قدم قدم پہ نواز دیتے میرے نبی ﷺ کے قدوم ِاقدس
عظیم
اتنے کہ عرش چومے مرے نبی ﷺ کے قدومِ اقدس
پہاڑ
خوشیوں سے وجد کرتے ادب سے قدموں کے بوسے
لیتے
جب
ان کی قسمت جگانے جاتے مرے نبی ﷺ کے قدوم اقدس
کھڑے
تھے جب دو شہید اس پر اور ایک صدیق ساتھ ان کے
احد
کی لرزش کو روکتے تھے مرے نبی ﷺ کے قدوم ِاقدس
·
عَنِ
ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : وَافَقْتُ رَبِّيْ فِيْ ثَلاَثٍ : فِي
مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ، وَ فِي الْحِجَابِ، وَ فِي أَسَارٰی بَدْرٍ. رَوَاهُ
مُسْلِمٌ. ’’حضرت
عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میرے
رب نے تین امور میں میری موافقت فرمائی، مقام ابراہیم میں، حجاب میں اور بدر کے قیدیوں
میں (تین کا ذکر شہرت کے اعتبار سے ہے ورنہ ان آیات کی تعداد زیادہ ہے)۔ اس حدیث
کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 54 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب
فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1865، الحديث رقم : 2399
·
أَنَّ
أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُمْ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ أُحُدًا وَأَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ ,
وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ ، فَقَالَ :
اثْبُتْ أُحُدُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ . جب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر
احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”احد! قرار
پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔“ Sahih
Bukhari#3675
· عَنْ
أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَّلُ مَنْ
يُصَافِحُهُ الْحَقُّ عُمَرُ، وَأَوَّلُ مَنْ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ،
وَأَوَّلُ مَنْ يَأْخُذُ بِيَدِهِ، فَيُدْخِلُهُ الْجَنَّةَ . رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حق
تعالیٰ سب سے پہلے قیامت کے دن عمر سے مصافحہ کریں گے، اور سب سے پہلے انہیں سے
سلام کریں گے، اور سب سے پہلے ان کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کریں گے ۔ Sunnan
e Ibn e Maja#104
·
عَنْ
مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : اسْتَأْذَنَ
عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
وَعِنْدَهُ نِسْوَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُكَلِّمْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَهُ عَالِيَةً
أَصْوَاتُهُنَّ عَلَى صَوْتِهِ , فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ
قُمْنَ فَبَادَرْنَ الْحِجَابَ , فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَدَخَلَ عُمَرُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ يَضْحَكُ ، فَقَالَ عُمَرُ : أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ
اللَّهِ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ
عِنْدِي فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ ، فَقَالَ عُمَرُ : فَأَنْتَ أَحَقُّ أَنْ
يَهَبْنَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ : يَا عَدُوَّاتِ
أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْنَ : نَعَمْ أَنْتَ أَفَظُّ وَأَغْلَظُ مِنْ رَسُولِ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِيهًا
يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ
سَالِكًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ
عمر رضی اللہ عنہ نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند
عورتیں ( امہات المؤمنین میں سے ) بیٹھی باتیں کر رہی تھیں اور آپ کی آواز پر اپنی
آواز اونچی کرتے ہوئے آپ سے نان و نفقہ میں زیادتی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ جوں ہی
عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو وہ تمام کھڑی ہو کر پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ
کھڑی ہوئیں۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اور وہ داخل ہوئے تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ
تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ خوش رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مجھے ان عورتوں پر ہنسی آ رہی ہے جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن تمہاری
آواز سنتے ہی سب پردے کے پیچھے بھاگ گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول
اللہ! ڈرنا تو انہیں آپ سے چاہیے تھا۔ پھر انہوں نے ( عورتوں سے )
کہا اے اپنی جانوں کی دشمنو! تم مجھ سے تو ڈرتی ہو اور نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں، عورتوں نے کہا کہ ہاں، آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آپ کہیں زیادہ سخت ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: اے ابن خطاب! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان تمہیں
کسی راستے پر چلتا دیکھتا ہے تو اسے چھوڑ کر وہ کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے۔
·
أَنَّهُ
سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ :
وُضِعَ عُمَرُ عَلَى سَرِيرِهِ فَتَكَنَّفَهُ النَّاسُ يَدْعُونَ
وَيُصَلُّونَ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا
رَجُلٌ آخِذٌ مَنْكِبِي ، فَإِذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَتَرَحَّمَ عَلَى
عُمَرَ ، وَقَالَ : مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ
بِمِثْلِ عَمَلِهِ مِنْكَ , وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ أَنْ
يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ وَحَسِبْتُ إِنِّي كُنْتُ كَثِيرًا أَسْمَعُ
النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : ذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ
وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ ,
وَعُمَرُ .
جب عمر رضی اللہ عنہ
کو ( شہادت کے بعد ) ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو تمام لوگوں نے
نعش مبارک کو گھیر لیا اور ان کے لیے (
اللہ سے ) دعا اور مغفرت طلب کرنے لگے،
نعش ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی، میں بھی وہیں موجود تھا۔ اسی حالت میں اچانک ایک
صاحب نے میرا شانہ پکڑ لیا، میں نے دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے، پھر انہوں
نے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا رحمت کی اور
( ان کی نعش کو مخاطب کر کے ) کہا:
آپ نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس
کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے میں اللہ سے جا ملوں اور اللہ کی قسم! مجھے تو ( پہلے سے )
یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔ میرا
یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں نے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک
سے یہ الفاظ سنے تھے کہ ”میں، ابوبکر اور عمر گئے۔ میں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے۔
میں، ابوبکر اور عمر باہر آئے۔“
·
عَنْ
أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
: لَقَدْ كَانَ فِيمَنْ كَانَ
قَبْلَكُمْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ رِجَالٌ يُكَلَّمُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ
يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ فَإِنْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ فَعُمَرُ . رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اور
اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں
سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے بنی اسرائیل کی
امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے
ان سے کلام کیا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ عمر
ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پڑھا «من نبي ولا محدث» ۔ Sahih
Bukhari#3689
· عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله
عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ اﷲَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلی لِسَانِ عُمَرَ وَ
قَلْبِهِ وَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أمْرٌ قَطُّ فَقَالُوْا
فِيْهِ وَ قَالَ فِيْهِ عُمَرُ أوْقَالَ ابْنُ الْخَطَّابِ فِيْهِ شَکَّ خَارِجَةُ
إِلَّا نَزَلَ فِيهِ الْقُرْآنُ عَلٰی نَحْوِ مَا قَالَ عُمَرُ. رَوَاهُ
التِّرْمِذِيُّ. وً قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَ فِي الْبَابِ عَنِ
الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ وَ أَبِيْ ذَرٍّ وَ أَبِيْ هُرَيْرَةَ. ’’حضرت
عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا : اﷲ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا ہے۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں
جب کبھی لوگوں میں کوئی معاملہ درپیش ہوا اور اس کے متعلق لوگوں نے کچھ کہا اور
حضرت عمر ابن خطاب نے بھی کچھ کہا (خارجہ بن عبد اﷲ راوی کو شک ہے کہ کس طرح آپ کا
نام لیا گیا)۔ اس بارے میں رائے بیان کی تو ضرور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے
مطابق قرآن نازل ہوا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث
حسن صحیح ہے۔‘‘ اس باب میں فضل بن عباس، ابو ذر اور ابو ہریرۃ رضی اللہ عنھم سے بھی
روایات مذکور ہیں۔ الحديث رقم 55 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب،
باب فی مناقب عمر، 5 / 617، الحديث رقم : 3682
· عبد اللہ بن ابی بہت
بڑا منافق تھا۔ بظاہر مسلمان تھا لیکن باطنی طور پر اسلام کا دشمن تھا۔ جب وہ مرا
