ستم ظریفی دیکھیے آج کے بچے کو جس اُستاد نے اس دنیا میں جینے کا علم اور فن سیکھانا ہے وہ صرف اپنے” سر” میں جی رہا ہے( living in his head) . اُس کے لیے جسم صرف “ سر” کو اُٹھانے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے ، transport کرنے کے زریعے کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔ صبح سویرے “سر” کو اُٹھائے گھر سے اسکول، کالج ، پھر اُسی “ سر” کو اُٹھائے ٹیوشن سینٹر اور رات کو وہی سر، lesson plan, student assignments یا پھر امتحانوں کے پرچے بنانے یا پرچوں کی چیکنگ کرنے کے بوجھ کو سر پر اُٹھائے گھر چلا جاتا ہے اور تھک ہار کر وہی سر ، بستر کے تکیہ پر دھر کر سو جاتا ہے۔ وہ جی کہاں رہا ہے۔۔۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ وہ “ سر” میں جی رہا ہے تو لوگ نہ جانے ناراض کیوں ہو جاتے ہیں ۔ شاید اس لیے کہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ وہ لوگ جو صرف “ سر” میں جیتے ہیں ان کے لیے شعبہ صحت میں علاج کی خاطر الگ ہسپتال بنائے جاتے ہیں۔ اور کیونکہ ہمیں ہمیشہ اُستادوں کا احترام کرنے کا درس دیا جاتا ہے تو ہمارے لیے اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں دقّت ہو جاتی ہے کہ اُستاد کیسے نفسیاتی مریض ہو سکتے ہیں۔
انہیں
نفسیاتی مریض بنانے میں جہاں استادوں کے اپنے مسائل اور انکی لاتعداد وجوہات ہوں گی
خود ہمارا یعنی والدین کا بہت بڑا کردار ہے۔
ایک
بہت ہی دلچسپ اور عمومی رویہ ہے کہ اگر کسی تقریب
میں یا عشائیہ یا ڈنر پر ۔۔اوّل تو کسی ڈنر پر استاد کو بلایا ہی نہیں جاتا مگر
کھبی ایسا اتفاقاً ہو جائے کہ آپ کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے والے شخص کے تعارف میں
آپ کو پتہ چلے کہ وہ teacher ہے یا اُستاد ہے تو آپ کا فوری رد عمل کیا ہوتا ہے۔۔۔
“ آہ! آج کی شام کا کباڑہ ہو گیا” اور پھر اپنی اسی اندرونی اور ان کہی خفت کو مٹانے کے لیے لایعنی سا مکالمہ شروع کرتے ہیں جس میں نہ آپ کی دلچسپی ہوتی ہے نہ اُس مہمان کی جو اتفاقاً اُستاد نکلا۔۔۔ “ موسم کیسا ہے” امتحانات کب ہو رہے ہیں” فیسیں بہت ہو گئی ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ایسا کیوں کرتے ہیں ہم؟ کبھی یہ بھی سوچا ؟
شاید اس لیے کہ ہم سمجھ بیٹھے
ہیں کہ اُستاد “ سر” میں جیتا ہے اور اسکے اندر کچھ تخلیقیت نہیں، کچھ creativity نہیں، teacher
is not dynamic, he is not interesting…
صورتحال
اور بھی دلچسپ ہو جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ
تقریباً سب لوگوں کو ہی تعلیم میں دلچسپی ہے مجھے تو دلچسپی ہے کیا آپ کو نہیں ہے؟
باوجود تعلیم میں عالمگیر دلچسپی کے باوجود ہمیں “ معلم” دلچسپ نہیں لگتے ۔
ایک
اور زاویہ سے اگر ہم اسی معاشرتی رویہ کو دیکھیں
۔ کیا آپ کے بچوں کے اُستاد آپ کے دوست ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ آپ نے بچوں کے
اُستاد کو صرف ایک سہولت کار کے طور پر لیا ہے اور اس سہولت کاری یا facilitation کا معاوضہ دیتے ہیں
مگر وہ میرے دوست نہیں ہیں ۔۔۔۔
میں اپنی متاع عزیز یعنی اولاد کی ذہن سازی ایک ایسے فرد کے حوالے کیے بیٹھا ہوں جو میرا دوست نہیں ہے۔۔۔۔۔
آپ
درویشوں سے پریکٹیکل step پوچھتے ہیں
تو وہ تو یہی ہے کہ اپنے بچوں کے اُستاد کے ساتھ دوستی کریں اُنکے ساتھ friendly ہو جائیں۔ یقین مانیں
یہ جو صرف اپنے “ سر” میں جیے چلے جا رہے ہیں اور جنہیں آپ نے بچوں کو تعلیم دینے
کا سہولت کار بنا رکھا ہے یہ بہت قیمتی لوگ ہیں۔ ان سے آپ دوستی کر لیں۔۔۔let
them join you
۔۔۔ یہی تو آپ کا بہترین دوست ہے جس نے آپ کے بچہ کو اس دنیا کا علم اور جینے کا
ڈھنگ دینا ہے۔ انہیں ڈنر پر بلائیں، انکے
ساتھ outing پر جائیں۔ چھٹیوں میں اکٹھے سیر کو نکلیں ۔۔۔ اور جب اس “سر” میں
پھنسے سہولت کار facilitator کو دوست بنائیں گے اور انکو “ سر” سے نکلنے میں مدد دیں گے تو پھر
آپ دیکھیں گے کہ آپ کا یہ دوست کس بہترین طریقہ سے آپ کے بچہ کے زہن سازی کرتا ہے۔
وہ پھر آپ کے بچوں کو ادھار لیے گئے جوابات دستیاب نہیں کرے گا ، وہ بچوں کے ازہان
میں خوابیدہ سوالات کو جگائے گا، انکے اندر تجسس کو اُبھارے گا اور آپ کے بچوں کو
اپنے سوالات کے جواب خود تلاش کرنے کے لیے تیار کرے گا۔
علاج اور مسلۂ کا حل ۔۔۔
پیار میں ہے اور دوستی میں ہے۔ الولی اور الودود سے اپنا بھی علاج کریں اور اپنے
مسائل کا بھی۔۔
دُعاگو:صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی