وَ
اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌؕ(سورۃ البقرہ : 186)
ترجمہ:
اور اے حبیب! جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو بیشک میں نزدیک ہوں۔
بے
شک اللہ تعالی بندے کے قریب ہے۔ وہ مالک اپنے بندے کے کتبنا قریب ہوتا ہے ارشاد
فرمایا :
وَ
نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (سورۃ ق:16)
ترجمہ:
اور ہم دل کی رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔
اللہ
تعالی کی بندے سے محبت:
اللہ تعالی کو اپنے بندے کی چاہت ہے ، وہ اپنے بندے سے بہت
زیادہ محبت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ میرا بندہ میرے پاس رہے میرے قرب میں رہے ، کبھی
مجھ سے دور نہ ہو ۔ وہ مالک خود اپنے حوالے سے فرماتا ہے کہ میں تو بندے کے بہت
قریب ہوتا ہے مگر یہ بندہ ہے کہ غفلت کا شکار ہو کر ہم سے بہت دور ہو جاتا ہے ۔ اس
غافل بندے کو کتنی محبت سے آواز دیتا ہے کس قدر محبت اور شفقت سے مالک اپنی طرف
بلاتا ہے ۔ کبھی فرماتا ہے :
یٰۤاَیُّهَا
الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ(6)الَّذِیْ
خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَۙ(7)فِیْۤ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَؕ (سورۃ
الانفطار: 6-8)
ترجمہ:
اے انسان!تجھے کس چیز نے اپنے کرم والے رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا۔جس نے
تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک بنایا پھر اعتدال والاکیا ۔جس صورت میں چاہا تجھے جوڑدیا۔
قُلْ یٰعِبَادِیَ
الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ
اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ
الرَّحِیْمُ (سورۃ الزمر : 53)
ترجمہ:
تم فرماؤ :اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس
نہ ہونا ، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ،بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔
نَبِّئْ
عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ (سورۃ الحجر :49)
خبردو
میرے بندوں کو کہ بےشک میں ہی ہوں بخشنے والا مہربان۔
وَ
اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌؕ-اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ
اِذَا دَعَانِۙ(سورۃ البقرۃ :186)
ترجمہ:
اور اے حبیب! جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو بیشک میں نزدیک ہوں ،
میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرے۔
ان آیات کے مفہوم میں کیا محبت ہے اور
کیا محبت کا اظہار ہے ۔ کیا محبتوں بھرا اسلوب ہے؟ کس محبت کے ساتھ اللہ پاک اپنے
بندے سے مخاطب ہوتا ہے۔ چاہت اور محبت کا اظہار پہلے اللہ پاک کی طرف سے ہوتا
ہے اور زیادہ چاہت رغبت اور محبت اللہ پاک
کو اپنے بندے سے ہے اس کیفیت کا اندازہ قرآن مجید کی آیات سے لگایا جا سکتا ہے
کہ ارشاد باری تعالی ہے:
فَاذْكُرُوْنِیْۤ
اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠(سورۃ البقرۃ: 152)
ترجمہ:
تو تم مجھے یاد کرو ،میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکرادا کرو اور میری ناشکری
نہ کرو۔
انسان
کو فرمایا جا رہا ہے کہ تو اللہ پاک کا ذکر کر وہ مالک تیرا ذکر کرے ۔ایک اصول دیا
جا رہا ہے کہ بندہ ذکر کرے تو اللہ پاک ذکر کرے گا مگر محبت کا عالم دیکھیں کہ یہ
فرما کون رہا ہے ؟۔۔۔۔ خود مالک و مولا اللہ جل شانہ خود فرما رہا ہے بندے تو میرا
ذکر کر میں تیرا ذکر کروں۔ یعنی پہل اللہ تعالی کی طرف سے ہے وہ مالک اپنے بندےسے
محبت کا اظہار فرماتا ہے ۔۔ حدیث قدسی دیکھیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا
مَعَهُ حِينَ يَذْكُرُنِي إِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي
وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ هُمْ خَيْرٌ مِنْهُمْ وَإِنْ
تَقَرَّبَ مِنِّي شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ
ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ
هَرْوَلَةً (صحیح مسلم: 6805)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
:’’ اللہ عزوجل فرماتا ہے : میرے بارے میں میرا بندہ جو گمان کرتا ہے میں ( اس کو
پورا کرنے کے لیے ) اس کے پاس ہوتا ہوں ۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے
ساتھ ہوتا ہوں ۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے دل میں یاد کرتا
ہوں اور اگر وہ مجھے ( بھری ) مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں ان کی مجلس سے اچھی
مجلس میں اسے یاد کرتا ہوں ، اگر وہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے تو میں ایک ہاتھ
اس کے قریب جاتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے تو میں دونوں ہاتھوں کی
پوری لمبائی کے برابر اس کے قریب آتا ہوں ، اگر وہ میرے پاس چلتا ہوا آتا ہے تو میں
دوڑتا ہوا اس کے پاس جاتا ہوں ۔
أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ إِذَا تَلَقَّانِي عَبْدِي بِشِبْرٍ تَلَقَّيْتُهُ
بِذِرَاعٍ وَإِذَا تَلَقَّانِي بِذِرَاعٍ تَلَقَّيْتُهُ بِبَاعٍ وَإِذَا
تَلَقَّانِي بِبَاعٍ أَتَيْتُهُ بِأَسْرَعَ (صحیح مسلم: 6807)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں رسول اللہ ﷺ سے بیان کیں ، پھر انہوں نے
متعدد احادیث بیان کیں ، ان میں سے ایک یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے کہا :’’ اللہ
تعالیٰ نے فرمایا : جب بندہ ایک بالشت ( بڑھ کر ) میرے پاس آتا ہے تو میں ایک ہاتھ
( بڑھ کر ) اس کے پاس جاتا ہوں اور جب وہ ایک ہاتھ ( بڑھ کر ) میرے پاس آتا ہے تو
میں دونوں ہاتھوں کی لمبائی کے برابر ( بڑھ کر ) اس کے پاس جاتا ہوں اور اگر وہ
دونوں ہاتھوں کی لمبائی کے برابر بڑھ کر میرے پاس آتا ہے تو میں اس کے پاس پہنچ
جاتا ہوں ، اس سے زیادہ تیزی سے آتا ہوں ۔‘‘
اہم
نکات: درج بالا احادیث سے
1: اللہ پاک اپنے بندے کے خیالات کے قریب ہے۔
2: بندے کے ساتھ ہوتا ہے۔
3: تنہا ذکر کرے تو اللہ پاک بھی تنہا کرتا ہے
اگر جماعت میں کرے ذکر تو اللہ پاک بھی
اس سے بہتر جماعت میں ذکر کرتا ہے۔
4: بندہ ایک بالشت قریب ہو تو اللہ پاک ایک
ہاتھ قریب ہوتا ہے۔
5: ایک ہاتھ قریب ہو تو اللہ پاک دوہاتھ قریب ہوتاہے۔
6: اگر بندہ چل کر آئے تو اللہ پاک جلدی سے
دوڑ کر(اس کی شان جیسے ہے) اس کے قریب ہوتا ہے۔
7: اللہ پاک فرماتا ہے کہ اگر بندہ دو ہاتھوں
کے برابر آتا ہے تو میں جلدی سے اس کے پاس پہنچ جاتا ہوں۔
یہ
نکات بتاتے ہیں کہ اللہ پاک کو اپنے بندے سے کتنی محبت ہے۔اب ایک اور حدیث قدسی
بخاری شریف سے پڑھیں اللہ پاک کتنا پیار
کرتا ہے اپنے بندے سے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ :
مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ ، وَمَا تَقَرَّبَ
إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ ، وَمَا
يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ ، فَإِذَا
أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ ، وَبَصَرَهُ الَّذِي
يُبْصِرُ بِهِ ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا ، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي
بِهَا ، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ ، وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ
، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ
الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ ، وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ (صحیح بخاری: 6502)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان
جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ
کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت
پسند ہیں جیسے نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل
عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔
پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ
سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس
سے وہ پکڑتا ہے ، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے
مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ کا طالب
ہوتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے
اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے ۔ وہ
تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا
لگتا ہے ۔
اہم نکات:
1: اپنے مقرب اور ولی بندے سے
دشمنی کرنے والے سے اعلانِ جنگ کرتا ہے۔
2: قر ب پانے کے دو طریقے:
۱:
فرائض کی پابندی
۲:نوافل کی پابندی
3: فرائض کی
پاندی سے قرب اور نوافل کی پابندی سے اعلانِ محبت فرماتا ہے اور اظہارِ محبت کرتا
ہے ۔ جیسے بندہ اگر کسی سے محبت کرتا ہو تو فرطِ جذبات میں اپنے محبوب کو کہتا ہے
کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، میری آنکھوں کا تارہ ہے ، وہ بندہ میری آنکھیں
ہے۔ اسیے الفاظ چوں کہ بندہ اللہ پاک کی طرف منسوب نہیں کر سکتا تو اللہ تعالی خود
فرماتا ہے اور اس میں ایک ناز بھرا انداز بھی پوشیدہ ہے کہ اللہ پاک خود ارشاد
فرماتا ہے کہ میں اس بندے کی آنکھیں ہوں اس کے کان ہوں اس کے ہاتھ ہوں اور اس کے
پاوں ہوں۔
4؛ بندے کے ہاتھ
پاوں آنکھ اور کان بن جانے کی توجیہات::
۱: جیسے بندہ ان اعضا سے محبت کرتا ہے ایسے اب
بندہ اپنے اللہ پاک سے محبت کرتا ہے۔
۲: ان اعضا میں قوت اور طاقت اللہ پاک کی ہوتی
ہے۔ (کرامات وغیرہ)
۳: ان اعضا سے اللہ پاک کی محبت کا اظہار ہوتا
ہے۔(اطاعت و فرماں برداری)
۴: ان اعضا سے لغو اور گناہ کا صدور ختم ہو
جاتا ہے ۔
۵: اللہ پاک کی طرف سے محبت کا اظہار ہے۔
5: اگر بندہ
سوال کرے تو ضرور عطا کرتا ہے اگر پناہ چاہے تو ضرور پناہ عطا کرتا ہے۔(اس لیے
اولیاء اللہ سے ہم دعا کرواتے ہیں کہ اللہ پاک ان کی ٹالتا نہیں اگنور نہیں
کرتا موڑتا نہیں ۔ اس لیے ہم ان کے ساتھ
نسبت جوڑتے ہیں کہ یہ خود تو محفوظ ہوتے ہی ہیں مگر جس کے لیے اللہ پاک سے دعا کر
دیں گے اللہ پاک ان کو بھی محفوط کر دے گا
جیسے خود ہی اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ
كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
(سورۃ التوبہ :119) ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔))
6: اللہ پاک
اپنے بندے کو تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتا اور نہ ہی دکھ دیتا ہے ۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You