
ترجمہ:
کنزالایمان: کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ہاں اصلی نیکی یہ
کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اللہ کی
محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور
سائلوں کو اور گردنیں چھوڑانے میں اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اور اپنا قول
پورا کرنے والے جب عہد کریں اور صبر والے مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت یہی
ہیں جنہوں نے اپنی بات سچی کی اور یہی پرہیزگار ہیں
سچے
لوگوں کا اجر کیا ہے ؟
قَالَ
اللهُ هَٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي
مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ رَّضِيَ اللهُ عَنْهُمْ
وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (المائدہ 119)
ترجمہ:
اللہ نے فرمایا کہ یہ ہے وہ دن جس میں سچوں کو ان کا سچ کام آئے گا ان کےلیے باغ
ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اللہ ان سے راضی اور وہ
اللہ سے راضی یہ ہے بڑی کامیابی۔
وَالَّذِينَ
آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ
رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ (سورہ الحدید 19)
ترجمہ:
اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائیں وہی ہیں کامل سچے اور اَوروں
پر گواہ اپنے رب کے یہاں ان کے لیے ان کا ثواب اور اُن کا نور ہے
أَنَا
رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ﴿51 يوسف﴾ جو برائی کی
انتہا کو سامنے دیکھنے ہیں مگر اس سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں وہ سچے ہیں۔
سچے
لوگوں کا درجہ :
وَمَنْ
يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ
عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ
وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا} [النساء:69]
ترجمہ:
اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے
فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں
يقول
ابن القيم رحمه الله تعالى في المدارج: "فالصدقُ في هذه الثلاثة:
• الصدق
في الأقوال: استواء اللسان على الأقوال كاستواء السُّنبلة على ساقِها.
•
والصدق في الأعمال: استواء الأفعال على الأمر والمتابعة كاستواء الرأس على الجسد.
•
والصدق في الأحوال: استواء أعمال القلب والجوارح على الإخلاص، واستفراغ الوُسْعِ
وبَذْل الطاقة، وبحسَب كمال هذه الأمور فيه وقيامها به تكون صِدِّيقيَّتُه؛ ولذلك
كان لأبي بكر الصِّديق رضي الله عنه وأرضاه ذروة سَنامِ الصِّدِّيقيَّة، سُمي الصديق
على الإطلاق، والصِّديق أبلغُ من الصَّدوق، والصَّدوق أبلغ من الصادق" (مدارج
السالكين: 25/2).
اللہ
نے ان کے ساتھ ہو جانے کا حکم کیوں دیا؟:
نمازیں
روزے عبادات ان میں شیطان دخل اندازی کر کے ضائع کر سکتا ہے مگر وہ لوگ جو مخلص
ہیں جو اللہ تعالی کے سچے بندے ہیں فرمایا ان پر شیطان کا وار نہیں چلتا شیطان
انہیں ورغلا نہیں سکتا تم بھی ان کے ساتھ ہو جاو تماہارا ایمان بھی محفوظ تمہارے
روزے اور عبادات بھی محفوظ ہو جائیں گے۔ جب شیطان نے مہلت مانگی اور کہا کہ میں
تیرے بندوں کو ورغلاوں گا مگر خود ہی کہا کہ جو تیرے مخلص بندے ہوں گے ان پر میرا
بس نہیں چلے گا۔
﴿قَالَ
رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَ
لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ، اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ﴾ [الحجر:۳۹۔۴۰] ’’
ترجمہ:کہا پروردگار جیسے تو نے مجھے راستے سے الگ کیا ہے میں بھی
زمین میں لوگوں کے لیے(گناہوں کو)آراستہ کر دکھاؤں گا اور سب کو بہکاؤں گا۔ ہاں
ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں(ان پر قابو چلنا مشکل ہے)۔‘‘
قَالَ
فَبِعِزَّتِكَ لأغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ۔ إِلاَّ عِبٰادَكَ مِنْهُمُ اَلْمُخْلَصِينَ
(سورہ ص 82،83)
ترجمہ:کہنے
لگا : ’’ بس تومیں تیری عزت کی قسم کھاتا ہوں کہ میں ان سب کو بہکاؤں گا۔ مگر جو
تیرے مخلص بندے ہیں ( ان کو نہیں بہکا سکوں گا)
اخلاص کی بھی دو قسمیں ہیں ایک اخلاص صدق کے بغیر ہے اور ایک صدق کے ساتھ ہے سنیں ایک
اخلاص کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
هُوَ
الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي
الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ
عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ
بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ
الدِّينَ لَئِنْ أَنْجَيْتَنَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ،
فَلَمَّا أَنْجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ
الْحَقِّ}[يونس:22-23]
ترجمہ:
وہی ہے کہ تمہیں خشکی اور تری میں چلاتا ہے یہاں تک کہ جب
تم کشتی میں ہو اور وہ اچھی ہوا سے انہیں لے کر چلیں اور اس پر خوش ہوئے ان پر
آندھی کا جھونکا آیا اور ہر طرف لہروں نے انہیں آلیا اور سمجھ لیے کہ ہم گِھر گئے
اس وقت اللہ کو پکارتے ہیں نِرے(خاص) اس کے بندے ہوکر کہ اگر تو اس سے ہمیں بچالے
گا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے
أنَّ
رجلًا مِنَ الأعرابِ جاءَ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فآمَنَ بِهِ
واتَّبعَهُ وقالَ: أُهاجرُ معَكَ فأوصى بِهِ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ
وسلَّمَ بعضَ أصحابِهِ فلمَّا كانَت غزوةٌ ، غنِمَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ
عليهِ وسلَّمَ فيها أشياءَ ، فقَسمَ وقسمَ لَهُ فأعطَى أصحابَهُ ما قَسَمَ لَهُ
وَكانَ يرعى ظَهْرَهُم . فلمَّا جاءَ دفَعوا إليهِ فقالَ: ما هذا ؟ قالوا: قَسْمٌ
قَسمَهُ لَكَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ . فأخذَهُ فجاءَ بِهِ
النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالَ: يا مُحمَّدُ ، ما هذا ؟ قالَ:
قَسمتُهُ لَكَ . قالَ: ما على هذا اتَّبعتُكَ ، ولَكِنِّي اتَّبعتُكَ على أن
أُرمَى هاهُنا وأشارَ إلى حلقِهِ بسَهْمٍ فأموتَ وأدخلَ الجنَّةَ . فقالَ: إن
تَصدُقِ اللَّهَ يَصدُقْكَ فلبثوا قليلًا ، ثمَّ نَهَضوا إلى العدوِّ ، فأتى بِهِ
النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يُحمَلُ ، قد أصابَهُ سَهْمٌ حيثُ أشارَ .
فقالَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ: أَهوَ هوَ ؟ قالوا: نعَم قالَ: صدقَ
اللَّهَ فصدقَهُ وَكَفَّنَهُ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ في جُبَّةٍ ،
ثمَّ قدَّمَهُ فصلَّى عليهِ . فَكانَ مِمَّا ظَهَرَ مِن صلاتِهِ عليهِ: اللَّهمَّ
إنَّ هذا عَبدُكَ ، خرجَ مُهاجرًا في سبيلِكَ ، فقُتلَ شَهيدًا ، أَنا شَهيدٌ
علَيهِ (صحيح النسائي 1952) التخريج : أخرجه النسائي (4/60)، وعبد الرزاق في
((المصنف)) (3/545)، والطبراني في ((الكبير)) (7/271) باختلاف يسير.۔۔۔۔
ترجمہ:
حضرت شداد بن الہاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو کہ ایک اعرابی (دیہات
کا باشندہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور مشرف با اسلام ہوا۔ پھر
وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں رہنے لگا۔ایک بار کہنے لگا کہ میں آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کروں گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے
میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وصیت کی۔ جس وقت غزوہ ہوا اور اس غزوہ میں
مسلمانوں کو بکریاں حاصل ہوئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بکریوں کو
تقسیم فرمایا اور اس کا بھی حصہ نکالا۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کا حصہ اس کو دے دیا۔ وہ ان کے سواری کے جانور چرایا کرتا تھا۔
جس وقت وہ (بکریاں چرا کے واپس) آیا تو
صحابہ رضی اللہ عنہم اس کا حصہ اسے دیا تو اس نے دریافت کیا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے
کہا کہ یہ تمہارا حصہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو عطا فرمایا ہے۔
اس نے وہ حصہ لے لیا اور اس کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہوا اور عرض کیا: یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارا حصہ
میں نے دیا ہے۔ اس نے عرض کیا: میں اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نہیں
ہوا تھا بلکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اس وجہ سے کی ہے کہ میری اس
جگہ پر تیر مارا جائے۔ اس نے اس جگہ (یعنی
حلق )کی طرف اشارہ کیا، پھر میرا انتقال ہو جائے اور میں جنت میں داخل ہو جاؤں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تو اپنے اس ارادے میں سچا رہا تو اللہ تعالیٰ بھی تم کو سچا کرے گا (یعنی
شہادت کی موت عطا فرمائے گا)۔ پھر کچھ دیر تک لوگ ٹھہرے رہے۔ اس کے بعد دشمن سے جنگ
کرنے کے واسطے اٹھے اور لڑائی شروع ہوئی۔ لوگ اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے، اس شخص کو اسی جگہ پر تیر لگا ہوا تھا جہاں اس نے
بتلایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا یہ وہی شخص ہے؟ لوگوں نے
کہا: جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شخص اپنے اس ارادے میں
سچا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو سچ
کر دیا (یعنی شہادت کی موت عطا فرمائی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے
مبارک جبہ کا کفن اس کو دے دیا اور آگے کی جانب رکھا اور اس پر نماز جنازہ ادا کی۔ تو جس قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں
سے لوگوں کو سنائی دیا وہ یہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ : ”یا
اللہ یہ تیرا بندہ ہے اور تیرے راستے میں ہجرت کر کے نکلا اور یہ شخص اللہ کے
راستہ میں شہید ہوگیا میں اس بات کا گواہ ہوں
قُلْ
أَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِنْ ذَلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ
جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ
مُطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ . الَّذِينَ
يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ
النَّارِ . الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ
وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ} [آل عمران:15-17].
ترجمہ:
تم فرماؤ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز بتادوں پرہیز گاروں کے لیے ان کے رب کے پاس
جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں گے اور ستھری بیبیاں اور اللہ
کی خوشنودی اور اللہ بندوں کو دیکھتا ہے۔وہ جو کہتے ہیں اے رب ہمارے ہم ایمان لائے
تو ہمارے گناہ معاف کر اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ صبر والے اور سچے اور اَدب والے اور راہ خدا میں خرچنے والے
اور پچھلے پہرسے معافی مانگنے والے