خط میں لکھے ہوئے رنجش کے
کلام آتے ہیں
کس قیامت کے یہ نامے مرے
نام آتے ہیں
رہروِ راہِ محبت کا خدا
حافظ ہے
اس میں دو چار بہت سخت
مقام آتے ہیں
وہ ڈرا ہوں کہ سمجھتا ہوں
یہ دھوکا تو نہ ہو
اب وہاں سے جو محبت کے پیام
آتے ہیں
صبر کرتا ہے کبھی اور
تڑپتا ہے کبھی
دلِ ناکام کو اپنے یہی
کام آتے ہیں
نہ کسی شخص کی عزت نہ کسی
کی توقیر
عاشق آتے ہیں تمہارے کہ
غلام آتے ہیں
رسمِ تحریر بھی مٹ جائے یہی
مطلب ہے
اُن کے خط میں مجھے غیروں
کے سلام آتے ہیں
داغ کی طرح سے گُل ہوتے ہیں
صدقے قربان
بہرِ گل گشت چمن میں جو
نظام آتے ہیں
داغ دہلوی
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You