اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ
بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ (سورہ الزخرف :67)
دنیامیں ہم بہت سے دوست
بناتے ہیں سکول ، کالج، فیس بک، انسٹا گرام، ٹویٹر، وٹس ایپ اور رپتا نہیں کیا کیا
کچھ ہے کہ ایک لمبی فہرست ہے ہمارے دوستوں کی، فالورز کی، سسکرائبرز کی، لائک کرنے
والوں کی ۔۔۔ تو کیا کبھی ہم نے سوچا کہ یہ دوستی کیا رنگ لائے گی ہمیں اس سے
فائدہ بھی ہے یا نقصان ہی نقصان ہے۔ ہاں دنیا میں ہمیں فائدہ ہی فائدہ نظر آتا ہے
کبھی دولت کے لالچ میں تو کبھی شہرت کے لالچ میں
مگر یاد رکھیں یہ دنیا عارضی ہے ایک نا ایک دن ختم ہو جائے گی اور موت کا
وقت مقرر ہے مگر ہمیں معلوم نہیں کس وقت کہاں کس حالت میں آ جائے اس کا اندازہ
نہیں اورر پھر آخرت کی زندگی ، کبھی نا ختم والی زندگی شروع ہو گی وہاں کوئی نئی
دوستی یاریاں نہیں ہوں گی بلکہ اسی دنیا کے نتائج بھگتنا پڑیں گے سب کو۔ جیسی
دوستی ہو گی ویسا وہ دیس ہو گا ۔ دوستی اور صحبت کے اثرات ہوتے ہیں اچھی دوستی
اچھے اثرات اور بری دوستی برے اثرات ۔۔ قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات نے
ساری باتیں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں۔ ذیل میں مذکور قرآن مجید کی آیات اور رسورل
اللہ ﷺ کے فرامین سے اپنی دوستی اور سنگت کا تجزیہ کریں اصلاح کریں۔
بری صحبت کے نتائج:
جب
جنتی دوزخیوں سے سوال کریں گے کہ تمہیں دوزخ میں کون سی چیز ے گئی تو کہیں گے کہ
ہم نماز نہیں پڑھتے تھےا ور پھر کہیں گے کہ:
وَكُنَّا
نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِيْنَ (سورۃ المدثر:45) ترجمہ: اور ہم
بکواس کرنے والوں کے ساتھ بکواس کیا کرتے تھے۔
اور
قیامت کے دن انسان افسوس کرے گا :
وَ یَوْمَ
یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ
الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا(۲۷)یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ
لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸)لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ
اِذْ جَآءَنِیْؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا(۲۹) (سورۃ
الفرقان:27،28،29)
اور
جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا ئے گا، کہے گا : اے کاش کہ میں نے رسول کے ساتھ راستہ
اختیار کیا ہوتا۔ ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔
بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا اور شیطان انسان کو
مصیبت کے وقت بے مدد چھوڑ دینے والا ہے۔
سب
ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے:
اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ
بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ (سورہ الزخرف :67)
اس
دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔
دوست کس کو بنائیں؟:
دوست بناتے وقت رسول اللہ
ﷺ کی چند نصیحتوں پر عمل کریں اور دارین کی سعادتیں اور رکامیابیاں حاصل کریں،
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا؛
1: عَنْ
أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: الرَّجُلُ عَلَى دِينِ
خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِل(جامع ترمذی: 2378)
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم
میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے“
وہ دوست بنائیں جو:
اللہ تعالی کی یاد
اورآخرت کی فکر کا سبب بنے:
2: قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ
اللَّهِ، أَيُّ جُلَسَائِنَا خَيْرٌ؟ قَالَ: «مَنْ ذَكَّرَكُمْ بِاللَّهِ
رُؤْيتَهُ، وَزَادَ فِي عِلْمِكُمْ مَنْطِقَهُ، وَذَكَّرَكُمْ بِالْآخِرَةِ
عَمَلُهُ» [المنتخب من مسند عبد بن حميد:631، مسند
أبي يعلى الموصلي:2437أمالي ابن سمعون الواعظ:111، جامع بيان العلم وفضله:815،
الأحاديث المختارة:209+210، شعب الإيمان للبيهقي:9446، المطالب العالية:3246]
[إتحاف الخيرة المهرة:6059 ، هَذَا إِسْنَادٌ رُوَاتُهُ ثِقَاتٌ.]
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں
: رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ ہم جن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں ان میں سب سے
اچھا شخص کون ہے؟ فرمایا۔: جس کے دیدار سے تمہیں اللہ یاد آئے، جس کی گفتگو تمہارے
علم میں اضافہ کرے، اور جس کا عمل تمہیں آخرت یاد دلائے۔
3: عَنْ عَبْدِ اللهِ يَعْنِي
ابْنَ مَسْعُودٍ قَالَ: أَكْثِرُوا ذِكْرَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَا عَلَيْكَ
أَنْ لَا تَصْحَبَ أَحَدًا، إِلَّا مَنْ أَعَانَكَ عَلَى ذِكْرِ اللهِ عَزَّ وَجَل۔
[شعب الإيمان:8998، بيهقي:5880]
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ کسی کو اپنے ساتھ مت
بیٹھا سوائے اس آدمی کے کو اللہ تعالی کا ذکر کرنے میں تیری مدد کرے ۔
متقی
و پرہیز گار ہو:
4: عَنْ
أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
قَالَ: لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا
تَقِيٌّ .(ابو داود: 4832)
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ‘ نبی
ﷺ نے فرمایا :’’ صرف مومن آدمی کی صحبت اختیار کر اور تیرا کھانا بھی کوئی متقی ہی
کھائے ۔‘
لالچی
نہ ہو اور زاہد ہو:
5: عَنْ
أَبِي خَلَّادٍ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَيْتُمْ الرَّجُلَ قَدْ أُعْطِيَ زُهْدًا فِي
الدُّنْيَا وَقِلَّةَ مَنْطِقٍ فَاقْتَرِبُوا مِنْهُ فَإِنَّهُ يُلْقِي
الْحِكْمَةَ(ابن ماجہ : 4101)
حضرت ابوخلاد ( عبدالرحمن بن زہیر ) رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ اسے دنیا
سے بے رغبتی اور کم گوئی دی گئی ہے تو اس سے قریب ہوا کرو کیونکہ وہ حکمت کی باتیں
کرتا ہے ۔‘‘
ہر
لحاظ سے اچھا ہو اور برا نہ ہو:
6: عَنْ
أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَثَلُ الْجَلِيسِ
الصَّالِحِ ، وَالسَّوْءِ ، كَحَامِلِ الْمِسْكِ ، وَنَافِخِ الْكِيرِ ، فَحَامِلُ
الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ ، وَإِمَّا
أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً ، وَنَافِخُ الْكِيرِ إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ
ثِيَابَكَ ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً( بخاری: 5534)
. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیک اور برے
دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے ( جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی محبت میں ہو
) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور
پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا ( کم
از کم ) تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ
ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے ( بھٹی کی آگ سے ) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار
بدبودار دھواں پہنچے گا۔
عارف
کھڑی شریف میاں محمد بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
چنگے
بندے دی صحبت یارو وانگ دکان عطاراں
سودا
بھانویں مول نہ لیّے حُلّے آن ہزاراں
برے
بندے دی صحبت یارو وانگ دکان لوہاراں
کپڑے
بھانویں کُنج کُنج بہیے چِنگاں پین ہزاراں
چہرے
کو دیکھنے سے اللہ یاد آ جائے:
7: عن
ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم : فی
