دل
کی بیماریاں: یعنی بغض، حسد، کینہ، نفرت،
غصہ، انتقام، غیر اللہ پر بھروسہ، حاصل شدہ نعمتوں کی نا قدری، غیرحاصل نعمتوں پر
دل کی تنگی، لالچ، بہتر سے بہتر کی خواہش، اونچے سے اونچا اٹھنے کی آرزو، تکبر،
غرور، بداخلاقی، ذرا دیکھیے تو کتنا کوڑا کرکٹ جمع ہوگیا ہے اس دل میں، ہماری ہی
غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے۔
اور
وہ معزز مہمان ہیں کون؟ جن کو اس دل میں جگہ
دینی ہے ۔ وہ ہیں اللہ پر ایمان، اس پر بھروسہ، اس کی محبت، اس کو ہر حال میں راضی
رکھنے کا خیال، اس زندگی کی ذمہ داری کا احساس۔ تو چلیے اب شروع ہوجائیے، کاٹھ
کباڑ کو باہر نکالنے کے لیے۔ مگر ایک بات یاد رکھیے کہ کمرے سے کباڑ باہر کرنا تو
آسان تھا لیکن دل سے نکالنا آسان نہیں ہوگا۔کیونکہ یہاں ایک آواز بار بار حوصلہ
توڑے گی کہ ارے اسے نہ ہٹائو، یہ بہت بھاری سامان ہے، یا ارے یہ سامان تمہارا کیا
بگاڑ رہا ہے؟ اسے پڑا رہنے دو، کبھی اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے، یا ارے یہ تو یادگار
ہے اسے نہ ہٹائو۔ اس آواز پر کان نہ دھر کر اپنے کام میں لگا رہنا گویا دگنی محنت
ہے۔ مگر آپ کو رکنا تھکنا نہیں ہے ورنہ مہمانو ں کو کہاں ٹھہرائیں گے لہٰذا ٰان
کے لائق جگہ بنانے کے لیے تو ان تھک کوششیں کرنی ہی ہوں گی۔ چاہے محنت لگے چاہے
وقت صرف ہو، یہ کام تو ہر حال میں پورا کرنا ہی ہے۔ اب سب سے پہلے تو غیر اللہ پر
بھروسے کو نکال باہر کریں۔ اور یاد رکھیے اس کو ہٹاتے وقت وہ بہکانے والی آواز
اور زیادہ تیز ہوجائے گی۔ بس سب سے پہلے اسی کو باہر کیجیے۔ یہی ہے وہ سب سے گندی چیز
جس کی موجودگی میں آپ کے معزز مہمان دل میں داخل بھی نہ ہوں گے، یہی ہے لہٰذا اسے
باہر نکال کر بہت دور پھینک آئیے۔ پھر باری ہے ان بھاری اور بھدی چیزوں کی جن کی موجودگی میں سجاوٹ
ناممکن ہے یعنی ناشکری، لالچ، حرص، طمع، زیادہ سے زیادہ کی آرزو۔ یہ ہیں
تو بھاری سامان تو ظاہر ہے کہ محنت بھی زیادہ لگے گی لیکن انہوں نے بہت جگہ گھیر لی
ہے اور ان کی موجودگی بھی کراہیت دلاتی ہے کیونکہ ان کی رنگت پھیکی ہے، ان کا ڈیل
ڈول بھدا ہے، ان کی شکل بد شکل ہے۔ انہیں تو محنت سے اٹھائیے اور بلندی سے نیچے پھینکیے
کہ چور چور ہوجائیں۔ اب رہ گئیں وہ برے وقتوں کی یادیں، جھگڑوں کی یادگاریں، لڑائیوں
کے قصے، حق تلفیوں کے صدیوں پرانے غم، تو یہ تو انتہائی خطرناک چیزیں ہیں کیونکہ
ان میں جو دیمک لگی ہے، وہ دوسری تمام خوبصورت چیزوں کو بھی کھوکھلا کر دے گی۔ ان
کو نکال کر پھینکیے ہی نہیں بلکہ جلا دیجیے کہ ان کی دیمک کے کیڑے تو اچھے وقتوں کی
یادگاروں، محبت بھری یادوں
کے لیے انتہائی مضر ہیں، یہ ان کو کبھی پنپنے نہیں دیں گے۔ کوڑا
ابھی بھی باقی ہے یعنی یہ تکبر، غرور، بداخلاقی، جھگڑالوپن جو یہاں وہاں پھیلا ہے
اور صفائی کو مکمل بھی نہیں ہونے دیتا بلکہ پیروں کو زخمی بھی کرتا ہے، انہیں اٹھا
کر پھینکیے۔ کوڑا تو ہٹ گیا اب مزید صفائی شروع کیجیے۔ سب سے پہلے دل کی زمین کو توبہ اور استغفار کے
آنسوئوں سے دھو ڈالیے۔ دل کے شیشوں کو شکر گزاری اور نعمتوں کے اقرار سے
صاف کیجیے۔ چمک اٹھیں گے اور کائینات کی اصل حقیقت سامنے آجائے گی۔ عاجزی اور
انکساری کا بستر بچھائیے۔ بردباری کے پردے ڈالیے، تسبیحات کے پھول کھلائیے، اب اس
ذکر الٰہی سے معطر اس روشن اور چمکدار دل میں اپنے معزز مہمانوں کا استقبال کیجیے یعنی
اپنے رب کی پہچان کا اقرار۔ لاالہ الاللہ، اللہ کی محبت، اللہ پر توکل، اللہ کے ہر
فیصلہ پر رضامندی۔ اس کو ہر حال میں راضی رکھنے کی کوشش کا عزم۔ دیکھیے مہمان دل میں
اتر تو آئے ہیں لیکن خیال رہے کہ ذرا بھی شکایت کا موقع نہ ہو، طبیعت اور فطرت کے
خلاف کوئی بات نہ ہو۔دل تو مہک گیا چمک گیا، پہلی گھاٹی تو پار ہو گئی۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You