Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

2/24/23

چاند تارے ہی کیا دیکھتے رہ گئے chand tare hi kia dekhty reh gay | naseer ul din naseer shah


 

چاند تارے ہی کیا دیکھتے رہ گئے

ان کو ارض و سماء دیکھتے رہ گئے

 

ہم درِ مصطفیٰ دیکھتے رہ گئے

نور ہی نور تھا دیکھتے رہ گئے

 

جب سواری چلی جبرئیل امیں

صورتِ نقشِ پا دیکھتے رہ گئے

 

وہ گئے عرش پر اور روح الامیں

سدرۃ المنتہی دیکھتے رہ گئے

 

نیک و بد پہ ہوا ان کا یکساں کرم

لوگ اچھا برا دیکھتے رہ گئے

 

وہ امامت کی شب وہ صفِ انبیا

مقتدی مقتدا دیکھتے رہ گئے

 

پڑھ کے روح الامیں سورہ ء والضحی

چہرہ ء مصطفیٰ دیکھتے رہ گئے

 

ہم گنہگار تھے مغفرت ہو گئی

خود نِگر پارسا دیکھتے رہ گئے

 

میں نصیر آج لایا وہ نعتِ نبی

نعت گو منہ میرا دیکھتے رہ گئے

 

سید نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ

Share:

2/20/23

معراج النبی قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ | اسرا والمعراج | براق دیدار الہی | سورۃ النجم | سورۃ بنی اسرائیل | سفرِ معراج | انبیا سے ملاقات | meraj nabi

اس آرٹیکل میں آپ درج ذیل عنوانات کے تحت  قرآن مجید اورصحیح احادیث کا مطالعہ کریں۔آخر میں کمنٹ دے کر حوصلہ افزائی ضرور فرمائیں  شکریہ۔


<<   سورۃ بنی اسرائیل کی آیت اور معراج النبی ﷺ

<<   سورۃ النجم کی آیات اور معراج النبی ﷺ

<<   نبی کریم ﷺ نے نور دیکھا  (رب کو دیکھا)

<<   اللہ تعالی زمین و آسمان کا نور ہے

<<   سفرِ معراج النبی ﷺ

<<   آسمانوں پر انبیائے کرام علیھم السلام کی ملاقات

<<   براق کا اچھلنا کودنا

<<   اللہ تعالی کے قریب ہوئے  یا اللہ تعالی حضور ﷺ کے قریب ہوا  ؟

<<   پانچ نمازیں رہ گئیں  تخفیف کے بعد

<<   حطیم میں کھڑے ہو کر بیت المقدس کو دیکھنا

<<   موسیٰ علیہ السلام کا نماز پڑھنا

<<   سفر معراج میں دو دو نوافل پڑھنا  (مدینہ منورہ ، بیت اللحم، طور سینا)

<<   حضور نبی کریم ﷺ کی نظر کا کمال

<<   معراج النبی ﷺ سے متعلق خوبصورت نعتیہ کلام کے لنک


سورۃ بنی اسرائیل کی آیت اور معراج النبی ﷺ:

سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ (سورۃ بنی اسرائیل: 1)

ترجمہ: پاکی ہے اسے جوراتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدِ حرام(خانہ کعبہ) سے مسجد اقصا(بیت المقدس) تک جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بےشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔

 

سورۃ النجم کی آیات اور معراج النبی ﷺ

وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ(۱) مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ(۲) وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳)اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰىۙ(۵)ذُوْ مِرَّةٍؕ-فَاسْتَوٰىۙ(۶) وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰىؕ(۷) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰىۙ(۸)فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ(۹) فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىؕ(۱۰) مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى(۱۱)اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى(۱۲)وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ(۱۳)عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى(۱۴)عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰىؕ(۱۵)اِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ مَا یَغْشٰىۙ(۱۶)مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى(۱۷)لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى(۱۸)

 

ترجمہ: اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اُترے۔ تمہارے صاحب نہ بہکے نہ بے راہ چلے۔ اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتےوہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے۔ انہیں سکھایا سخت قوتوں والے طاقتور نے پھر اس جلوہ نے قصد فرمایا۔ اور وہ آسمان بریں کے سب سے بلند کنارہ پر تھا۔ پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا پھر خوب اُتر آیا تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم۔ اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی۔ دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔ تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑتے ہو اور انہوں نے تو وہ جلوہ دوبار دیکھا سدرۃُ الْمُنْتَہیٰ کے پاس۔ اس کے پاس جنت الماویٰ ہےجب سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔ بےشک اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔

 

نبی کریم ﷺ نے نور دیکھا  (رب کو دیکھا)

عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ» (صحیح مسلم: 443)

ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ آپ نے جواب دیا :’’ وہ نور ہے ، میں اسے کہاں سے دیکھوں ! ‘‘

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتَ لِأَبِي ذرٍّ، لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: عَنْ أيِّ شيْءٍ كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قَالَ: كُنْتُ أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُ، فَقَالَ: «رَأَيْتُ نُورًا» (صحیح مسلم: 444)

 عبداللہ بن شقیق نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا : اگر میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا تو آپ سے سوال کرتا ۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا : تم ان سے کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ؟ عبداللہ بن شقیق نے کہا : میں آپ ﷺ سے سوال کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے آپ سے ( یہی ) سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا :’’ میں نے نور دیکھا ۔‘‘

 

 اللہ تعالی زمین و آسمان کا نور ہے:

اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌؕ-اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍؕ-اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍۙ-یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌؕ-نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍؕ یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ (سورۃ النور: 35)

ترجمہ: اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا اس کے نور کی مثال ایسی جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے وہ چراغ ایک فانوس میں ہے وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے موتی سا چمکتا روشن ہوتا ہے برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب(مشرق) کا نہ پچھّم(مغرب)کا قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اُٹھے اگرچہ اُسے آگ نہ چھوئے نور پر نور ہے اللہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ مثالیں بیان فرماتا ہے لوگوں کے لیے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

    نقطہ: اللہ تعالی زمین و آسمان کا نور ہے اور نور علی نور ہے وہ جس کو چاہتا ہے اپنی نور کی طرف ہدایت دے دیتا ہے مطلب جس پر چاہتا ہے اپنا نور ظاہر فرما دیتا ہے۔ یقینا ً یہ اس کے اپنے محبوب کی ذات ہے جس پر اس نے اپنے پردے ہٹا دیے تھے اور اپنے نور سے سرفراز فرمایا تھا۔

 

سفرِ معراج النبی ﷺ

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ ، عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ قال :    بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ , وَرُبَّمَا قال : فِي الْحِجْرِ , مُضْطَجِعًا إِذْ أَتَانِي آتٍ فَقَدَّ ، قَالَ : وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ فَشَقَّ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ ، فَقُلْتُ لِلْجَارُودِ وَهُوَ إِلَى جَنْبِي : مَا يَعْنِي بِهِ ، قَالَ : مِنْ ثُغْرَةِ نَحْرِهِ إِلَى شِعْرَتِهِ , وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : مِنْ قَصِّهِ إِلَى شِعْرَتِهِ فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِي , ثُمَّ أُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءَةٍ إِيمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِي , ثُمَّ حُشِيَ , ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْيَضَ ، فَقَالَ لَهُ الْجَارُودُ : هُوَ الْبُرَاقُ يَا أَبَا حَمْزَةَ ، قَالَ أَنَسٌ : نَعَمْ يَضَعُ خَطْوَهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ , فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَاسْتَفْتَحَ ، فَقِيلَ : مَنْ هَذَا ؟ قَالَ : جِبْرِيلُ , قِيلَ : وَمَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ ، قِيلَ : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ، قَالَ : نَعَمْ ، قِيلَ : مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ , فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا فِيهَا آدَمُ ، فَقَالَ : هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ , فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ ، ثُمَّ قَالَ : مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ , وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ , ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ فَاسْتَفْتَحَ ، قِيلَ : مَنْ هَذَا ؟ قَالَ : جِبْرِيلُ , قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ مُحَمَّدٌ , قِيلَ : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ، قَالَ : نَعَمْ ، قِيلَ : مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ , جَاءَ فَفَتَحَ , فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يَحْيَى , وَعِيسَى وَهُمَا ابْنَا الْخَالَةِ ، قَالَ : هَذَا يَحْيَى , وَعِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا , فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا ، ثُمَّ قَالَا : مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ , ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ ، قِيلَ : مَنْ هَذَا ؟ قَالَ : جِبْرِيلُ , قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ ، قِيلَ : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ، قَالَ : نَعَمْ ، قِيلَ : مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ , فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يُوسُفُ ، قَالَ : هَذَا يُوسُفُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ , فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ، ثُمَّ قَالَ : مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ , ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ فَاسْتَفْتَحَ ، قِيلَ : مَنْ هَذَا ؟ قَالَ : جِبْرِيلُ ، قِيلَ : وَمَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ ، قِيلَ : أَوَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ، قَالَ : نَعَمْ ، قِيلَ : مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ , فَلَمَّا خَلَصْتُ إِلَى إِدْرِيسَ ، قَالَ : هَذَا إِدْرِيسُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ , فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ، ثُمَّ قَالَ : مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ , ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ ، قِيلَ : مَنْ هَذَا ؟ قَالَ : جِبْرِيلُ ، قِيلَ : وَمَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ ، قِيلَ : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ، قَالَ : نَعَمْ ، قِيلَ : مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ , فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا هَارُونُ ، قَالَ : هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ , فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ، ثُمَّ قَالَ : مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ , ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ السَّادِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ ، قِيلَ : مَنْ هَذَا ؟ قَالَ : جِبْرِيلُ ، قِيلَ : مَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ ، قِيلَ : وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ , فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا مُوسَى ، قَالَ : هَذَا مُوسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِ , فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ، ثُمَّ قَالَ : مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ , فَلَمَّا تَجَاوَزْتُ بَكَى ، قِيلَ : لَهُ مَا يُبْكِيكَ ، قَالَ : أَبْكِي لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرُ مِمَّنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي , ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ ، قِيلَ : مَنْ هَذَا ؟ قَالَ : جِبْرِيلُ ، قِيلَ : وَمَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ ، قِيلَ : وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ , فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِبْرَاهِيمُ ، قَالَ : هَذَا أَبُوكَ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ ، قَالَ : فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ ، قَالَ : مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ , ثُمَّ رُفِعَتْ إِلَيَّ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى , فَإِذَا نَبْقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرَ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ ، قَالَ : هَذِهِ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى وَإِذَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ : نَهْرَانِ بَاطِنَانِ , وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ ، فَقُلْتُ : مَا هَذَانِ يَا جِبْرِيلُ ، قَالَ : أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ , وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ , وَالْفُرَاتُ , ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ , ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ , وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ , وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ , فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ ، فَقَالَ : هِيَ الْفِطْرَةُ الَّتِي أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ , ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ الصَّلَوَاتُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ , فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى مُوسَى ، فَقَالَ : بِمَا أُمِرْتَ ، قَالَ : أُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ ، قَالَ : إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ , وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ , فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ , فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ , فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ , فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى ، فَقَالَ : مِثْلَهُ , فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ , فَرَجَعْتُ فَقَالَ مِثْلَهُ , فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ , فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى ، فَقَالَ : بِمَ أُمِرْتَ ، قُلْتُ : أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ ، قَالَ : إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ , فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ ، قَالَ : سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ وَلَكِنِّي أَرْضَى وَأُسَلِّمُ ، قَالَ : فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادَى مُنَادٍ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي   .

نبی کریم ﷺ نے ان سے شب معراج کا واقعہ بیان کیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا ۔ بعض دفعہ قتادہ نے حطیم کے بجائے حجر بیان کیا کہ میرے پاس ایک صاحب ( جبریل علیہ السلام ) آئے اور میرا سینہ چاک کیا ۔ قتادہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ یہاں سے یہاں تک ۔ میں نے جارود سے سنا جو میرے قریب ہی بیٹھے تھے ۔ پوچھا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس لفظ سے کیا مراد تھی ؟ تو انہوں نے کہا کہ حلق سے ناف تک چاک کیا ( قتادہ نے بیان کیا کہ ) میں نے حضرت انس سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ کے سینے کے اوپر سے ناف تک چاک کیا ، پھر میرا دل نکالا اور ایک سونے کا طشت لایا گیا جو ایمان سے بھرا ہوا تھا ، اس سے میرا دل دھویا گیا اور پہلے کی طرح رکھ دیا گیا ۔ اس کے بعد ایک جانور لایا گیا جو گھوڑے سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا اور سفید ! جارود نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا : ابوحمزہ ! کیا وہ براق تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ۔ اس کا ہر قدم اس کے منتہائے نظر پر پڑتا تھا ( آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ) مجھے اس پر سوار کیا گیا اور جبریل مجھے لے کر چلے آسمان دنیا پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا ، پوچھا گیا کون صاحب ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ جبریل ( علیہ السلام ) پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون ہے ؟ آپ نے بتایا کہ محمد ( ﷺ ) ۔ پوچھا گیا ، کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ۔ اس پر آواز آئی ( انہیں ) خوش آمدید ! کیا ہی مبارک آنے والے ہیں وہ ، اور دروازہ کھول دیا ۔ جب میں اندر گیا تو میں نے وہاں آدم علیہ السلام کو دیکھا ، جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہ آپ کے جد امجد آدم علیہ السلام ہیں ، انہیں سلام کیجئے ۔ میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور فرمایا : خوش آمدید نیک بیٹے اور نیک نبی ! جبرائیل علیہ السلام اوپر چڑھے اور دوسرے آسمان پر آئے وہاں بھی دروازہ کھلوایا آواز آئی کون صاحب آئے ہیں ؟ بتایا کہ جبریل ( علیہ السلام ) پوچھا گیا آپ کے ساتھ اور کوئی صاحب بھی ہیں ؟ کہا محمد ( ﷺ ) ۔ پوچھا گیا کیا آپ کو انہیں بلانے کے لیے بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ۔ پھر آواز آئی ، انہیں خوش آمدید ۔ کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ۔ پھر دروازہ کھلا اور میں اندر گیا تو وہاں یحیی اور عیسیٰ علیہما السلام موجود تھے ۔ یہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں ۔ جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہ عیسیٰ اور یحیی علیہما السلام ہیں ، انہیں سلام کیجئے میں نے سلام کیا اور ان حضرات نے میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی ! یہاں سے جبریل علیہ السلام مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے کر چڑھے اور دروازہ کھلوایا ۔ پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ جبریل ۔ پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد ( ﷺ ) ۔ پوچھا گیا کیا انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں ۔ اس پر آواز آئی انہیں خوش آمدید ۔ کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ، دروازہ کھلا اور جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں یوسف علیہ السلام موجود تھے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ یوسف علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے ۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور فرمایا : خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی ! پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر اوپر چڑھے اور چوتھے آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا تو پوچھا گیا کون صاحب ہیں ؟ بتایا کہ جبریل ! پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون ہے ؟ کہا کہ محمد ( ﷺ ) ۔ پوچھا کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں ۔ کہا کہ انہیں خوش آمدید ۔ کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ! اب دروازہ کھلا جب میں وہاں ادریس علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہ ادریس علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے ، میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید پاک بھائی اور نیک نبی ۔ پھر مجھے لے کر پانچویں آسمان پر آئے اور دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون صاحب ہیں ؟ جواب دیا کہ جبریل ، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد ( ﷺ ) ۔ پوچھا گیا کہ انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں ، اب آواز آئی خوش آمدید کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ، یہاں جب میں ہارون علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ہارون علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے ، میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب کے بعد فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی ! یہاں سے لے کر مجھے آگے بڑھے اور چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں ؟ بتایا کہ جبریل ، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کوئی دوسرے صاحب بھی آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد ( ﷺ ) ۔ پوچھا گیا کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں ۔ پھر کہا انہیں خوش آمدید کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ۔ میں جب وہاں موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے ، میں نے سلام کیا اور انہوں نے جواب کے بعد فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی ! جب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے ، کسی نے پوچھا آپ رو کیوں رہے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا میں اس پر رو رہا ہوں کہ یہ لڑکا میرے بعد نبی بنا کر بھیجا گیا لیکن جنت میں اس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ ہوں گے ۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر ساتویں آسمان کی طرف گئے اور دروازہ کھلوایا ۔ پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ جبریل ، پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد ( ﷺ ) پوچھا گیا کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں ۔ کہا کہ انہیں خوش آمدید ۔ کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ، میں جب اندر گیا تو ابراہیم علیہ السلام تشریف رکھتے تھے ۔ جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ آپ کے جد امجد ہیں ، انہیں سلام کیجئے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بیٹے ! پھر سدرۃ المنتہیٰ کو میرے سامنے کر دیا گیا میں نے دیکھا کہ اس کے پھل مقام حجر کے مٹکوں کی طرح ( بڑے بڑے ) تھے اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کان کی طرح تھے ۔ جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے ۔ وہاں میں نے چار نہریں دیکھیں دو باطنی اور دو ظاہری ۔ میں نے پوچھا اے جبریل ! یہ کیا ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ جو دو باطنی نہریں ہیں وہ جنت سے تعلق رکھتی ہیں اور دو ظاہری نہریں ، نیل اور فرات ہیں ۔ پھر میرے سامنے بیت المعمور کو لایا گیا ، وہاں میرے سامنے ایک گلاس میں شراب ایک میں دودھ اور ایک میں شہد لایا گیا ۔ میں نے دودھ کا گلاس لے لیا تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہی فطرت ہے اور آپ اس پر قائم ہیں اور آپ کی امت بھی ! پھر مجھ پر روزانہ پچاس نمازیں فرض کی گئیں میں واپس ہوا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کس چیز کا آپ کو حکم ہوا ؟ میں نے کہا کہ روزانہ پچاس وقت کی نمازوں کا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا لیکن آپ کی امت میں اتنی طاقت نہیں ہے ۔ اس سے پہلے میرا برتاؤ لوگوں سے پڑ چکا ہے اور بنی اسرائیل کا مجھے تلخ تجربہ ہے ۔ اس لیے آپ اپنے رب کے حضور میں دوبارہ جائیے اور اپنی امت پر تخفیف کے لیے عرض کیجئے ۔ چنانچہ میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں دوبارہ حاضر ہوا اور تخفیف کے لیے عرض کی تو دس وقت کی نمازیں کم کر دی گئیں ۔ پھر میں جب واپسی میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پھر وہی سوال کیا ۔ میں دوبارہ بارگاہ رب تعالیٰ میں حاضر ہوا اور اس مرتبہ بھی دس وقت کی نمازیں کم ہوئیں ۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا اور تو انہوں نے وہی مطالبہ کیا ۔ میں نے اس مرتبہ بھی بارگاہ رب تعالیٰ میں حاضر ہو کر دس وقت کی نمازیں کم کرائیں ۔ موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے پھر گزرا اور اس مرتبہ بھی انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ۔ پھر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا تو مجھے دس وقت کی نمازوں کا حکم ہوا میں واپس ہونے لگا تو آپ نے پھر وہی کہا ۔ اب بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوا تو روزانہ صرف پانچ وقت کی نمازوں کا حکم باقی رہا ۔ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو آپ نے دریافت فرمایا اب کیا حکم ہوا ؟ میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ روزانہ پانچ وقت کی نمازوں کا حکم ہوا ہے ۔ فرمایا کہ آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی میرا برتاؤ آپ سے پہلے لوگوں کا ہو چکا ہے اور بنی اسرائیل کا مجھے تلخ تجربہ ہے ۔ اپنے رب کے دربار میں پھر حاضر ہو کر تخفیف کے لیے عرض کیجئے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا رب تعالیٰ سے میں بہت سوال کر چکا اور اب مجھے شرم آتی ہے ۔ اب میں بس اسی پر راضی ہوں ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر جب میں وہاں سے گزرنے لگا تو ندا آئی ” میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف کر چکا ۔“

 

 آسمانوں پر انبیائے کرام علیھم السلام کی ملاقات:

پہلا آسمان                 سیدنا آدم علیہ السلام

دوسراا ٓسمان             حضرت عیسٰی علیہ السلام اور یحیٰ علیہ السلام

تیسرا آسمان              حضرت یوسف علیہ السلام

چوتھا آسمان              حضرت ادریس علیہ السلام

پانچواں آسمان            حضرت ہارون علیہ السلام

چھٹا آسمان               حضرت موسیٰ علیہ السلام

ساتواں آسمان            حضرت ابراہیم علیہ السلام

 

براق کا اچھلنا کودنا ؛

عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ    أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ:‏‏‏‏ أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ هَذَا فَمَا رَكِبَكَ أَحَدٌ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَارْفَضَّ عَرَقًا   ، ‏‏‏‏‏‏ (سنن ترمذی:3131)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ  جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج حاصل ہوئی آپ کی سواری کے لیے براق لایا گیا۔ براق لگام لگایا ہوا تھا اور اس پر کاٹھی کسی ہوئی تھی، آپ نے اس پر سوار ہوتے وقت دقت محسوس کی تو جبرائیل علیہ السلام نے اسے یہ کہہ کر جھڑکا: تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا کر رہا ہے، تجھ پر اب تک ان سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی معزز شخص سوار نہیں ہوا ہے، یہ سن کر براق پسینے پسینے ہو گیا۔

 

تفسیر  ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى (8) فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى (9)

اللہ تعالی کے قریب ہوئے  یا اللہ تعالی حضور ﷺ کے قریب ہوا  ؟۔

ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ ، حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى ، وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ ، فَتَدَلَّى ، حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى ، فَأَوْحَى اللَّهُ فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَى أُمَّتِكَ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ (صحیح بخاری : 7517)

ترجمہ: پھر جبریل علیہ السلام انہیں لے کر اس سے بھی اوپر گئے جس کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں یہاں تک کہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے کر آئے اور رب العزت تبارک وتعالیٰ سے قریب ہوئے اور اتنے قریب جیسے کمان کے دونوں کنارے یا اس سے بھی قریب ۔ پھر اللہ نے اور دوسری باتوں کے ساتھ آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازوں کی وحی کی

قوسین مل گئے معراج ہو گئی

دو ابرو ملے ملاقات ہو گئی

 

پانچ نمازیں رہ گئیں  تخفیف کے بعد

ثُمَّ احْتَبَسَهُ مُوسَى عِنْدَ الْخَمْسِ ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ ، وَاللَّهِ لَقَدْ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قَوْمِي عَلَى أَدْنَى مِنْ هَذَا ، فَضَعُفُوا ، فَتَرَكُوهُ ، فَأُمَّتُكَ أَضْعَفُ أَجْسَادًا وَقُلُوبًا وَأَبْدَانًا وَأَبْصَارًا وَأَسْمَاعًا ، فَارْجِعْ ، فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ رَبُّكَ كُلَّ ذَلِكَ يَلْتَفِتُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِبْرِيلَ لِيُشِيرَ عَلَيْهِ وَلَا يَكْرَهُ ذَلِكَ جِبْرِيلُ ، فَرَفَعَهُ عِنْدَ الْخَامِسَةِ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ ، إِنَّ أُمَّتِي ضُعَفَاءُ أَجْسَادُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ وَأَسْمَاعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَأَبْدَانُهُمْ ، فَخَفِّفْ عَنَّا ، فَقَالَ الْجَبَّارُ : يَا مُحَمَّدُ ، قَالَ : لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ ، قَالَ : إِنَّهُ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ كَمَا فَرَضْتُهُ عَلَيْكَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ ، قَالَ : فَكُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا فَهِيَ خَمْسُونَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ وَهِيَ خَمْسٌ عَلَيْكَ ، فَرَجَعَ إِلَى مُوسَى ، فَقَالَ : كَيْفَ فَعَلْتَ ؟ ، فَقَالَ : خَفَّفَ عَنَّا أَعْطَانَا بِكُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ أَمْثَالِهَا ، قَالَ مُوسَى : قَدْ وَاللَّهِ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ ، فَتَرَكُوهُ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَلْيُخَفِّفْ عَنْكَ أَيْضًا ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا مُوسَى ، قَدْ وَاللَّهِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي مِمَّا اخْتَلَفْتُ إِلَيْه۔ (صحیح بخاری : 7517)

پانچ نمازوں پر بھی انہوں نے آنحضرت ﷺ کو روکا اور کہا : اے محمد ! میں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کا تجربہ اس سے کم پر کیا ہے وہ ناتواں ثابت ہوئے اور انہوں نے چھوڑ دیا ۔ آپ کی امت تو جسم ، دل ، بدن ، نظر اور کان ہر اعتبار سے کمزور ہے ، آپ واپس جائیے اور اللہ رب العزت اس میں بھی کمی کر دے گا ۔ ہر مرتبہ آنحضرت ﷺ جبریل علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوتے تھے تاکہ ان سے مشورہ لیں اور جبریل علیہ السلام اسے ناپسند نہیں کرتے تھے ۔ جب وہ آپ کو پانچویں مرتبہ بھی لے گئے تو عرض کیا : اے میرے رب ! میری امت جسم ، دل ، نگاہ اور بدن ہر حیثیت سے کمزور ہے ، پس ہم سے اور کمی کر دے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر فرمایا کہ وہ قول میرے یہاں بدلا نہیں جاتا جیسا کہ میں نے تم پر ام الکتاب میں فرض کیا ہے ۔ اور فرمایا کہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے پس یہ ام الکتاب میں پچاس نمازیں ہیں لیکن تم پر فرض پانچ ہی ہیں ۔ چنانچہ آپ موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آئے اور انہوں نے پوچھا : کیا ہوا ؟ آپ نے کہا کہ ہم سے یہ تخفیف کی کہ ہر نیکی کے بدلے دس کا ثواب ملے گا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں نے بنی اسرائیل کو اس سے کم پر آزمایا ہے اور انہوں نے چھوڑ دیا ۔ پس آپ واپس جائیے اور مزید کمی کرائیے ۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر کہا : اے موسیٰ ، واللہ ! مجھے اپنے رب سے اب شرم آتی ہے۔

 

حطیم میں کھڑے ہو کر بیت المقدس کو دیکھنا

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ :    لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلَا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ (صحیح بخاری: 3886)

ترجمہ: جب قریش نے ( معراج کے واقعہ کے سلسلے میں ) مجھ کو جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بیت المقدس کو روشن کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کے پتے اور نشان بیان کرنا شروع کر دیئے ۔

 

موسیٰ علیہ السلام کا نماز پڑھنا:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:    أَتَيْتُ - وَفِي رِوَايَةِ هَدَّابٍ: مَرَرْتُ - عَلَى مُوسَى لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ  ۔ (صحیح مسلم:6157)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ معراج کی شب میں سرخ ٹیلے کے قریب آیا ۔ اور ہداب کی روایت میں ہے ۔ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا ، وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ۔‘‘

پل سے گزارو کہ رہ گزر کو خبر نہ ہو

جبریل پر بچھائیں تو پر کو خبر نہ ہو

 

سفر معراج میں دو دو نوافل پڑھنا  (مدینہ منورہ ، بیت اللحم، طور سینا)

أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ خَطْوُهَا عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهَافَرَكِبْتُ وَمَعِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَسِرْتُ فَقَالَ انْزِلْ فَصَلِّ فَفَعَلْتُ فَقَالَ أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ صَلَّيْتَ بِطَيْبَةَ وَإِلَيْهَا الْمُهَاجَرُ ثُمَّ قَالَ انْزِلْ فَصَلِّ فَصَلَّيْتُ فَقَالَ أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ صَلَّيْتَ بِطُورِ سَيْنَاءَ حَيْثُ كَلَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام ثُمَّ قَالَ انْزِلْ فَصَلِّ فَنَزَلْتُ فَصَلَّيْتُ فَقَالَ أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ صَلَّيْتَ بِبَيْتِ لَحْمٍ حَيْثُ وُلِدَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام ثُمَّ دَخَلْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَجُمِعَ لِي الْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمْ السَّلَام فَقَدَّمَنِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَمَمْتُهُمْ (سنن نسائی : 451)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے پاس ایک جانور لایا گیا جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا ۔ اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نظر پہنچتی تھی ۔ میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ اس پر سوار ہو گیا ۔ میں کچھ چلا تو جبریل علیہ السلام نے کہا : اترو ! نماز پڑھو ! میں نے نماز پڑھی ۔ کہنے لگے : آپ جانتے ہیں ، کہاں نماز پڑھی ہے ؟  آپ نے مدینہ طیبہ میں نماز پڑھی ہے اور اسی کی طرف آپ ہجرت فرمائیں گے ، پھر کہنے لگے : اترو ! نماز پڑھو ۔ میں نے پڑھی ۔ کہنے لگے : آپ جانتے ہیں ، کہاں نماز پڑھی ہے ؟  آپ نے طور سینا میں نماز پڑھی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا ۔ پھر کہنے لگے : اترو ! نماز پڑھو ! میں اترا اور نماز پڑھی ۔ کہنے لگے : آپ جانتے ہیں ، کہاں نماز پڑھی ہے ؟  آپ نے بیت اللحم میں نماز پڑھی ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا ۔ وہاں میرے لیے انبیاء علیہم السلام جمع کیے گئے تھے ، چنانچہ مجھے جبریل علیہ السلام نے آگے کر دیا ۔ میں نے ان کی امامت کی۔

 

حضور نبی کریم ﷺ کی نظر کا کمال:

        انسان جتنا تیزی سے سفر کر رہا ہوتا ہے اطراف کا نظارہ اتنا کم نظر آتا ہے اور اطراف کے معاملات پر انسان نہ توجہ دے سکتا ہے اور نہ ان کو یاد کر سکتا ہے۔ یعنی مناظر مبہم ہوتے ہیں ۔ مگر رسول اللہ ﷺ اتنی تیزی میں سفر فرما رہے تھے اس کے باوجود سب دکھائی دے رہا تھا اور سمجھ بھی آرہا تھا ، یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام قبر میں کھرے نماز پڑھ رہے تھے حضور ﷺ دیکھ بھی رہے تھےا ور پہچان بھی رہے تھے اسی طرح راستے میں قافلے ملے حضور ﷺ انھیں بھی جانتے تھے اور بتا بھی رہے تھے کہ وہ کب پہنچیں گے۔

اللہ تعالی جو چاہے کر سکتا ہے :

موسی علیہ السلام نے عرض کیا قَالَ رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَؕ(سورۃالاعراف : 143) میرے اللہ مجھے اپنا آپ دکھا میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں۔ مگر جواب آیا قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ  (سورۃالاعراف : 143) پیارے موسی آپ نہیں دیکھ سکتے ۔ یعنی موسی علیہ السلام نے عرض کیا تو  دیکھا یہ نہیں کہا میں تجھے دیکھ لوں؟ الہ پاک نے فرمایا تو نہیں دیکھ سکتا ۔ یہ نہیں فرمایا کہ میں دِکھ نہیں سکتا  بلکہ فرمایا تو نہیں دیکھ سکتا معلوم ہوا کہ کوئی ہے جس کے پاس دیکھنے کی طاقت ہے وہ دیکھ بھی سکتا ہے۔ جیسے اللہ پاک نے فرمایا  وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ(سورۃ الشوری:51) یعنی کوئی بشر اس قابل نہیں کہ اللہ پاک اس سے ہم کلام ہو مگر کسی واسطے سے یعنی بلا واسطہ ہم کلامی کا انکار کیا مگر دوسری جگہ خود ہی اللہ پاک نے فرمایا  وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًا (سورۃ النساء:164)کہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے کلام کیا اور خوب کلام کیا ۔ انکار اس بات کا کیا کہ اگر کوئی خود کلام کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا مگر جس سے اللہ خود کلام کرے وہ کر سکتا ہے ایسے  ہی اس آیت لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘ (سورۃ الانعام :103)میں فرمایا کہ کوئی آنکھ ادراک نہیں کر سکتی اگر خودکرنا چاہے ہاں مگر لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ (سورۃ بنی اسراءیل:1)جس کو وہ خود دکھانا چاہے تو وہ دیکھ بھی سکتا ہے۔

معراج النبی ﷺ سے متعلق خوبصورت نعتیہ کلام کے لنک

حضرت جبریل کا یوں آنا جانا اور ہے

قدسی کھڑے ہیں حیران ہو کے

اج خدا نے عرش تے ماہی بلا کے ویکھیا

عرض کیتی جبریل تلیاں نوں چم کے

چاند تارے ہی کیا دیکھتے رہ گئے

 

Share:

2/17/23

اسم فعل اور حرف کی پہچان اسم کی علامات فعل کی علامات حرف کی علامات arabic grammar علم النحو

اسم فعل اور حرف کی پہچان

کوئی جملہ یا کلام دو کلمات  سے کم نہیں ہوتا ، خواہ وہ دونوں کلمات لفظاً ہوں جیسے  اَلْفِنَا وَسِیْعٌ (کھلا میدان)، جَلَسَ وَلَدٌ (بچہ بیٹھا ) ان ودنوں مثالوں میں دونوں کلمات لفطوں میں ہیں یا بظاہر ایک کلمہ وہ اور دوسرا پوشیدہ ہو، جیسے تَکَلَّمْ (تو کلام کر) ، یہ بظاہر ایک کلمہ ہے اور دوسرا کلمہ اَنْتَ پوشیدہ ہے اور دو سے زیادہ کلمات کی کوئی حد نہیں، جیسے اَلتَّلْمِیْذُ یَقْرَأُ الْکِتَابَ فِیْ الْغُرْفَۃِ (طالب علم کمرے میں کتاب پڑھتا ہے)

ہر کلمہ جملہ کا جز شمار کیا جاتا ہے، چوں کہ ایک جملہ میں کئی کلمات ہوتے ہیں اس لیے اسم فعل اور حرف کی پہچان کے لیے چند علامات بیان کی جاتی ہیں ، جو درج ذیل ہیں:

اسم کی علامات

ہر وہ کلمہ اسم ہو گا :

1: جس پر ‘‘ ال ’’ آجائے جیسے اَلْکِتَابُ، اَلْقُرْآنُ

2: جس سے پہلے حرف جر (جو کلمہ کے نیچے زیر دے یہ سترہ حروف ہیں  ب، ت، ک، ل، و ، منذ ، مذ خلا ، رُبَّ ، حاشا، مِن ، عدا، فی، عَن، اِلی حتٰی اور علیٰ) آ جائے جیسے فِیْ دَرْسٍ

3:جس کے آخر میں تنوین (نون ساکنہ تلحق الآخر لفظا لاخطالغیر توکید جو معرب کلمات کے آخر میں پڑھنے میں آتا ہے ، لکھنے میں نہیں آتا ، جس کلمہ کے آخر میں تنوین ہو اسے منون کہتے ہیں)  آ جائے جیسے شَجَرٌ

4: وہ مضاف ہو جیسے غُصْنُ شَجَرٍ(درخت کی ٹہنی)

5:تثنیہ ہو جیسے قَلَمَانِ

6:جمع ہو جیسے  اَقْلَامٌ

7:اس کے آخر میں یائے نسبت (مشدد) آ جائے جیسے مَکِّیٌّ مَدَنِیٌّ

8:مصغر  (وہ اسم معرب ہے جو اپنے مدلول کی چھوٹائی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے پہلے حرف پر پیش ، دوسرے پر زبر اور تیسری جگہ ساکن ہوتی ہے۔)ہو جیسے رُجَیْلٌ

9:اس کے آخر میں تانیث کی علامت ‘‘ۃ’’ متحرک آ جائے جیسے شَجَرَۃٌ

10: موصوف ہو جیسے قَلَمٌ جَمِیْلٌ

11: مسند ہو جیسے اَلْغُرْفَۃُ وَاسِعِۃٌ (کمرا وسیع ہے)

فعل کی علامات

وہ کلمہ فعل ہو گا:

1: جس سے پہلے قد آ جائے  جیسے قَدْ خَلَتْ

2:جس سے پہلے س یا سوف آ جائے جیسے سیعلم سَوْفَ یَعْلَمُ

3: جس سے پہلے حرف جازم(حرف جازمہ پانچ ہیں  لم لما لام امر لا نھی ، ان شرطیہ)  آ جائے جیسے لَمْ یَکْتُبْ

4: جس کے آخر میں جزم آ جائے جیسے اُنْصُرْ

5:             وہ مسندہوجیسے ذَھَبَ وَلَدٌ

6: جس کے آ خر میں نون تا کید(خواہ نون ساکن ہو یا مشدد )  آ جائے جیسے                                                                            لَیَنْصُرَنَّ ، لَیَنْصُرَنْ

7: جس کے آخر میں ت ساکن آ جائے جیسے خَرَجَتْ

8: جس کے آخر میں ضمیر مرفوع متصل ہو جیسے  نصرتُ ، اس میں ‘‘تُ’’ ضمیر مرفوع متصل ہے

حرف کی علامات

وہ کلمہ حرف ہو گا:

جس میں اسم اور فعل کی کوئی علامت نہ ہو، اور یہ دو اسماء یا ایک اسم اور فعل کو ملانے کا فائدہ دیتا ہے جیسے اَلتِّلْمِیْذُ فِی المَدْرَسَۃِ (طالب علم مدرسہ میں ہے)، ذَھَبْتُ بِالْکِتَابِ (میں کتاب لے گیا)

 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive