روس میں گزرے زمانہ طالب علمی کے دوران کاؤنٹ لیو نیکالوچ
ٹالسٹائی جنہیں غیر روسی دنیا
Leo Tolstoy لیو ٹالسٹائی کے نام
سے جانتی ہے مشہور روسی دانشور اور ناول نگار
کا شہرہ آفاق ناول war and peace پڑھنے
کا موقع ملا۔ اُس ناول میں جہاں بہت سی باتیں خالص باطنی و روحانی تعبیرات پر مبنی
ہیں وہی لیو ٹالسٹائی کا خالص متصوفانہ
جملہ:
“All we can know is that we know nothing. And
that’s the height of human wisdom.”
میں جانتا ہوں کہ اپنی انا کے بُت کو ایک طرف رکھے بغیر عقل
کی محدود فطرت limited nature نظر نہیں آتی اور یہ ایمان یعنی faith کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ کیوں یہ جملہ بار بار
سننے کو ملتا ہے کہ سادہ لوگ ایمان کے بڑے پکے ہوتے ہیں۔ کبھی سوچا بھی ہے کہ انکا
faith کیوں اتنا strong ہوتا ہے؟ صرف اس لیے کہ اُنہوں نے کوئی بہت مضبوط انا کے
بُت نہیں بنا رکھے ہوتے اور فطرت کے قریب رہنے سے عقل کی محدودیت
( intellectual limitations ) کا
ادراک ہوتا ہے۔
ایمان کے لیے علم کی ضرورت نہیں ہوتی۔کون کہتا ہے کہ عالم
ہونے سے ایمان مضبوط ہوتا ہے؟ کیا اسلامی تاریخ میں سارے عالم مظبوط ایمان والے
لوگ تھے؟اب اس بحث میں کاہے کو پڑنا ۔ صاحبو!ایمان جھوٹی انا کے بُت کو پاش پاش کرنے سے مظبوط
ہوتا ہے۔ وہ جسے مولانا روم کہتے ہیں کہ بیٹا عقل کی عیاری کو بیچ اور عشق کی حیرانی
کو خرید۔ جہاں حیرانی کے میدان شروع ہوتے ہیں وہی سے ذاتِ حق کے عرفان کا آغاز
ہوتا ہے۔
میرا اللہ سائیں کوئی آسمان پر بیٹھا بوڑھا آدمی نہیں ہے جو
ہر لمحہ آدم کے بیٹے پر صرف اس لیے نگاہ رکھے ہے کہ کب یہ غفلت کرے اور کب وہ اسے
اسکی سزا میں دوزخ میں ڈال دے یا غفلت نہ کرے اور وہ اس پر جنت کے باغ کا دروازہ،
چند پرندہ نما ہوا میں اُڑتے وجود (
ملائکہ) سے کھلوا کر اُس کو جزا کے طور پر اس میں داخل کر دے۔ نہ ہی میرا اللہ سائیں
کو سناتا کلاز ہے جو آپ کی احمقانہ wish list کو پورا کرتا پھر رہا ہو۔
میرا اللہ سائیں تو اس کائنات کا اس cosmos کا خالق ہے وہ جس کی
رحمت نے اپنی لپیٹ میں ہر ایک مخلوق کو لے رکھا ہے ،ہر دل کو تھام رکھا ہے، وہ جس
کے ہاتھ میں میرے ہر زخم ،میرے ہر درد کی شفا ہے ۔وہ جس کا چہرہ؛ میں جہاں نگاہ
دوڑاتا ہوں دیکھتا ہوں۔ وہ جو ہر وقت میرے ساتھ رہتا ہے۔ وہ جس کے حضور میں اپنی
کمیوں کوتاہیوں پر معافی مانگنے میں سست ہو جاتا ہوں اور وہ مجھے بخشنے اور میری
ستاری کرنے میں ہمیشہ جلدی کرتا ہے۔ وہ میرا غفور وہ میرا ستار۔ بی بی رابعہ بصری علیہ رحمتہ نے کیا ہی خوب
ارشاد فرمایا:
‘‘صالح! تمہیں کس نے کہا کہ کبھی اللہ کا دروازہ بھی بند
ہوتا ہے۔ اللہ کا دروازہ تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔’’
میرا اللہ سائیں تو
وہ ہے جس کا دروازہ کھلا رہتا ہے وہ جو میرا غفور و ستار ہے۔ اُس سمیع کے سامنے فریاد
کرنے میں جھجک کیسی جو البصیر ہے۔ اور اس کے سامنے جھوٹ کیسا جو العلیم
ہے۔ میرا اللہ سائیں وہ قدیر ہے جسے چاہے عزت بخش دے جسے چاہے ذلت۔
ہک ہے ہک ہے ہک ہے
ہک دی دم دم سک ہے
سمع خراشی کی معذرت
التماس دُعا : صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی