یہ
نہیں دل میں ،ہو تیری ہر نظر میرے لیے
اک
نظر کافی ہے تیری عمر بھر میرے لیے
کوچہ
گردوں کو طوافِ کعبہ سے کیا واسطہ
یار
کی گلیاں ہیں کافی آنے جانے کے لیے
مر
کے بھی اے یار نہ چھوٹے گا تیرا سنگِ در
میں
ترے در کے لیے ہوں تیرا در میرے لیے
منتظردر
پر کھڑے ہیں دیر سے سب بادہ کش
ساقیا اٹھنا پڑے گا مے پلانے کے لے
جان
و دل سے میں تصدق اس تری تقسیم پر
وصل
غیروں کے لیے دردِ جگر میرے لیے
تم
سے پوشیدہ نہیں کچھ میرے دل کا ماجرہ
کیوں
بنے پھرتے ہو آخر بے خبر میرے لیے
آرزو
ئے حور و غلماں زاہدا تم کو نصیب
ہیں
خیال یار کافی تا عمر میرے لیے
اس
گلی میں زندگی کی شام آخر ہو گئی
بعد
مدت کے ہوئی ساجد سحر میرے لیے
گڈ
ReplyDeleteبہت خوب تخئیل ہے