Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

9/26/22

سب سے پہلے مشیت کے انوار سے، نقشِ روئے محمد بنایا گیا| sab se pehly mashiyat k anwar se


 

سب سے  پہلے مشیت کے انوار سے، نقشِ روئے محمد بنایا گیا

پھر اسی نقش سے مانگ کر روشتی ،بزمِ کون و مکاں کو سجایا گیا

 

وه چراغِ محبت جو روزِازل ،خلوتِ لامکاں میں جلایا گیا

نور سے اس کے آخر جہاں تا جہاں ،ذرے ذرے کا دل جگمگا یا گیا

 

وہ محمد(ﷺ) بھی احمد(ﷺ) بھی محمود(ﷺ) بھی،  حسنِ مطلق کے شاہد بھی مشہود بھی

علم وحکمت میں وہ غیر محدود بھی، ظاہراً امّیوں میں اٹھایا گیا

 

بامِ  افلاک سے دامنِ خاک تک ،جذبہ وشوق سے فہم واِدراک تک

حسن ہرشےمیں ان کا سمویا گیا، نور ہر سمت ان کا رچایا گیا

 

ان کے افکار میں جانفراروشنی  ، ان کی گفتارمیں دل نشیں نغمگی

ان کے کردار میں ہے وہ پاکیزگی ، جس کو مقصود ِفطرت بنایا گیا

 

ان کی شفقت ہے بے حد و بے انتہا ،  ان کی رحمت تخیل سے بھی ماوریٰ

جو بھی عالم جہاں بھی بنایا گیا ، ان کی رحمت سے اس کو بسایا گیا

 

غم نصیبوں غریبوں کےغمخوار وہ ،  بے بسوں بے کسوں کے مدد گار وہ

جو بھی ان کی عنایت کا طالب ہوا ،  اس کے دل سے ہراک غم مٹایا گیا

 

میرے احساس میں روشنی ان کی ہے  ، میری آواز میں تا زگی ان کی ہے

میری اپنی نہیں زندگی ان کی ہے  ،جن کو میرا نگہباں بنایا گیا

 

حشر کاغم مجھے کس لیے ہو کرمؔ ، میرےآقا ہیں وہ میرے مولی ہیں وہ

جن کے دامن میں جنت بسائی گئی، جن کے ہاتھوں سے کوثر لٹا یا گیا

Share:

9/24/22

فضائل اہل بیت | مناقب اہل بیت | اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ

الحمد للہ رب العلمین والعاقبۃ للمتقین ۔۔

اما بعد

فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(33) اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے

کلام پڑھنا:

 کربلا کی خاک پر اک آدمی سجدے میں ہے

موت رسوا ہو چکی اور زندگی سجدے میں ہے

تشنگی شدت کی گرمی اور تیروں کے وار

پھر بھی اہل بیت کا ہر آدمی  سجدے میں ہے

وہ جو اک سجدہ علی کا بچ رہا تھا وقتِ فجر

فاطمہ کا لال یقیناً اب اسی سجدے میں ہے

تمہیداً : سورہ ہود میں اللہ تعالی نے انبیا ء کرام کا ذکر کیا اور ان کی سر کش امتوں کا ذکر کیا ، حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی سر کش امت کا ذکر اور ان پر عذاب کا ذکر کیا ، حضرت ہود علیہ السلام اور ان کی سر کش امت کا ذکر کیا ، حضرت صالح علیہ السلام اور ان کی امت کا ذکر کیا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا، حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر  کیاا ور ان کی سر کش امت کا ذکر کیا، حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی سرکش امت کا ذکر کیا اور حضرت موسی علیہ السلام کیا ذکر کیا اور پھر اس سورہ کے آخر میں ارشاد فرمایا : وَ كُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤَادَكَۚ ۔ترجمہ: اور رسولوں کی خبروں میں سے ہم سب تمہیں سناتے ہیں جس سے تمہا رے دل کو قوت دیں ۔۔تا کہ آپ کا دل مضبوط ہو اور دل کو سکون ملے  دل کو اطمئنان ملے ۔ یعنی انبیا کا ذکر اور ان کی سرکش قوم کا ذکر کرنا دل کو مضبوط کرتا تو سوچیں جب ہم سید الانبیاء کا ذکر کریں اگر ہم انبیا کے سردار کا ذکر کریں اور اللہ کے محبوب کا ذکر کریں اور پھر ساتھ سر کش قوم نہیں بلکہ اس کا ذکر کریں جس کو محبوب نے اپنے کندھو پر بیٹھا کر کھلایا ہو جس کو کندھوں پر بیٹھا کر سجدے لمبے کیے ہوں تو سوچیں دل کو کتنا سکون ملے گا دل کتنے مضبوط ہوں گے۔

ایک اور بات :  سورہ کہف: اللہ پاک نے سورہ کہف میں چند اپنے محبوب بندوں کا ذکر کیا جو اپنا ایمان بچانے کے لیے  ایک غار میں جا سوئے  فرمایا: وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗۤا اِلَى الْكَهْفِ یَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یُهَیِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا (کہف 16) ترجمہ: اور (آپس میں کہا:) جب تم ان لوگوں سے اور اللہ کے سوا جن کو یہ پوجتے ہیں ان سے جدا ہوجاؤ تو غار میں پناہ لو، تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے کام میں تمہارے لئے آسانی مہیا کردے گا۔۔۔ وَ كَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیْدِؕ (کہف 18) ترجمہ: اور ان کا کتا غار کی چوکھٹ پراپنی کلائیاں پھیلائے ہوئے ہے ۔۔ اور ان کے ساتھ ان کا کتا بھی تھا وہ بھی ان کے غار کے دوازے پر بیٹھ گیا ۔ اللہ نے کتے کی تعریف کی ہے (کوئی کہتا ہے کہ کتا جنت میں نہیں جائے گا میں نے بولا جناب ٹھیک ہے یہ میرا معاملہ نہیں جنت دینا اللہ کا کام ہے وہ دے یا نا دے ، قرآن مجید پڑھنے سے اتنا تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ایک اور کتے کا بھی ذکر کیا ۔۔۔۔ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِۚ-اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ یَلْهَثْؕ-ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۚ (الاعراف 176) ترجمہ: تو اس کا حال کتے کی طرح ہے تو اس پرسختی کرے تو زبان نکالے اور تو اسے چھوڑ دے تو(بھی) زبان نکالے ۔یہ ان لوگوں کا حال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ۔۔۔فرمایا زبان لٹکی ہوئی ہے ۔۔۔ مگر جو کتا نیک بندوں کا ہے اللہ پاک نے اس کتے کی قرآن مجید میں تعریف کی ہے ‘‘ فرمایا ان کا کتا  غار کے منہ پر ہاتھ پھیلا کر بیٹھا ہوا ہے’’ )جملہ: وہ لوگ جو اپنا ایمان بچانے کے لیے غار میں گئے تو جو ان کے ساتھ کتا گیا اللہ اس کتے کی تعریف قرآن مجید میں کی تو جناب ادھر وہ لوگ ہیں جو اپنا نہیں ساری امت کا دین بچانے کے لیے کربلا میں پہنچے تو سوچیں جو ان کے ساتھ ہوں گے جو ان سے محبت کرتے ہوں اللہ پاک ان پر کتنا مہربان ہو گا، ان سے کتنی محبت کرے گا۔۔

لوگو سنو!  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا  : اَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلٰی حُبِّ آلِ محمد مَاتَ شھیدا ، مات مغفورا لہ ، مات تائبا، یزف الی الجنۃ کما یزف العروس الی بیت زوجہا، جعل اللہ قبرہ مزار ملائکۃ الرحمۃ ((تفسير کبير الجزء السابع والعشرون ص166-165 تفسير کشاف، ج3، ص467))

اہلِ بیت کی محبت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے ، جب تک آل رسول ﷺ پر درود نہ پڑھیں نماز بھہی قبول نہیں ہوتی ۔ امام شافعی فرماتے ہیں۔

یا اھل بیت رسول اللہ حبکم

فرض من اللہ فی القرآن  انزلہ

کفاکم من عظیم القدر انکم

من لم یصل علیکملا صلاۃ لہ

فرمایا جو آلِ رسول پر درود نہیں پڑھتا اس کی نماز ہی نہیں ہوتی کیوں کہ اللہ تعالی نے ان کی محبت قرآن میں نازل کی ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے فرض ہے۔

جو اہلِ بیت سے محبت کرتے ہیں ان کے لیے اتنے انعامات ہیں تو سوچیں خود اہلِ بیت اطہار کی عظمت اور شان کا عالم کیا ہو گا؟۔۔۔

دست بستہ ہیں جہاں سارے زمانے والے

کتنے اعلی ہیں محمد کے گھرانے والے

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ۔۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا

جب یہ آیہ مقدسہ نازل ہوئی رسول اکرم ﷺ نے جناب علی کو بلایا ان کے شہزادوں کو بلا یا بی بی پاک کو بلایا اور چادر اوپر کر کے عرض کیا میرے مولا یہ اہلِ بیت ہیں الھمَّ ھٰؤلآءِ اہلُ بیتی فَأَذْھِبْ عَنْھُمُ الرِّجْسَ و طَھِّرْھُمْ تَطھیراً(ترمذی 3787)

یہ واقعہ حضرت ام سلمی کے گھر کا ہے تو حضور ساری امت کو بتانا چاہتے تھے کہ سب کو پتا کو چلے کہ اہلِ بیت کون ہیں اور اللہ کے ہاں ان کا مقام کیا ہے آپ 6 ماہ تک جب فجر کی نماز پڑھنے کے لیے جاتے تو پہلے سیدہ پاک کے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر فرماتے::: أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمُرُّ بِبَابِ فَاطِمَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ إِذَا خَرَجَ إِلَى صَلَاةِ الْفَجْرِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ الصَّلَاةَ يَا أَهْلَ الْبَيْتِ:‏‏‏‏ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (ترمذی 3206) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی الله عنہا کے دروازے کے سامنے سے چھ مہینے تک گزرتے رہے، جب فجر کے لیے نکلتے تو آپ کا معمول تھا کہ آپ آواز دیتے «الصلاة يا أهل البيت» ”اے میرے گھر والو! نماز فجر کے لیے اٹھو“ «إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا»

کتنے اعلی ہیں محمد کے گھرانے والے

تو ادھر امام عاشقاں امام احمد رضا خان کی روح تڑپی اور کہا

صبح و طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا

تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عینِ نور تیرا سب گھر انا نور کا

آپ تطہیر جس میں پودے جمے

اس ریاض نجابت پہ لاکھوں سلام

سیدہ زہرا طیبہ طاہرہ

جان ِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام

اہل البیت اطہار کو اللہ پاک نے کتنا پاک کیا ۔سبحان اللہ  ۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا

واذبوأ لابراھیم مکان البیت ان لا تشرک بی شیٗاً۔ یعنی رفرمایا کہ جب ہم نے ابراہیم  علیہ السلام کے لیے بیت اللہ شریف کی بنیاد ظاہر کردیں اور فرمایا کہ شرک نہ کرنا اور اس گھر کو پاک رکھنا طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں، رکوع کرنےو الوں اور سجدے کرنے والوں کے لیے

جملہ: یعنی جب بیت اللہ کو پاک کرنے کی بات ہوئی تو فرمایا اے پیارے ابراہیم اس کو پاک آپ کریں گے صاف آپ رکھیں گے مگر جب اہل بیت کی طہارت کی بات ہوئی تو فرمایا محبوب وہ کعبہ ہے جس کی پاکی کی ذمہ داری جناب ابراہیم کے ذمہ تھی اے محبوب اب بات تیرے گھر والوں کی ہے تو پاک کوئی اور نہیں میں خود اللہ رب العالمین کروں گا ، گویا علماء کہتے ہیں کعبہ کی پاکی سے زیادہ پاک  اہلِ بیت اطہار پاک ہیں۔  سوچیں کعبہ کتنا پاک حضور نے فرمایا جو حج کرے گا اس گھر کی زیارت کرے گا وہ اس طرح گناہوں سے پاک ہو جائے گوا اس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہیں یعنی ایسے جیسے ابھی پیدا ہوا ہے ۔ اور ثواب کتنا جو ایک نماز پڑھے اسے 1 لاکھ نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ یہ کعبہ سے محبت کرنےاور زیارت کرنے کا ثواب ہے تو سوچیں اہلِ بیت سے محبت کرنے کااجر کتنا ہو گا ، حضور نے فرمایا جو اہلِ بیت سے محبت کرتے ہوئے مرا تو گویا وہ ایسے مرا جیسے شہید ہوتے ہیں۔

کتنے اعلی ہیں محمد کے گھرانے والے

کتنے اعلی ہیں محمد کے گھرانے والے

نجران کے عسائیوں کا ایک وفد آیا حضور ﷺ سے مناظرہ کرنے لگے اور عیسی علیہ السلام کے بارے میں اپنا عقیدہ بیان کرنے لگے رسول اللہ ﷺ ان کا جواب دے رہے تھے جب وہ نہ مانے تو اللہ پاک نے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا محبوب چھوڑ ان کو بس مباہلہ کی دعوت دے اور ان کو فرما دے کہ اپنے بیٹوں کو لاو ، اپنی عورتوں کو لاو اور اپنے آپ کو لاو ٔاور اللہ سے دعا کرتے ہیں اور اللہ اس کو لعنت کرے جو جھوٹا ہو تو جب رسول اللہ ﷺ حسنین کریمین رجی اللہ تعالی عنھما اور سیدہ پاک اور مولا مشکل کشاء کو لے کر نکلے تو نجران کے عیسائیوں نے دیکھا تو ان کا پاپ پادری کہتا ہے لوگو سنو میرا تجربہ کہتا ہے میرا علم کہتا ہے کہ ان کے ساتھ مباہلہ نہ کرو اگر یہ اللہ سے دعا کریں تو اللہ پاک پہاڑوں کو اٹھا کر دوسری طرف کر دے  آج اگر یہ دعا کردیں تو تم سب کے سب ہلاک ہو جاو گے۔ یہ ہیں اہل بیت ۔۔۔۔۔

کتنے اعلی ہیں محمد کے گھرانے والے

کتنے عالی ہیں محمد کے گھرانے والے

رسول اللہ ﷺ کے مزار پاک میں آپ کے جسم پاک کے نیچے جو مٹی ہے وہ عرش اعظم سے افضل ہے۔ وہ مٹی جو حضور کا تخت ہے وہ اللہ پاک کے تخت سے افضل ہے امت کا اجماع ہے۔ سوچیں وہ مٹی جو حضور  کے نیچے ہےوہ عرش اعظم سے افضل ہے تو سوچیں جو مصطفے ﷺ کے کندھوں پر کھیلتے تھے ان کا مقام کیا ہو گا ، جو حضورﷺ کی گود میں بیٹھتے تھے ان کا مقام کیا ہو گا ، جن کو حضور نے فرمایا فاطمۃ بضعۃ منی ، مضغۃ منی ، شجنۃ منی تو اس سیدہ پاک کا مقام کیا ہوگا ، علی منی وانا من علی ، حسین منی وانا من الحسین  کا عالم کیا ہو گا ۔ یہ مٹی کا مقام ہے جو جسم کے نیچے  تو سوچیں ان کا عالم کیا ہو گا جن کے جسم میں مصطفے ﷺ کا خون مبارک گردش کرتا ہے ۔۔

کتنے اعلی ہیں محمد کےگھرانےو الے

کتنے اعلی ہیں محمد کےگھرانےو الے

کٹ کے شبیر نے کربل میں کیا یہ ثابت

اس طرح وعدہ نبھاتے ہیں نبھانےو الے

اہلِ بیت اطہار سے محبت ہمیں حضور نے سکھائی حضور کے صحابہ نے سکھائی حضرت عمر  فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ ، حسنین کریمین کو 1000 درھم دیے مگر اپنے بیٹے کو 500 دیے بیٹے نے کہا میں نے حضور کے دور میں جنگیں لڑی ہیں مجھے کم کیوں تو فرمایا سُن ،! تیرا باپ نہ علی جیسا ، تیری ماں نہ فاطمہ جیسی نا تیرا نانا محمد عربی جیسا  اس لیے ان کو زیادہ دیا۔

کتنے اعلی ہیں محمد کےگھرانےو الے

کتنے اعلی ہیں محمد کےگھرانےو الے

 

 

Share:

true friendship | benefits of good friends | دوستی کس سے کریں قرآن و حدیث کی روشنی میں | صالحین کی صحبت

اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ (سورہ الزخرف :67)

دنیامیں ہم بہت سے دوست بناتے ہیں سکول ، کالج، فیس بک، انسٹا گرام، ٹویٹر، وٹس ایپ اور رپتا نہیں کیا کیا کچھ ہے کہ ایک لمبی فہرست ہے ہمارے دوستوں کی، فالورز کی، سسکرائبرز کی، لائک کرنے والوں کی ۔۔۔ تو کیا کبھی ہم نے سوچا کہ یہ دوستی کیا رنگ لائے گی ہمیں اس سے فائدہ بھی ہے یا نقصان ہی نقصان ہے۔ ہاں دنیا میں ہمیں فائدہ ہی فائدہ نظر آتا ہے کبھی دولت کے لالچ میں تو کبھی شہرت کے لالچ میں  مگر یاد رکھیں یہ دنیا عارضی ہے ایک نا ایک دن ختم ہو جائے گی اور موت کا وقت مقرر ہے مگر ہمیں معلوم نہیں کس وقت کہاں کس حالت میں آ جائے اس کا اندازہ نہیں اورر پھر آخرت کی زندگی ، کبھی نا ختم والی زندگی شروع ہو گی وہاں کوئی نئی دوستی یاریاں نہیں ہوں گی بلکہ اسی دنیا کے نتائج بھگتنا پڑیں گے سب کو۔ جیسی دوستی ہو گی ویسا وہ دیس ہو گا ۔ دوستی اور صحبت کے اثرات ہوتے ہیں اچھی دوستی اچھے اثرات اور بری دوستی برے اثرات ۔۔ قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات نے ساری باتیں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں۔ ذیل میں مذکور قرآن مجید کی آیات اور رسورل اللہ ﷺ کے فرامین سے اپنی دوستی اور سنگت کا تجزیہ کریں اصلاح کریں۔

بری صحبت کے نتائج:

جب جنتی دوزخیوں سے سوال کریں گے کہ تمہیں دوزخ میں کون سی چیز ے گئی تو کہیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھےا ور پھر کہیں گے کہ:

وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِيْنَ (سورۃ المدثر:45) ترجمہ:  اور ہم بکواس کرنے والوں کے ساتھ بکواس کیا کرتے تھے۔

اور قیامت کے دن انسان افسوس کرے گا :

وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا(۲۷)یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸)لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا(۲۹) (سورۃ الفرقان:27،28،29)

اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا ئے گا، کہے گا : اے کاش کہ میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا اور شیطان انسان کو مصیبت کے وقت بے مدد چھوڑ دینے والا ہے۔

سب ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے:

اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ (سورہ الزخرف :67)

اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔

 

دوست کس کو بنائیں؟:

دوست بناتے وقت رسول اللہ ﷺ کی چند نصیحتوں پر عمل کریں اور دارین کی سعادتیں اور رکامیابیاں حاصل کریں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا؛

1: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِل(جامع ترمذی: 2378)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے“

 

وہ دوست بنائیں جو:

 

اللہ تعالی کی یاد اورآخرت کی فکر کا سبب بنے:

2: قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ جُلَسَائِنَا خَيْرٌ؟ قَالَ: «مَنْ ذَكَّرَكُمْ بِاللَّهِ رُؤْيتَهُ، وَزَادَ فِي عِلْمِكُمْ مَنْطِقَهُ، وَذَكَّرَكُمْ بِالْآخِرَةِ عَمَلُهُ» [المنتخب من مسند عبد بن حميد:631، مسند أبي يعلى الموصلي:2437أمالي ابن سمعون الواعظ:111، جامع بيان العلم وفضله:815، الأحاديث المختارة:209+210، شعب الإيمان للبيهقي:9446، المطالب العالية:3246] [إتحاف الخيرة المهرة:6059 ، هَذَا إِسْنَادٌ رُوَاتُهُ ثِقَاتٌ.]

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ ہم جن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں ان میں سب سے اچھا شخص کون ہے؟ فرمایا۔: جس کے دیدار سے تمہیں اللہ یاد آئے، جس کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے، اور جس کا عمل تمہیں آخرت یاد دلائے۔

 

3: عَنْ عَبْدِ اللهِ يَعْنِي ابْنَ مَسْعُودٍ قَالَ: أَكْثِرُوا ذِكْرَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَا عَلَيْكَ أَنْ لَا تَصْحَبَ أَحَدًا، إِلَّا مَنْ أَعَانَكَ عَلَى ذِكْرِ اللهِ عَزَّ وَجَل۔ [شعب الإيمان:8998، بيهقي:5880]

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ کسی کو اپنے ساتھ مت بیٹھا سوائے اس آدمی کے کو اللہ تعالی کا ذکر کرنے میں تیری مدد کرے ۔

 

متقی و پرہیز گار ہو:

4: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ .(ابو داود: 4832)

 حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ‘ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ صرف مومن آدمی کی صحبت اختیار کر اور تیرا کھانا بھی کوئی متقی ہی کھائے ۔‘

 

لالچی نہ ہو اور زاہد ہو:

5: عَنْ أَبِي خَلَّادٍ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَيْتُمْ الرَّجُلَ قَدْ أُعْطِيَ زُهْدًا فِي الدُّنْيَا وَقِلَّةَ مَنْطِقٍ فَاقْتَرِبُوا مِنْهُ فَإِنَّهُ يُلْقِي الْحِكْمَةَ(ابن ماجہ : 4101)

 حضرت ابوخلاد ( عبدالرحمن بن زہیر ) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ اسے دنیا سے بے رغبتی اور کم گوئی دی گئی ہے تو اس سے قریب ہوا کرو کیونکہ وہ حکمت کی باتیں کرتا ہے ۔‘‘

 

ہر لحاظ سے اچھا ہو اور برا نہ ہو:

6: عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ :    مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ ، وَالسَّوْءِ ، كَحَامِلِ الْمِسْكِ ، وَنَافِخِ الْكِيرِ ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً ، وَنَافِخُ الْكِيرِ إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً( بخاری: 5534)

. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے  ( جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی محبت میں ہو )  وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا  ( کم از کم )  تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے  ( بھٹی کی آگ سے )  جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بدبودار دھواں پہنچے گا۔

عارف کھڑی شریف میاں محمد بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

چنگے بندے دی صحبت یارو وانگ دکان عطاراں

سودا بھانویں مول نہ لیّے حُلّے آن ہزاراں

برے بندے دی صحبت یارو وانگ دکان لوہاراں

کپڑے بھانویں کُنج کُنج بہیے چِنگاں پین ہزاراں

 

چہرے کو دیکھنے سے اللہ یاد آ جائے:

7: عن ابن عباس عن النبی  صلی اللہ علیہ وسلم : فی قولہ:(اَلَآاِنَّ اَوْلِیَآءَ اﷲِ لاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔)(یونس) قال: ھُمُ الَّذِیْنَ یُذْکَرُاللہُ لِرُؤیَتِھِمْ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا نبی  ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں روایت کرتے ہیں: (اَلَآاِنَّ اَوْلِیَآءَ اﷲِ لاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔) خبردار اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے، کہتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آجائے۔(سلسلہ صحیحہ :2986)

نیک لوگوں کی صحبت کے فائدے:

نیک لوگوں کی صحبت اور سنگت کے بہت زیادہ فائدے ہوتے ہیں ۔

 

قیامت کے دن اکٹھے ہوں گے:

وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَاتَّبَعَتْهُـمْ ذُرِّيَّتُهُـمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِـهِـمْ ذُرِّيَّتَـهُـمْ وَمَآ اَلَتْنَاهُـمْ مِّنْ عَمَلِهِـمْ مِّنْ شَىْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ (سورۃ الطور :21)

اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی (جنت) میں ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے، ہر شخص اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے۔

 

قیامت کے دن سب دوست ہوں گے:

اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ (سورہ الزخرف :67)

ترجمہ: اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔

 

ان کی سنگت میں بیٹھنے والا بد بخت نہیں رہتا:

8: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَلَائِكَةً سَيَّارَةً فُضُلًا يَتَتَبَّعُونَ مَجَالِسَ الذِّكْرِ فَإِذَا وَجَدُوا مَجْلِسًا فِيهِ ذِكْرٌ قَعَدُوا مَعَهُمْ وَحَفَّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِهِمْ حَتَّى يَمْلَئُوا مَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَإِذَا تَفَرَّقُوا عَرَجُوا وَصَعِدُوا إِلَى السَّمَاءِ قَالَ فَيَسْأَلُهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ مِنْ أَيْنَ جِئْتُمْ فَيَقُولُونَ جِئْنَا مِنْ عِنْدِ عِبَادٍ لَكَ فِي الْأَرْضِ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيُهَلِّلُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيَسْأَلُونَكَ قَالَ وَمَاذَا يَسْأَلُونِي قَالُوا يَسْأَلُونَكَ جَنَّتَكَ قَالَ وَهَلْ رَأَوْا جَنَّتِي قَالُوا لَا أَيْ رَبِّ قَالَ فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْا جَنَّتِي قَالُوا وَيَسْتَجِيرُونَكَ قَالَ وَمِمَّ يَسْتَجِيرُونَنِي قَالُوا مِنْ نَارِكَ يَا رَبِّ قَالَ وَهَلْ رَأَوْا نَارِي قَالُوا لَا قَالَ فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْا نَارِي قَالُوا وَيَسْتَغْفِرُونَكَ قَالَ فَيَقُولُ قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ فَأَعْطَيْتُهُمْ مَا سَأَلُوا وَأَجَرْتُهُمْ مِمَّا اسْتَجَارُوا قَالَ فَيَقُولُونَ رَبِّ فِيهِمْ فُلَانٌ عَبْدٌ خَطَّاءٌ إِنَّمَا مَرَّ فَجَلَسَ مَعَهُمْ قَالَ فَيَقُولُ وَلَهُ غَفَرْتُ هُمْ الْقَوْمُ لَا يَشْقَى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ (صحیح مسلم: 6839/2689)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا :’’ اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو ( اللہ کی زمین میں ) چکر لگاتے رہتے ہیں ، وہ اللہ کے ذکر کی مجلسیں تلاش کرتے ہیں ، جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں ( اللہ کا ) ذکر ہوتا ہے تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں ، وہ ایک دوسرے کو اپنے پروں سے اس طرح ڈھانپ لیتے ہیں کہ اپنے اور دنیا کے آسمان کے درمیان ( کی وسعت کو ) بھر دیتے ہیں ۔ جب ( مجلس میں شریک ہونے والے ) لوگ منتشر ہو جاتے ہیں تو یہ ( فرشتے ) بھی اوپر کی طرف جاتے ہیں اور آسمان پر چلے جاتے ہیں ، کہا : تو اللہ عزوجل ان سے پوچھتا ہے ، حالانکہ وہ ان کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والا ہے : تم کہاں سے آئے ہو ؟ وہ کہتے ہیں : ہم زمین میں ( رہنے والے ) تیرے بندوں کی طرف سے ( ہو کر ) آئے ہیں جو تیری پاکیزگی بیان کر رہے تھے ، تیری بڑائی کہہ رہے تھے اور صرف اور صرف تیرے ہی معبود ہونے کا اقرار کر رہے تھے اور تیری حمد و ثنا کر رہے تھے اور تجھی سے مانگ رہے تھے ، فرمایا : وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے ؟ انہوں نے کہا : وہ آپ سے آپ کی جنت مانگ رہے تھے ۔ فرمایا : کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے ؟ انہوں نے کہا : پروردگار ! ( انہوں نے ) نہیں ( دیکھی ) ، فرمایا : اگر انہوں نے میری جنت دیکھی ہوتی کیا ہوتا ! ( کس الحاح و زاری سے مانگتے ! ) وہ کہتے ہیں : اور وہ تیری پناہ مانگ رہے تھے ، فرمایا : وہ کس چیز سے میری پناہ مانگ رہے تھے ؟ انہوں نے کہا : تیری آگ ( جہنم ) سے ، اے رب ! فرمایا : کیا انہوں نے میری آگ ( جہنم ) دیکھی ہے ؟ انہوں نے کہا : اے رب ! نہیں ( دیکھی ) ، فرمایا : اگر وہ میری جہنم دیکھ لیتے تو ( ان کا کیا حال ہوتا ! ) وہ کہتے ہیں : وہ تجھ سے گناہوں کی بخشش مانگ رہے تھے ، تو وہ فرماتا ہے : میں نے ان کے گناہ بخش دیے اور انہوں نے جو مانگا میں نے انہیں عطا کر دیا اور انہوں نے جس سے پناہ مانگی میں نے انہیں پناہ دے دی ۔ ( رسول اللہ ﷺ نے ) فرمایا : وہ ( فرشتے ) کہتے ہیں : پروردگار ! ان میں فلاں شخص بھی موجود تھا ، سخت گناہ گار بندہ ، وہاں سے گزرتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا تھا ۔ ( آپ ﷺ نے ) فرمایا : تو اللہ ارشاد فرماتا ہے : میں نے اس کو بھی بخش دیا ۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے ساتھ بیٹھ جانے والا بھی محروم نہیں رہتا ۔‘

 

بخشش کا ذریعہ ہیں :

9: قال : يقولونَ : رَبَّنا ! إِخْوَانُنا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنا ، ويَصُومُونَ مَعَنا ، ويَحُجُّونَ مَعَنا ، [ ويجاهدونَ مَعَنا ] ، فَأَدْخَلْتَهُمُ النارَ . قال : فيقولُ : اذْهَبُوا فَأَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ مِنْهُمْ ، فيأتونَهُمْ ، فَيَعْرِفُونَهُمْ بِصُوَرِهِمْ ، لا تَأْكُلُ النارُ صُوَرَهُمْ ،(صحیح بخاری:7439)

اولیااللہ کی صحبت کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے اعمال کی وجہ سے دوزخ میں جائیں تو دوزخ میں بھی اللہ تعالی ان کے چہرے جلنے نہیں دے گا اور آگ ان کے چہروں پر حرام کر دے گا یعنی ان کے چہرے دوزخ میں بھی سلامت رہین گے اور اللہ کے محبوب بندے ان کو پہچان کر جنت میں لے جائیں گے۔

 

 

Share:

9/23/22

ik noor ka alam he | اک نور کا عالم ہے داتا تیری نگری میں | manqbat data ali hajveri


 

اِک نور کا عالم ہے داتا تیری نگری میں

 جلوؤں کی چھما چھم ہے داتا تیری نگری

 

اک دستِ تسلی ہے رکھا ہوا سینے پر

بھولا ہوا ہر غم ہے داتا تیری نگری میں

 

ہر دکھ کا مداوا ہے اس شہر میں آ جانا

ہر زخم کا مرہم ہے داتا تیری نگری میں

 

ہوتا ہے گزر  یاں سے طیبہ کی ہواوں کا

خوشبو سی جو ہر دم ہے داتا تیری نگری میں

 

ہوتا ہے یہاں آ کر سر اونچا غریبوں کا

اور شاہوں کا سر خم ہے داتا تیری نگری میں

 

 اِس شہر میں جو آئے اِس شہر کا ہو جائے

وہ پیار کا موسم ہے داتا تیری نگری میں

 

 طیبہ کے سوا ہم نے دیکھی نہ کہیں سؔرور

جو رونقِ پیہم ہے داتا تیری نگری میں

Share:

9/16/22

Arabic Grammar | عربی گرامر | واحد تثنیہ جمع | جمع سالم جمع مکسر

افراد کے اعتبار سے اسم کی اقسام

 افراد کے اعتبار سے اس کی تین قسمیں ہیں: (۱) واحد(۲) تثنیہ(۳) جمع

1: واحد :  وہ اسم ہے، جو ایک فرد ( شے ) پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے شَارِع (راستہ) قَصْر (محل)، جَبَل (پہاڑ)، عَامِل (مزدور )

علم النحو کے مکمل اسباق کے لیے کلک کریں

۲- تثنیه :     وہ اسم ہے، جو دوافراد( دو چیزوں )پر دلالت کرتا ہے اور یہ واحد کے آخر میں( الف ساکن)  اور (نون مکسور) یا (یائے ساکن) اور( نون مکسور )لگانے سے بنتا ہے۔ جیسے شَارِعَانِ (دو راستے)، قَصْرَانِ (دو محل )، جَبَلانِ ( دو پہاڑ )رَجُلَيْنِ ( دومرد )

3: جمع:       وہ اسم ہے، جو دو سے زیادہ افراد پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے اَشْجَار (بہت سے درخت)، قُصُوْر (بہت سے محل)، شَوَارِع ( بہت سے راستے) جِبَال (بہت ے پہاڑ)

 

 جمع کی اقسام:

 اس کی دوقسمیں ہیں:۱۔ جمع سالم    ۲۔ جمع مکسر

علم النحو کے مکمل اسباق کے لیے کلک کریں

1:جمع سالم:  وہ جمع ہے جس کے واحد سے جمع بناتےوقت واحد کا صیغہ سلامت رہتا ہے ۔صرف اس کے آخر میں کچھ حروف بڑھا دیے جاتے ہیں۔ جیسے عَامِل سے عَامِلُونَ (بہت سے مزدور) اور عَامِلَۃ سے عَامِلَات ( بہت ہی مزدور عورتیں )

 

2: جمع مکسر:  وہ جمع ہے، جس کے واحد سے جمع بناتے وقت واحد کا صیغہ سلامت نہیں رہتا اس کی بناوٹ ٹوٹ جاتی ہے۔ سے رَجُل سے رِجَال، کِتَاب سے کُتُب، شَجَر سے أَشْجَار

 

جمع سالم کی اقسام

 اس کی دوقسمیں ہیں:ا۔ جمع مذکر سالم  ۲۔ جمع مونث سالم

1:  جمع مذکر سالم :    وہ جمع ہے، جو دو سے زیادہ مذکر افراد پر دلالت کرتی ہے، یہ واحد کے آخر میں (واؤ ساکن ، نون مفتوح )یا (یائے ساکن ، نون مفتوح)  لگانے سے بنتی ہے۔ جیسے عَاقِل (عقل مند ) سے عَاقِلُوْن ، عَالِم سے عَالِمِیْنَ

شرائط : یہ جمع ، ذکر ذوی العقول کے علم ( نام ) یا مذکر ذوی العقول کی صفت سے بنتی ہے۔جیسے محمد سے محمدُوْنَ، عَامِل سے عَامِلُوْنَ، عَاقِل سے عَاقِلُوْنَ

2: جمع مونث سالم : وہ جمع ہے، جو دو سے زیادہ مونث افراد پر دلالت کرتی ہے، اور یہ واحد کے آخر سے( ۃ)ہٹا کر اس کی جگہ (ا ت) لگانے سے بنتی ہے۔ جیسے مُسْلِمَة سے مُسْلِمَات، شَجَرَة سے شَجَرَات

 شرائط : یہ جمع مؤنث ذوی العقول کے علم اور صفت یا غیر ذوی العقول کی صفت سے بنتی ہے۔ جیسے زَیْنَبُ سے زَیْنَبَات، عَامِلَۃ سے عَامِلَات، شَامِخَة سے شَامِخَات

 

جمع مکسر کی اقسام

 اس کی تین قسمیں ہیں: ۱:جمع قلت       ۲ جمع کثرت    ۳۔ جمع منتہی الجموع

 

1:جمع قلت:  اس کا اطلاق تین سے لے کر دس تک کے افراد پر ہوتا ہے۔ جیسے ثَوْب ( کپڑا) سے اَثْوَاب

2: جمع کثرت: یہ جمع تین سے لے کر غیر محدود افراد کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ جیسے جَبَل سے جِبَال (بہت سے پہاڑ )، عِمَاد سے عُمُد (بہت سے ستون)۔

 3:جمع مُنْتَهَى الجَمُوْع:  وہ جمع ہے ، جس کی آگے مز ید جمع مکسر نہیں بن سکتی ، اس کا پہلا اور دوسرا حرف مفتوح ہوتے ہیں اور تیسری جگہ( الف ساکن) اور اس کے بعد والا حرف مکسور ہوتا ہے۔ جیسے مَسْجِد سے مَسَاجِدُ ، سَوَار سے اَسَاوِرُ (کنگن)

علم النحو کے مکمل اسباق کے لیے کلک کریں

 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive