سحری
اور افطاری کے متعلق احادیث مبارکہ:
روزے
میں سحر ی و افطاری کا معمول رمضان المبارک میں پابندی کے ساتھ سحری و افطاری بے
شمار فوائد اور فیوض و برکات کی حامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالالتزام
روزے کا آغاز سحری کے کھانے سے فرمایا کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ،
قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً. (صحيح البخاری1923:) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ حضو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری
میں برکت ہے
حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اہل کتاب اور مسلمانوں کے روزے کے درمیان فرق کی وجہ بیان کرتے ہوئے
ارشاد فرمایا
عَنْ
عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
قَالَ: «فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ، أَكْلَةُ
السَّحَرِ». (صحيح مسلم2550:)
حضرت ابوقیس نے حضرت عمرو بن العاص سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
عَنْ
عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ رضی اللہ
عنہ اَنَّہُ دَخَلَ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَہُوَ یَتَسَحَّرُ فَقَالَ: ((إِنَّہُ بَرَکَۃٌ،
اَعْطَاکُمُوْہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَلَا تَدَعُوْہُ۔)). (مسند احمد بن حنبل3725:) حضرت عبد اللہ بن حارث سے مروی ہے
کہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے تو آپ ﷺ سحری تناول فرما رہے تھے تو آپﷺ نے
ارشاد فرمایاسحری سراپا برکت ہےیہ الہ تعالی نے تمھیں عطا کیا ہے اسے ترک نہ کیا کرو۔
حضرت ابو سعید خدری
رضی الہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سحری
کرنے والے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں۔
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((اَلسَّحُوْرُ اَکْلَۃٌ بَرَکَۃٌ فَلَا
تَدَعُوْہُ وَلَوْ اَنْ یَجْرَعَ اَحَدُکُمْ جَرْعَۃً مِنْ مَائٍ فَإِنَّ اللّٰہَ
عَزَّوَجَلَّ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی الْمُتَسَحِّرِیْنَ۔). (مسند احمد بن حنبل: 3727) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے امت کو تلقین فرمائی ہے کہ سحری ضرور کھایا کرو، خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی
کیوں نہ ہو۔اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر اپنی رحمتیں ناز ل
کرتے ہیں۔
روزے میں سحری کو
بلاشبہ بہت اہم مقام حاصل ہے۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی
تقویت کا باعث بنتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ سحری آخری
وقت میں تناول فرمایا کرتے تھے۔ گویا سحری کا آخری لمحات میں کھانا حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ برکت سے کیا مراد ہے؟ برکت سے مراد اجر عظیم ہے کیونکہ
اس سے ایک تو سنت ادا ہوتی ہے اور دوسرا روزہ کے لئے قوت و طاقت مہیا ہوتی ہے۔
علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث میں برکت سے مراد دوسر ے
دن کے روزے کی قوت حاصل کرنا ہے۔ حدیث مبارکہ میں بھی اس فائدے کا ذکر ملتا ہے : عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اسْتَعِينُوا بِطَعَامِ السَّحَرِ عَلَى صِيَامِ
النَّهَارِ وَبِالْقَيْلُولَةِ عَلَى قِيَامِ اللَّيْلِ (سنن ابن ماجہ :1693). دن کو قیلولہ کرکے رات کی نماز کے
لئے مدد حاصل کرو اور سحری کھا کر دن کے روزے کی قوت حاصل کرو۔
برکت سے مراد ثواب
و اجر کی زیادتی ہے، کیونکہ سحری کھانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ سحری میں برکت کے فوائد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : و اما البرکة التی فيه فظاهرة لانه يقوي علي الصيام و
ينشط له و تحصل بسببه الرغبة في الازدياء من الصيام. و قيل لانه يتضمن الاسقيقاظ،
والذکر و الدعاء في ذالک الوقت الشريف و قت تنزل الرحمة و قبول الدعاء و
الاستغفار. سحری میں برکت کی
وجوہات ظاہر ہیں جیسا کہ یہ روزے کو تقویت دیتی ہے اور اسے مضبوط کرتی ہے۔ اس کی
وجہ سے روزے میں زیادہ کام کرنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ
اس کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ ہے اور یہ وقت ذکر اور دعا کا ہوتا ہے جس میں
اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دعا اور استغفار کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ (شرح
نووی، 7 : 206)
سحری
میں تاخیر اور افطاری میں جلدی کرنا:
سحری کرنے میں تاخیر اور افطاری کرنے میں جلدی آنحضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندگی بھر معمول رہا۔ جس کے راوی حضرت سہل بن سعد رضی اللہ
عنہ ہیں، وہ فرماتے ہیں عَنْ سَهْلِ بْنِ
سَعْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
قَالَ: «لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ» (صحيح مسلم: 1098) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ
النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ، فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِيَ
حَاجَتَهُ مِنْهُ (سنن ابی داؤد : 2350) جب تم میں سے کوئی اذان
سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے نہ رکھے۔
حدیث قدسی ہے کہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَحَبُّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا .. (جامع الترمذی : 700) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے
بندوں میں مجھے پیارے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کریں۔
اس حدیث کا مطلب یہ
ہے کہ جب تک اس امت کے لوگوں میں یہ دونوں باتیں ( یعنی افطار میں جلدی اور سحری میں
تاخیر کرنا) رہیں گی تو اس وقت تک سنت کی پابندی کے باعث اور حدود شرع کی نگرانی کی
وجہ سے خیریت اور بھلائی پر قائم رہیں گے۔
سحری میں تاخیر
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سحری تناول فرمانے میں تاخیر کرتے یعنی
طلوع فجر کے قریب سحری کرتے تھے۔ عَنِ
ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ :
" إِنَّا مَعَاشِرَ الأَنْبِيَاءِ ، أُمِرْنَا أَنْ نُعَجِّلَ الإِفْطَارَ ،
وَأَنْ نُؤَخِّرَ السُّحُورَ ، وَأَنْ نَضْرِبَ بَأَيْمَانِنَا عَلَى شَمَائِلِنَا (المعجم الأوسط للطبراني :4381) حضرت ابن عباس رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے روزہ جلدی
افطار کرنے اورسحری میں تاخیر کا حکم دیا گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : عن سهل بن سعد رضي الله
عنه، قال قال رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم : لا تَزالُ أُمَّتي على سُنَّتي مالم تَنتظِرْ بفِطْرِها
النُّجومَ.. حضرت سھل بن سعد
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میری
سنت پر اس وقت تک برابر قائم رہے گی، جب تک کہ وہ روزہ افطار کرنے کے لئے ستاروں
کا انتظار نہ کرنے لگے گی۔ (مواردالضمان : 891) آپ کا یہ عمل یہودیوں کے برعکس
تھا، جن کے ہاں سحری کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا اور وہ افطاری کرنے کے معاملے میں
آسمان پر ستاروں کے طلوع ہونے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کا معمول بھی یہی تھا کہ وہ
آفتاب غروب ہوتے ہی افطاری سے فارغ ہو جاتے تھے۔ حضرت ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں کہ سحری کھانے کی برکت کئی طرح سے حاصل ہوتی ہے، مثلا اتباع سنت، یہود
و نصاری کی مخالفت، عبادت پر قوت حاصل کرنا، آمادگی عمل کی زیادتی، بھوک کے باعث
جو بدخلقی پیدا ہوتی ہے، اسکی مدافعت سحری میں کئی حقدارو اور محتاجوں کو شریک کرلینا،
جو اس وقت میسر آجاتے ہیں۔ علامہ ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
روزے کا مقصد چونکہ پیٹ اور شرم گاہ کی خواہشات کو توڑنا اور درجہ اعتدال میں لانا
ہے۔ لیکن اگر آدمی اتنا کھا جائے کہ جس سے روزے کے مقاصد پورے نہ ہوں، بلکہ ختم ہی
ہو کر رہ جائیں۔ تو یہ روزہ کی روح کے خلاف ہے۔ جبکہ عیش پسند لوگ ایسا کرتے ہیں
کہ دن بھر کی کسر شام کو اور رات بھر کی کسر سحری کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
افطاری:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روزہ افطار فرمانا حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر اوقات کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے۔ اگر وہ میسر
نہ ہوتیں تو پانی سے افطار فرما لیتے تھے۔ حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
قَالَ: إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ
فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ، فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ تَمْرًا
فَالْمَاءُ فَإِنَّهُ طَهُورٌ. جب
تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے چاہئے کہ کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت
ہے اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے کیونکہ پانی پاک ہوتا ہے۔ (جامع الترمذی: 658)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کو بہترین
سحری قرار دیا : عن ابي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اللّٰه صلی الله عليه
وآله وسلم : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:
نِعْمَ سَحُورُ الْمُؤْمِنِ التَّمْرُ . (سنن ابي داؤد:
2345) حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا کہ مومن کی بہترین سحری کھجور ہے۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ انسان پر شیطان ہمیشہ
پیٹ کے راستے حملہ آور ہوتا ہے۔ وہ حصولِ رزق کی کوششوں میں پریشانی سے فائدہ اٹھا
کر اسے حرام کی طرف راغب کر دیتا ہے اور بھوک کے ہتھیار سے اسے شکار کر لیتا ہے۔
گویا رزق حرام کی راہ شیطان کی آماجگاہ ہوتی ہے، لہذا فکرِ معاش اور روزگار کی پریشانیوں
سے نجات پا کر ہی عبادت کا حقیقی لطف اور کیف و سرور نصیب ہوتا ہے۔