دشمنی
کی تو کیا پوچھیے دوستی کا بھروسا نہیں ہے
آپ
مجھ سے بھی پردہ کریں اب کسی کا بھروسا نہیں ہے
کیا
ضروری ہے ہر رات میں چاند تم کو ملے جانِ
جاناں
جگنووں
سے بھی نسبت رکھو چاندنی کا بھروسا نہیں ہے
رات
دن مستقل سوچیے زندگی کیسے بہتر بنے
کتنے
دکھ زندگی کے لیے اور اسی کا بھروسا نہیں ہے
کل
یہ میرے بھی آنگن میں تھی جس پہ تجھ کو غرور آج ہے
کل
یہ شاید تجھے چھوڑ دے اس خوشی کا بھروسا نہیں ہے
یہ
تکلف نہ فرمائیے میری بانہوں میں آ جائیے
کل
یہ شاید رہے نہ رہے زندگی کا بھروسا نہیں ہے
پتھروں
سے کہو رازِ دل یہ نہ دیں گےدغا آپ کو
اے
ندیم آج کے دور میں آدمی کا بھروسا نہیں ہے
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You