تو اس کا لڑکا ( جو خود ایک سچا مسلمان تھا ) حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا
اور نمازِ جنازہ پڑھانے کی درخواست کی ۔ حضور اکرم ﷺ اس کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے
لیے تشریف لے گئے۔ راستے میں حضرت عمر نے حضور ﷺ سے اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا
کہ آپ ﷺ اس منافق کی نمازِ جنازہ نہ پڑھائیں۔ جنازہ پڑھانے کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ
کا یہ حکم صادر ہوا کہ آئندہ ان منافقین میں سے کوئی مر جائے تو آپ ﷺ نہ اس کی
نماز پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں
اِسْتَغْفِرْ
لَـهُـمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَـهُـمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَـهُـمْ سَبْعِيْنَ
مَرَّةً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللّـٰهُ لَـهُـمْ ۚ ذٰلِكَ بِاَنَّـهُـمْ كَفَرُوْا
بِاللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الْفَاسِقِيْنَ (80) تو ان کے لیے بخشش مانگ یا نہ مانگ اگر تو ان کے لیے ستر
دفعہ بھی بخشش مانگے گا تو بھی اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا، یہ اس لیے کہ انہوں
نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا، اور اللہ نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا۔
نقطہ:
عبد اللہ بن ابی اور منافقین کے لیے ارشاد فرمایا اگرچہ آپ 70 بار بھی توبہ کریں گے میں معاف نہیں کروں گا
اور ایمان والوں کے لیے فرمایا کہ محبوب آپ ایک بار استغفار کر کے دیکھیں ہم معاف
بھی کر دیں گے بخش بھی دیں گے اور رحمت بھی کریں گے جملہ: محبوب گناہ گار آپ سے پیار کرتے
ہیں منافق آپ کا دشمن ہے محبوب ہم گناہ کب دیکھتے ہیں ہم تو بس دیکھتے ہیں کہ آپ
سے پیار کتنا کرتا ہے : ایک روایت وہ شخص جو گناہ بھی کرتا تھا ور اور پھر حضور کو
خوش بھی کرتا تھا لوگوں نے بات کی کہ گناہ چھوڑ کیوں نہیں دیتا حضور نے فرمایا اس
کے بارے میں بات نہ کرو یہ اللہ اور اس کے رسول سے پیار کرتا ہے۔
·
عَنْ
عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه اَنَّ رَجُلًا عَلٰی عَهْدِ النَّبِيِّ صلی
الله عليه وآله وسلم کَانَ اسْمُه عَبْدَ اﷲِ، وَکَانَ يُلَقَّبُ حِمَارًا،
وَکَانَ يُضْحِکُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَکَانَ النَّبِيُّ صلی
الله عليه وآله وسلم قَدْ جَلَدَه فِي الشَّرَابِ، فَاُتِيَ بِه يَوْمًا، فَاَمَرَ
بِه، فَجُلِدَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : اَللّٰهُمَّ، الْعَنْهُ مَا
اَکْثَرَ مَا يُؤْتٰی بِه، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا
تَلْعَنُوْهُ، فَوَاﷲِ، مَا عَلِمْتُ إِنَّه يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه. وفي
روارواية : لَا تَلْعَنْهُ فَإِنَّه يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ
وَأَبُوْ يَعْلٰی، وَإِسْنَادُه حَسَنٌ. 21 : اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب
الحدود، باب ما يکره من لعن شارب الخمر وإنه ليس بخارج من الملة، 6 / 2489، الرقم
: 6398، وعبد الرزاق في المصنف، 7 / 381، الرقم : 13552، وابو يعلی في المسند، 1 /
161، الرقم : 176، وأبو نعيم في حلرواية الأولياء، 3 / 228، والبزار في المسند، 1
/ 393، الرقم : 269. ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک شخص تھاجس کا نام عبد اﷲ
اور لقب حمار تھا، اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا۔
(ایک بار وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حالت نشہ میں لایا گیا تو) آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر شُرْبِ خمر کی حد جاری فرمائی۔ ایک روز اسے