قولہ:(اَلَآاِنَّ اَوْلِیَآءَ اﷲِ لاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ
یَحْزَنُوْنَ۔)(یونس) قال: ھُمُ الَّذِیْنَ یُذْکَرُاللہُ لِرُؤیَتِھِمْ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس قول
کے بارے میں روایت کرتے ہیں: (اَلَآاِنَّ
اَوْلِیَآءَ اﷲِ لاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔) خبردار اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین
ہوں گے، کہتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آجائے۔(سلسلہ صحیحہ
:2986)
نیک
لوگوں کی صحبت کے فائدے:
نیک
لوگوں کی صحبت اور سنگت کے بہت زیادہ فائدے ہوتے ہیں ۔
قیامت
کے دن اکٹھے ہوں گے:
وَالَّـذِيْنَ
اٰمَنُـوْا وَاتَّبَعَتْهُـمْ ذُرِّيَّتُهُـمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِـهِـمْ
ذُرِّيَّتَـهُـمْ وَمَآ اَلَتْنَاهُـمْ مِّنْ عَمَلِهِـمْ مِّنْ شَىْءٍ ۚ كُلُّ
امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ (سورۃ
الطور :21)
اور
جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کے ساتھ ان
کی اولاد کو بھی (جنت) میں ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہ کریں
گے، ہر شخص اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے۔
قیامت
کے دن سب دوست ہوں گے:
اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ
بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ (سورہ الزخرف :67)
ترجمہ:
اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔
ان
کی سنگت میں بیٹھنے والا بد بخت نہیں رہتا:
8: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَلَائِكَةً
سَيَّارَةً فُضُلًا يَتَتَبَّعُونَ مَجَالِسَ الذِّكْرِ فَإِذَا وَجَدُوا مَجْلِسًا
فِيهِ ذِكْرٌ قَعَدُوا مَعَهُمْ وَحَفَّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِهِمْ
حَتَّى يَمْلَئُوا مَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَإِذَا
تَفَرَّقُوا عَرَجُوا وَصَعِدُوا إِلَى السَّمَاءِ قَالَ فَيَسْأَلُهُمْ اللَّهُ
عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ مِنْ أَيْنَ جِئْتُمْ فَيَقُولُونَ جِئْنَا
مِنْ عِنْدِ عِبَادٍ لَكَ فِي الْأَرْضِ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ
وَيُهَلِّلُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيَسْأَلُونَكَ قَالَ وَمَاذَا يَسْأَلُونِي
قَالُوا يَسْأَلُونَكَ جَنَّتَكَ قَالَ وَهَلْ رَأَوْا جَنَّتِي قَالُوا لَا أَيْ
رَبِّ قَالَ فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْا جَنَّتِي قَالُوا وَيَسْتَجِيرُونَكَ قَالَ
وَمِمَّ يَسْتَجِيرُونَنِي قَالُوا مِنْ نَارِكَ يَا رَبِّ قَالَ وَهَلْ رَأَوْا
نَارِي قَالُوا لَا قَالَ فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْا نَارِي قَالُوا وَيَسْتَغْفِرُونَكَ
قَالَ فَيَقُولُ قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ فَأَعْطَيْتُهُمْ مَا سَأَلُوا
وَأَجَرْتُهُمْ مِمَّا اسْتَجَارُوا قَالَ فَيَقُولُونَ رَبِّ فِيهِمْ فُلَانٌ
عَبْدٌ خَطَّاءٌ إِنَّمَا مَرَّ فَجَلَسَ مَعَهُمْ قَالَ فَيَقُولُ وَلَهُ
غَفَرْتُ هُمْ الْقَوْمُ لَا يَشْقَى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ (صحیح مسلم: 6839/2689)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے
فرمایا :’’ اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو ( اللہ کی زمین میں ) چکر
لگاتے رہتے ہیں ، وہ اللہ کے ذکر کی مجلسیں تلاش کرتے ہیں ، جب وہ کوئی ایسی مجلس
پاتے ہیں جس میں ( اللہ کا ) ذکر ہوتا ہے تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں ، وہ ایک
دوسرے کو اپنے پروں سے اس طرح ڈھانپ لیتے ہیں کہ اپنے اور دنیا کے آسمان کے درمیان
( کی وسعت کو ) بھر دیتے ہیں ۔ جب ( مجلس میں شریک ہونے والے ) لوگ منتشر ہو جاتے
ہیں تو یہ ( فرشتے ) بھی اوپر کی طرف جاتے ہیں اور آسمان پر چلے جاتے ہیں ، کہا :
تو اللہ عزوجل ان سے پوچھتا ہے ، حالانکہ وہ ان کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے
والا ہے : تم کہاں سے آئے ہو ؟ وہ کہتے ہیں : ہم زمین میں ( رہنے والے ) تیرے
بندوں کی طرف سے ( ہو کر ) آئے ہیں جو تیری پاکیزگی بیان کر رہے تھے ، تیری بڑائی
کہہ رہے تھے اور صرف اور صرف تیرے ہی معبود ہونے کا اقرار کر رہے تھے اور تیری حمد
و ثنا کر رہے تھے اور تجھی سے مانگ رہے تھے ، فرمایا : وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے
؟ انہوں نے کہا : وہ آپ سے آپ کی جنت مانگ رہے تھے ۔ فرمایا : کیا انہوں نے میری
جنت دیکھی ہے ؟ انہوں نے کہا : پروردگار ! ( انہوں نے ) نہیں ( دیکھی ) ، فرمایا :
اگر انہوں نے میری جنت دیکھی ہوتی کیا ہوتا ! ( کس الحاح و زاری سے مانگتے ! ) وہ
کہتے ہیں : اور وہ تیری پناہ مانگ رہے تھے ، فرمایا : وہ کس چیز سے میری پناہ مانگ
رہے تھے ؟ انہوں نے کہا : تیری آگ ( جہنم ) سے ، اے رب ! فرمایا : کیا انہوں نے
میری آگ ( جہنم ) دیکھی ہے ؟ انہوں نے کہا : اے رب ! نہیں ( دیکھی ) ، فرمایا :
اگر وہ میری جہنم دیکھ لیتے تو ( ان کا کیا حال ہوتا ! ) وہ کہتے ہیں : وہ تجھ سے
گناہوں کی بخشش مانگ رہے تھے ، تو وہ فرماتا ہے : میں نے ان کے گناہ بخش دیے اور
انہوں نے جو مانگا میں نے انہیں عطا کر دیا اور انہوں نے جس سے پناہ مانگی میں نے
انہیں پناہ دے دی ۔ ( رسول اللہ ﷺ نے ) فرمایا : وہ ( فرشتے ) کہتے ہیں : پروردگار
! ان میں فلاں شخص بھی موجود تھا ، سخت گناہ گار بندہ ، وہاں سے گزرتے ہوئے ان کے
ساتھ بیٹھ گیا تھا ۔ ( آپ ﷺ نے ) فرمایا : تو اللہ ارشاد فرماتا ہے : میں نے اس کو
بھی بخش دیا ۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے ساتھ بیٹھ جانے والا بھی
محروم نہیں رہتا ۔‘
بخشش
کا ذریعہ ہیں :
9: قال
: يقولونَ : رَبَّنا ! إِخْوَانُنا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنا ، ويَصُومُونَ
مَعَنا ، ويَحُجُّونَ مَعَنا ، [ ويجاهدونَ مَعَنا ] ، فَأَدْخَلْتَهُمُ النارَ .
قال : فيقولُ : اذْهَبُوا فَأَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ مِنْهُمْ ، فيأتونَهُمْ ،
فَيَعْرِفُونَهُمْ بِصُوَرِهِمْ ، لا تَأْكُلُ النارُ صُوَرَهُمْ ،(صحیح بخاری:7439)
اولیااللہ
کی صحبت کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے اعمال کی وجہ سے دوزخ میں
جائیں تو دوزخ میں بھی اللہ تعالی ان کے چہرے جلنے نہیں دے گا اور آگ ان کے چہروں
پر حرام کر دے گا یعنی ان کے چہرے دوزخ میں بھی سلامت رہین گے اور اللہ کے محبوب
بندے ان کو پہچان کر جنت میں لے جائیں گے۔