کسی کافر کو نہ دیں دار
کو اپنا کرنا
ایک لمحے کے لئے یار کو
اپنا کرنا
عشق میں قرب کا ارمان بھی
کیا ارماں ہے
سائے کو چھوڑنا دیوار کو
اپنا کرنا
ہمیں بھولی نہیں اب تک
وفا کی چالیں
یاد ہے اس بت عیار کو
اپنا کرنا
کرچیاں چننا سدا اپنے انا
پیکر کی
اپنے ٹوٹے ہوئے پندار کو
اپنا کرنا
ناز بے جا نہ اٹھانا کسی
اہل زر کے
کسی مفلس کے دل زار کو
اپنا کرنا
اس کی بانہوں کے سہارے کی
تمنا جیسے
دھوپ میں سایۂ دیوار کو
اپنا کرنا
تو ہی وہ یوسف دوراں ہے
کہ آتا ہے جسے
اک جھلک میں بھرے بازار
کو اپنا کرنا
اپنے ہو کر بھی یہ اپنے
نہیں بنتے
اپنے ہو سکے تو دل اغیار
کو اپنا کرنا
وہ تو اک بات تھی ہم جس
پہ اڑے بیٹھے ہیں
ورنہ آتا ہے ہمیں یار کو
اپنا کرنا
دل کے بدلے میں جو دل
مانگے تو پھر بسم اللہ
جنس الفت کے خریدار کو
اپنا کرنا
پاک بازوں کا بہا لے گیا
زعم تقوی
یہ تیرا مجھ سے گنہ گار کواپنا کرنا
لاکھ اندھوں کی خجالت سے
کہیں بہتر ہے
صرف ایک دیدۂ بے دار کو
اپنا کرنا
غم فرقت میں تڑپنا ہے
مقدر اپنا
اپنی قسمت میں کہاں یار
کو اپنا کرنا
روزمرہ کا یہ ہے کھیل نصیرؔ
ان کے لئے
ایک دو باتوں میں دو چار کو اپنا کرنا
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You