(پھر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حالتِ نشہ میں لایا گیا تو آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے اسے (دوبارہ) کوڑے لگائے گئے۔ لوگوں میں سے کسی
نے کہا : اے اﷲ! اس پر لعنت فرما، یہ کتنی دفعہ (اس جرم میں) لایا گیا ہے۔ اس پر
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس پر لعنت نہ بھیجو، میں جانتا ہوں کہ یہ
اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ ایک روایت میں
ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس پر لعنت نہ بھیجو کیوں کہ یہ اﷲ
تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔
دوسرا نقطہ:
عمر کے لیے دعا کی اللہ نے قبول کر لی ایک
بار کرنے پر قبول کر لیا مگر منافقین کے لیے 70 بار بھی کریں گے تو قبول نہیں کروں
گا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمر کو مسئلہ حضور کی ذات سے نہیں تھا مسئلہ اللہ کی ذات سے
تھا یعنی اللہ کو ایک نہیں مانتے تھے
حضورﷺ کو تو امین اور صادق مانتے تھے ۔ ادھر منافقین کا مسئلہ اللہ کی ذات
نہیں وہ حضورﷺ کی ذات ہے تو اللہ تعالی نے فرمایا محبوب جو میرا دشمن ہے اس کے لیے
دعا کرے گا تو معاف کر دوں گا مگر جو تیرا دشمن ہے اسے کبھی معاف نہیں کروں گا۔
·
ایک
یہودی اور منافق مسلمان میں کسی بارے میں تنازعہ ہوا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے فیصلہ کروایا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیانات کے بعد فیصلہ
یہودی کے حق میں دیا۔ وہ منافق مسلمان حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا
کہ آپ حمیت دینی میں اس کا ساتھ دیں گے مگر جب آپ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقدمہ کا فیصلہ فرماچکے ہیں اور اب
منافق مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے تو تلوار اٹھا کر منافق کا سرقلم کردیا۔ قرآن کریم نے
سورہ نسآء میں اس فیصلہ کی توثیق کی اور مستقل طور پر یہ اصول طے پایا کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کو آخری حیثیت حاصل ہے اور جو اس فیصلہ کو درست
تسلیم نہ کرے وہ مومن نہیں ہے۔
فَلَا
وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ
ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا
تَسْلِیْمًا(۶۵)ترجمہ: کنزالعرفان تو اے حبیب! تمہارے رب کی قسم، یہ لوگ
مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنالیں پھر جو کچھ تم
حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے کوئی رکاوٹ نہ پائیں اوراچھی طرح دل سے مان لیں ۔
سرکارِ
دوعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نکیرین کے بارے میں سن کر)حضرت سیِّدُنا
عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم! جب وہ میرے پاس آئیں گے تو کیا
میں اسی طرح صحیح سَالِم رہوں گا جیسے اب ہوں؟‘‘فرمایا:” ہاں۔‘‘عرض کیا: ’’یارسول
اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم! پھر تو میں انہیں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
طرف سے خُوب جواب دوں گا۔‘‘سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: ’’اے عمر! اس رب عَزَّوَجَلَّ کی قسم جس نے مجھے حق دے کر بھیجا! مجھے جبریل
امین نے بتایا ہے کہ وہ دونوں فرشتے جب
تمہاری قبر میں آئیں گے اور سوالات کریں گے تو تم یوں جواب دو گے کہ میرا رب اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہے مگر تمہارا رب کون ہے؟
میرا دین اسلام ہے مگر تمہارا دین کیا ہے؟ میرے نبی تو محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ہیں مگر تمہارا نبی کون
ہے؟ وہ کہیں گے: بڑی تعجب کی بات ہے، ہم
تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں یا تم ہماری
طرف بھیجے گئے ہو؟‘‘(ریاض النضرۃ ،ج1،ص346)