جب
آپ زندگی کو ایک تماشا کے طور پر لیں گے تو انا مر جائے گی۔ اس کا وجود نہیں رہے
گا۔ زندگی کو بازیچہ اطفال سمجھۓ
آپ پوچھتے ہیں کہ مستقبل کے بارے میں میرا کیا خیال ہے؟ سچی
بات ہے کہ میں مستقبل کی فکر نہیں کرتا۔ میرے لیے حال ہی کافی ہے۔ اگر حال خوبصورت
ہے تو مستقبل کا خوبصورت ہونا یقینی ہے کیونکہ مستقبل نے حال ہی کے بطن سے جنم لینا
ہے۔ ہمیں مستقبل بارے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ مستقبل کے بارے میں پیشینگوئی کی
ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں لمحہ موجود سے خوشی کشید کرنا چاہیے اور اگلا لمحہ اسی لمحہ
موجود سے پیدا ہو گا۔
کچھ لوگ مستقبل کے ہی خواب بُنتے رہتے ہیں۔ ایسا مستقبل کبھی
رونما نہیں ہوتا۔ ایسا مستقبل احمقوں کی جنت ہوتا ہے۔ مستقبل ایک غیر متعلق چیز
ہے۔ میری ساری جدوجہد کا دائرہ یہاں تک محدود ہوتا ہے کہ حال کو کیسے خوشگوار بنایا
جائے؟ لوگوں کے چہروں پر کیسے ہنسی کی کرن لائی جائے اور لوگوں کی زندگیوں میں کیسے
حسین رنگ بکھیرے جائیں۔
درحقیقت عرصہ ہوا آپ اپنی آواز بھول چکے ہیں ۔ آپ کو کبھی
اتنی آزادی نہیں ملی کہ اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ آپ کی آواز ہمیشہ دبی رہی ہے
اور دوسری آوازیں بہت بلند تھیں، تحکمانہ تھیں کیونکہ وہ احکامات تھے اور آپ ان کو
مانتے رہے۔ آپ انہیں نہیں ماننا چاہتے تھے مگر مانتے رہے کیونکہ آپ عزت کروانا
چاہتے تھے، قابل قبول بننا چاہتے تھے، محبت کروانا چاہتے تھے۔ آپ کے اندر صرف اپنی
آواز کی کمی ہے۔ ایک آواز کہتی ہے “یہ کرو” دوسری آواز کہتی ہے “ایسا ہرگز نہ
کرنا”۔ اور آپ الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان آوازوں سے پیچھا چھڑانا ہوتا ہے۔ آپ
کو ان سب آوازوں کو خُداحافِظ کہنا پڑے گا۔ ایک بات تو یقینی ہے کہ یہ آپ کی آوازیں
نہیں ہیں۔ یہ اُن کی آوازیں ہیں جو اپنا دور گزار چکے ہیں اور انہیں مستقبل کی خبر
نہیں تھی۔
لہذا
اس بابرکت مہینے میں خاموش ہو جائیں اور اپنے آپ کو دریافت کریں۔ جب تک آپ اپنی
ذات کو تلاش نہیں کرتے یہ ہجوم نہیں چھٹے گا ۔
حال تب بہتر ہوتا ہے جب انسان ماضی سے جان چھڑا لیتا ہے اور
زندگی میں سب سے مشکل کام ماضی سے خلاصی حاصل کرنا ہے۔ کیونکہ ماضی سے دستبردار
ہونے کا مطلب ہے کہ اپنی پوری شناخت سے، اپنے سارے حوالوں اور شخصیت کو چھوڑ دیا
جائے۔ یہ اپنے آپ کو چھوڑ دینے کے مترادف ہوتا ہے۔
بلھے
شاہ چل اُتھے چلیے جتھے سارے انے
نہ
کوئی ساڈی ذات پہچانے ، نہ کوئی سانوں منے
یہ عمل کپڑے تبدیل کرنے کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ ایسا ہے جیسے
جلد کو چاقو سے چھیلا جائے۔ آپ اپنے آپ کو ماضی ہی کے حوالے سے جانتے ہیں۔ ماضی سے
خلاصی حاصل کرنا سب سے مشکل کام ہے لیکن صرف وہی حقیقی زندگی بسر کرتے ہیں جو اس
بوجھ کو اتار پھینکتے ہیں۔ ماضی سے نکلے بغیر آپ حال میں نہیں آ سکتے۔
زندگی تو میری جان حال کا نام ہے۔ ماضی اور مستقبل دونوں
کچھ نہیں۔ آپ کو اپنے باطن کا مشاہدہ کرنا ہو گا کہ آپ ماضی سے کچھ غذا حاصل کر
رہے ہیں یا اس کے برعکس یہ آپ کا خون چوستے رہا ہے؟
خود
کلامیاں ہیں ان کی تائید کرنا یا تنقید کرنا مفید نہیں ہوتا ان کو صرف پڑھ کر مزا
لینا چاہیے۔
سلامت
رہیں
دُعاگو،
دُعا جُو
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی