دم
کروانا ، دم کرنا
شرعی طور پر جائز ہے۔ کوئی ممانعت نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ خوداپنے
ہاتھ پر دم کر کے سینے پر پھیرا کرتے تھے( صحیح بخاری:5735) اور اپنے نواسوں جناب حسنین کریمین علیھما
السلام کو دم کیا کرتے تھے۔ (ابن ماجہ:3525)
سورۃ
الفاتحۃ:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : انْطَلَقَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا حَتَّى نَزَلُوا
عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ ، فَاسْتَضَافُوهُمْ ، فَأَبَوْا أَنْ
يُضَيِّفُوهُمْ ، فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ ، فَسَعَوْا لَهُ بِكُلِّ
شَيْءٍ ، لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَاءِ
الرَّهْطَ الَّذِينَ نَزَلُوا لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْءٌ
فَأَتَوْهُمْ ، فَقَالُوا : يَا أَيُّهَا الرَّهْطُ ، إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ
وَسَعَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ ، فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ
مِنْ شَيْءٍ ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ : نَعَمْ ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْقِي ،
وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَلَمْ تُضَيِّفُونَا ، فَمَا أَنَا
بِرَاقٍ لَكُمْ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا فَصَالَحُوهُمْ عَلَى قَطِيعٍ
مِنَ الْغَنَمِ ، فَانْطَلَقَ يَتْفِلُ عَلَيْهِ ، وَيَقْرَأُ : الْحَمْدُ لِلَّهِ
رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ، فَكَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ
فَانْطَلَقَ يَمْشِي وَمَا بِهِ قَلَبَةٌ ، قَالَ : فَأَوْفَوْهُمْ جُعْلَهُمُ
الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : اقْسِمُوا ، فَقَالَ :
الَّذِي رَقَى ، لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَنَذْكُرَ لَهُ الَّذِي كَانَ فَنَنْظُرَ مَا يَأْمُرُنَا ،
فَقَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا
لَهُ ، فَقَالَ : وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ، ثُمَّ قَالَ : قَدْ
أَصَبْتُمُ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا ، فَضَحِكَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ: نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔ دوران سفر میں وہ عرب کے
ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنا لیں، لیکن
انہوں نے مہمانی نہیں کی، بلکہ صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو
سانپ نے ڈس لیا، قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار اچھا نہ
ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آ کر اترے ہیں۔
ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو۔ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور
کہا کہ بھائیو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش
کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟ ایک صحابی
نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا
تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ
سکتا، آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور الحمد لله رب العالمين پڑھ پڑھ کر دم کیا۔
ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی ہو۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف
و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ
کو ادا کر دی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کر لو، لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا، وہ بولے
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ صلی اللہ علیہ
وسلم سے اس کا ذکر کر لیں۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم
دیتے ہیں۔ چنانچہ سب حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہوئے اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تم
کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کر لو اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔ یہ
فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے (صحیح بخاری:2276)
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You