بس یہی سوچ کے پہروں نہ
رہا ہوش مجھے
کر دیا ہو نہ کہیں تُو نے فراموش مجھے
تیری آنکھوں کا یہ میخانہ سلامت ساقی
مست رکھتا ہے ترا بادہ ء سرجوش مجھے
ہچکیاں موت کی آنے لگیں اب تو آجا
اور کچھ دیر میں شاید نہ رہے ہوش مجھے
کب کا رسوا میرے اعمال مجھے کر دیتے
میری قسمت کہ ملا تجھ سا خطا پوش مجھے
کس کی آہٹ سے یہ سویا ہوا دل جاگ اُٹھا
کر دیا کس کی صدا نے ہمہ
تن گوش مجھے
یاد کرتا رہا تسبیح کے
دانوں پہ جسے
کردیا ہے اُسی ظالم نے فراموش مجھے
ایک دو جام سے نیت مری بھر جاتی تھی
تری آنکھوں نے بنایا ہے بلانوش مجھے
جیتے جی مجھ کو سمجھتے
تھے جو اک بارِ گراں
قبر تک لے کے گئے وہ بھی سرِ دوش مجھے
مجھ پہ کُھلنے نہیں دیتا وہ حقیقت میری
حجلہ ء ذات میں رکھتا ہے
وہ رُو پوش مجھے
صحبتِ میکدہ یاد آئے گی سب کو برسوں
نام لے لے کے مرا روئیں گے مے نوش مجھے
بُوئے گُل مانگنے آئے مرے
ہونٹوں سے مہک
چومنے کو ترے مل جائیں جو پاپوش مجھے
زندگی کے غم و آلام کا مارا تھا میں
ماں کی آغوش لگی قبر کی آغوش مجھے
دے بھی سکتاہوں نصیر اینٹ
کا پتھر سے جواب
وہ تو رکھا ہے مرے ظرف نے خاموش مجھے
Exellent
ReplyDelete