سفارش
اور صالحین و مقربین کو اللہ تعالی کی محبت اور قرب کا ذریعہ سمجھنے سے متعلق
عقیدہ صحیحہ کی وضاحت
درج
بالا عنوان کے تحت تین آیات کی وضاحت کی جارہی ہے جو عموماً بیان کر کے مشرکین سے
مناسبت اور مطابقت پیدا کی جاتی ہے اور اولیاء اللہ و مقربین کےساتھ تعلق پر
انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔
مختصراً
تین آیات درج کی جارہی ہے:
1: اَلَا لِلّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُؕ-وَ الَّذِیْنَ
اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَۘ-مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَاۤ
اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰىؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ فِیْ مَا هُمْ فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ۬ؕ-اِنَّ
اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ(سورۃ الزمر :3) سن لو! خالص عبادت اللہ ہی کیلئے ہے اور وہ
جنہوں نے اس کے سوا اور مددگار بنارکھے ہیں (وہ کہتے ہیں :) ہم تو ان بتوں کی صرف
اس لئے عبادت کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ کے زیادہ نزدیک کردیں ۔ اللہ ان کے درمیان
اس بات میں فیصلہ کردے گا جس میں یہ اختلاف کررہے ہیں بیشک اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا
جو جھوٹا، بڑا ناشکرا ہو۔
2: أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى
رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ
عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًاO(سورۃ بنی اسرائیل:57) وہ مقبول بندے جن کی یہ کافر عبادت کرتے ہیں وہ خود اپنے رب
کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے ۔وہ اللہ کی رحمت کی امید
رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تمہارے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔
3: وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهُمْ
وَ لَا یَنْفَعُهُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ هٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِؕ-قُلْ
اَتُنَبِّــٴُـوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی
الْاَرْضِؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(سورۃ یونس :18) اور (یہ مشرک)
اللہ کے سوا ایسی چیزکی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں کوئی نقصان دے سکے اور نہ نفع
دے سکے اوریہ کہتے ہیں کہ یہ (بت) اللہ کی بارگاہ میں ہمارے سفارشی ہیں ۔ تم
فرماؤ: کیا تم اللہ کو وہ بات بتاتے ہو جو اس کے علم میں نہ آسمانوں میں ہے اورنہ
زمین میں ۔ وہ ان کے شرک سے پاک اور بلندو بالا ہے۔
اسی
طرح آپ یہ آیات بھی پڑھیں
سورۃ
البقرہ: 165-167 | سورۃ الانعام
:70 ، 94 ، 64 | سورۃ یونس : 27-30
| سورۃ ابراہیم : 21-22
| سورۃ النحل : 86-87
| سورۃ الکھف : 52
| سورۃ مریم: 81-82
| سورۃ المومنون : 101-103
| سورۃ الفرفقان : 117-119
تفہیم
آیات: ان آیات میں لوگوں
کو صرف یہ بات نظر آئی کہ وہ بتوں کو(حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کی تصویریں اور مورتیاں بنا کر) اللہ کےساتھ قرب کا ذریعہ سمجھتے تھے مگر
علمی جہالت کا عالم دیکھیں اور علمی بد دیانتی دیکھیں کہ یہ جملہ بیان ہی نہیں کیا
جاتا کہ وہ ان کی عبادت کرتے تھے یعنی
بتوں کو سجدہ کرتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے، ان بتوں اور مظاہر قدت (چاند ،سورج،
ستارے)کو معبود سمجھتے تھے، ان کو اللہ
تعالی کی بیٹیاں اور اولاد سمجھتے تھے(سورۃ الصفت:150-157) (سورۃ الزخرف: 19)، نعوذ
باللہ ان کی مدد کے بغیر یعنی ان خود ساختہ بتوں کی مدد کے بغیر کائنات میں کچھ
بھی نہیں ہوتایہ عقیدہ رکھتے تھے،اپنی قربانی اور نذر و نیاز کا رخ مطلقاً بتوں کی
طرف کرتے تھے(سورۃ الانعام :136) ، اسی طرح نصاری عیسی علیہ السلام اور عزیر علیہ
السلام کو نعوذ باللہ اللہ تعالی کا بیٹا اور تثلیثی عقائد کے تحت خدا سمجھتے تھے(سورۃ
المائدہ:72-73)، مگر دوسری طرف اولیاءاللہ اور نیک لوگوں کو اللہ تعالی کا نا شریک
سمجھا جاتا ہے، نا ان کی عبادت کی جاتی ہے، نا انہیں اللہ تعالی کی اولاد (نعوذ
باللہ)کہا جاتا ہے، نہ ان کے سامنے سجدہ کیا جاتا ہے، ۔ تو اول الذکر کا حکم اٹھا
کر ایمان والوں ، خالص توحید پرست اور صرف ایک اللہ تعالی کو معبود ِ حقیقی ماننےوالوں
پر عائد کرنا علمی بد دیانتی اور علمی جہالت(مخصوص ترکیب) کی عکاسی ہے۔
(جہاں بات قیامت کے دن سفارش اور مدد کی ہے تو
یاد رہے مشرکین تو قیامت کے دن کے قائل ہی نہیں تھے اس طرح ان سے مماثلت ممکن ہی
نہیں۔)
اب
یہ کہنا کہ کافر بھی اسی طرح کا عقیدہ رکھتے تھے اور یہ لوگ بھی
اولیا ءاللہ کے حوالے سے ایسا عقیدہ رکھتے ہیں تو یاد رکھیں یہ جو مشابہت پیدا کر
کے موازنہ کیا جا رہا ہے یہ لوگوں کی اپنی اختراع ہے اور اسلامی تعلیمات کے تقاضے کے
منافی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ
اگر اس طرح من گھڑت مطابقت پیدا کرنی ہے تو پھر بات بہت
دور چلی جائے گی اور بہت سے ایسے معاملات پیدا ہو جائیں گے کہ کسی سے کوئی جواب نہیں
بن پائے گا سوائے یہ کہ اسلام نے ان کی اجازت دی ہے بلکل اسی طرح کہ کفر و شرک کے
معاملے میں مدد اور سفارش کی نفی کی گئی ہے اور صاحب ایمان لوگوں کو اجازت دی گئی
ہے۔ اور ان متقین اور اللہ تعالی کا ذکر کرنے والوں کے حوالے سے ارشاد فرمایا گیا
ہے کہ ان کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرو ان کے ساتھ جڑے رہو آیات ملاحظہ ہوں:
وَ
اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ
یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ-تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَاۚ-وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ
هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا(سورۃ
الکھف:28)اور اپنی جان کو ان لوگوں کے ساتھ مانوس رکھ جو صبح و
شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں اور تیری آنکھیں دنیوی زندگی کی زینت
چاہتے ہوئے انہیں چھوڑ کر اوروں پر نہ پڑیں اور اس کی بات نہ مان جس کا دل ہم نے
اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا۔
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(سورۃ التوبہ: 119)اے ایمان والو اللہ سے
ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
تفہیم
آیات: ان آیات میں اللہ
تعالی کے مقرب اور صالحین کے تعلق مضبوط کرنے کی تعلیم دی گئ ہے ۔ اگر ان کا قرب
اور تعلق فائدہ نہیں دیتا لا یعنی ، فضول اور گمراہی کا سبب ہے تو قرآن مجید میں
اس کا حکم کیوں دیا گیا ہے۔ یقیناً ان مقربین کا ساتھ اور قرب فائدہ دیتا ہے ایمان
پر استقامت اور حفاظت کا ذریعہ ہے۔ان کے قرب سے اللہ تعالی کی یاد قائم رہتی ہے
اور غفلت سے انسان بچا رہتا ہے، گناہوں سے بچا رہتا ہے، ہدایت کا نور ملتا ہے،
معرفتِ الہی نصیب ہوتی ہے، اسی قرب کا اثر ایک حدیث پاک میں سمجھیں :
عَنْ
حَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ قَالَ وَكَانَ مِنْ كُتَّابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ كَيْفَ أَنْتَ
يَا حَنْظَلَةُ قَالَ قُلْتُ نَافَقَ حَنْظَلَةُ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ مَا
تَقُولُ قَالَ قُلْتُ نَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ يُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ حَتَّى كَأَنَّا رَأْيُ عَيْنٍ
فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالْأَوْلَادَ وَالضَّيْعَاتِ فَنَسِينَا كَثِيرًا قَالَ
أَبُو بَكْرٍ فَوَاللَّهِ إِنَّا لَنَلْقَى مِثْلَ هَذَا فَانْطَلَقْتُ أَنَا
وَأَبُو بَكْرٍ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قُلْتُ نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا ذَاكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ
نَكُونُ عِنْدَكَ تُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ حَتَّى كَأَنَّا رَأْيُ
عَيْنٍ فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِكَ عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالْأَوْلَادَ
وَالضَّيْعَاتِ نَسِينَا كَثِيرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنْ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى مَا
تَكُونُونَ عِنْدِي وَفِي الذِّكْرِ لَصَافَحَتْكُمْ الْمَلَائِكَةُ عَلَى
فُرُشِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً ثَلَاثَ
مَرَّاتٍ (صحیح مسلم:2750)
ترجمہ:
جعفر بن سلیمان نے سعید بن ایاس جریری سے ، انہوں نے ابوعثمان نہدی سے اور انہوں
نے حضرت حنظلہ ( بن ربیع ) اسیدی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا ۔۔۔ اور
وہ رسول اللہ ﷺ کے کاتبوں میں سے تھے ۔۔۔ کہا : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے
ملے اور دریافت کیا : حنظلہ ! آپ کیسے ہیں ؟ میں نے کہا : حنظلہ منافق ہو گیا ہے ،
( حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ) کہا : سبحان اللہ ! تم کیا کہہ رہے ہو ؟ میں نے
کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ، آپ ہمیں جنت اور دوزخ کی یاد
دلاتے ہیں حتی کہ ایسے لگتا ہے گویا ہم ( انہیں ) آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ، پھر جب
ہم رسول اللہ ﷺ کے ہاں سے نکلتے ہیں تو بیویوں ، بچوں اور کھیتی باڑی ( اور دوسرے
کام کاج ) کو سنبھالنے میں لگ جاتے ہیں اور بہت سی چیزیں بھول بھلا جاتے ہیں ۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم ! یہی کچھ ہمیں بھی پیش آتا ہے ،
پھر میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ چل پڑے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر
ہوئے ۔ میں نے عرض کی : اللہ کے رسول ! حنظلہ منافق ہو گیا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا :’’ وہ کیا معاملہ ہے ؟‘‘ میں نے عرض کی : اللہ کے رسول ! ہم آپ کے پاس
حاضر ہوتے ہیں ، آپ ہمیں جنت اور دوزخ کی یاد دلاتے ہیں ، تو حالت یہ ہوتی ہے گویا
ہم ( جنت اور دوزخ کو ) اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جب ہم آپ کے ہاں سے باہر
نکلتے ہیں تو بیویوں ، بچوں اور کام کاج کی دیکھ بھال میں لگ جاتے ہیں ۔۔۔ ہم بہت
کچھ بھول جاتے ہیں ۔۔۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا :’’ اس ذات کی
قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس طرح میرے پاس
ہوتے ہو اور ذکر میں لگے رہو تو تمہارے بچھونوں پر اور تمہارے راستوں میں فرشتے (
آ کر ) تمہارے ساتھ مصافحے کریں ، لیکن اے حنظلہ ! کوئی گھڑی کسی طرح ہوتی ہے اور
کوئی گھڑی کسی ( اور ) طرح ۔
تفہیم
حدیث: جہاں اس حدیث پاک
میں بے شمار اسباق اورحکمتیں ہیں وہاں قرب ، صحبت اور نسبت کا درس بھی موجود ہے کہ
جب آپ کے پاس بیٹھے ہوتے ہیں کیفیت کچھ اور ہوتی ہے اور اٹھ کر جاتے ہیں تو کیفیت
کچھ اور ہوتی ہے۔ اسی مناسبت سے اگر دیکھیں تو ان صالحین اور مقربین کی نسبت اور
قربت فائدہ دیتی ہے اور یاد الہی ، معرفت الہی اور فکر آخرت کا باعث ہے۔
قیامت
کے دن نیک لوگ اور جنھیں اللہ چاہے گا اور جن سے اللہ پاک راضی ہو گا وہ سفارش
کریں گےاور لوگوں کی نجات کا
ذریعہ و وسیلہ بنیں گے۔ سفارش کے معاملے میں باذنہ یا باذن ربہ والی آیات ملاحظہ کریں اور آیات کے بعد صحیح بخاری کتاب
الایمان کی ایک صحیح حدیث پاک جس کا انکار ممکن نہیں ہے، ملاحظہ کریں۔
وہ آیات جن میں قیامت کے دن کی سختی اور معاملات کو بیان
کیا گیا ہے ارشاد فرمایا : وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا
وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ
یُنْصَرُوْنَ(سورۃ البقرۃ :48)اور اس دن سے ڈروجس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے بدلہ نہ دے گی اور
نہ کوئی سفارش مانی جائے گی اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کی
مددکی جائے گی۔
تفہیم آیت: اس آیت میں شفاعت کی نفی کی گئی ہے اور اس جیسی دوسری کچھ آیات کو لے کر
لوگ اولیاء اللہ اور اللہ تعالی کے محبوب بندوں کے حوالے سے لوگوں کے نظریات وعقائد اور احساسات سے کھلواڑ کرتے ہیں معصوم
لوگوں کو بہکانے کی کوشش کرتے ہیں کہ قیامت کے دن کوئی کسی کی شفاعت نہیں کر سکے گا
اور نہ کوئی سفارش کر سکے گا اور اسی طرح یہ آیات بھی بیان کرتے ہیں کہ نفسا نفسی
کا عالم ہو گا کوئی کسی کا نہیں ہو گا :
فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ٘(۳۳)یَوْمَ یَفِرُّ
الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ(۳۴)وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِۙ(۳۵)وَ
صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِؕ(۳۶)لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَىٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِؕ(۳۷)(سورۃ
عبس :33-37) پھر جب وہ کان پھاڑنے والی چنگھاڑآئے گی ۔اس دن آدمی اپنے بھائی سے
بھاگے گا ۔اور اپنی ماں اور اپنے باپ۔اوراپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے۔ان میں سے ہر
شخص کو اس دن ایک ایسی فکر ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا کردے گی۔
تفہیم آیت : یاد رہے کہ حکم صرف بے ایمان اور کافروں کے لیے ہے اور برے اعمال کرنے والوں کے لیے جبکہ نیک لوگ
اور صاحبِ ایمان لوگوں کے لیے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ
بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ
عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍؕ-كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ (سورۃ الطور
:21) اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی (جس) اولاد نے ایمان کے
ساتھ ان کی پیروی کی توہم نے ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیا اور اُن (والدین)
کے عمل میں کچھ کمی نہ کی، ہر آدمی اپنے اعمال میں گِروی ہے۔
تفہیم آیت : یعنی ایمان والوں کا حال کچھ الگ
ہو گا اور ان کے لیے قیامت کے دن کوئی مشکل اور پریشانی نہیں ہو گی۔وہ ایمان والے
نورہی نور میں ہوں گے ارشاد باری تعالی
ہے:
یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰى
نُوْرُهُمْ بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ
تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ
الْعَظِیْمُ(سورۃ الحدید :12) جس
دن تم ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو دیکھو گے کہ اُن کا نور ان کے
آگے اور ان کے دہنے دوڑتا ہے ان سے فرمایا جارہا ہے کہ آج تمہاری سب سے زیادہ خوشی
کی بات وہ جنّتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہیں تم اُن میں ہمیشہ ر ہو یہی بڑی کامیابی
ہے
شفاعت کے معاملے میں جہاں نفی کی گئی ہے وہاں مطلق قیامت کے دن کی ہولناکی کو
بیان کیا گیا ہے اور اعمال کی سختی کو بیان کیا گیا ہے قرآن مجید میں کئی مقامات
پر سفارش کے حوالے سے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: آیات ملاحظہ کریں۔
1: یَوْمَىٕذٍ لَّا
تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَهٗ
قَوْلًا (سورۃ طہ: 109) اس دن کسی کی شفاعت کام نہ دے گی سوائے اس کے جسے رحمٰن نے
اجازت دیدی ہو اور اس کی بات پسند فرمائی ہو۔
2: وَ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا لِمَنْ
اَذِنَ لَهٗؕ-حَتّٰۤى اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَا ذَاۙ-قَالَ
رَبُّكُمْؕ-قَالُوا الْحَقَّۚ-وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ (سورۃ سبا: 23) اور اللہ کے پاس شفاعت کام نہیں دیتی مگر
(اس کی) جس کے لیے وہ اجازت دیدے یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور فرمادی
جاتی ہے تووہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟تو وہ کہتے ہیں
: حق فرمایا ہے اور وہی بلندی والا، بڑائی والاہے۔
3: )یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ صَفًّا ﯼ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ
اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا (سورۃ النبا :38) جس دن جبریل اور سب فرشتے صفیں بنائے
کھڑے ہوں گے۔ کوئی نہ بول سکے گا مگر وہی جسے رحمٰن نے اجازت دی ہو اور اس نے ٹھیک
بات کہی ہو
4: مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ (سورۃ البقرۃ:
255) کون ہے جو اس کے ہاں اس کی اجازت کے بغیرسفارش کرے؟
5: مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖؕ-ذٰلِكُمُ
اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ (سورۃ یونس: 3) اس کی اجازت کے بعد ہی کوئی سفارشی ہوسکتا
ہے۔ یہ اللہ تمہارا رب ہے تو تم اس کی عبادت کرو تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
6: وَ كَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ
شَفَاعَتُهُمْ شَیْــٴًـا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ یَّشَآءُ
وَ یَرْضٰى(سورۃ النجم :26)اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں کہ ان کی سفارش کچھ کام
نہیں آتی مگر جبکہ اللہ اجازت دیدے جس کے لیے چاہے اور پسند فرمائے۔
تفہیم
آیت: درج بالا آیات میں
واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ کوئی قیامت کے دن اللہ تعالی کے سامنے کوئی
کسی کی سفارش نہیں کر سکے گا مگر جس کو اللہ پاک اجازت دے گا جس سے وہ راضی ہو گا
جس کو وہ چاہے گا وہ بات بھی کرے گا اور سفارش بھی کرے گا۔ ‘‘ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ’’ کے الفاظ پہلے جملے میں بیان کردہ نفی کا اثبات
ہیں یعنی جو پہلے انکار کیا گیا ہےمطلق انکار ہے مگر پھر لفظ ‘‘ اِلَّا ’’کے ساتھ فرمایا جن کو اجازت ہو گی وہ سفارش کریں گے۔
یہ
جو رٹ لگاتے ہیں کہ سفارش نہیں کر سکیں گے کچھ بول نہیں سکیں گے وہ صرف کافر اور مشرک ہیں انہیں
اجازت نہیں ہو گی۔ جیسے ارشاد فرمایا:
وَ یَوْمَ
نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا
وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ (سورۃ النحل :84) اور یاد کروجس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ
اٹھائیں گے پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ان سے رجوع کرنا،طلب کیا
جائے گا۔
وَ
بَرَزُوْا لِلّٰهِ جَمِیْعًا فَقَالَ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا
اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ
اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ-قَالُوْا لَوْ هَدٰىنَا اللّٰهُ لَهَدَیْنٰكُمْؕ-سَوَآءٌ
عَلَیْنَاۤ اَجَزِعْنَاۤ اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِیْصٍ (سورۃ ابراھیم :
21) اورسب اللہ کے حضور اعلانیہ حاضر
ہوں گے تو جو کمزور تھے بڑے لوگوں سے کہیں گے : ہم تمہارے تابع تھے توکیا تم اللہ
کے عذاب میں سے کچھ ہم سے دور کرسکتے ہو۔وہ کہیں گے: اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو
ہم تمہیں بھی ہدایت دیدیتے ۔ (اب) ہم پر برابر ہے کہ بے قراری کا اظہار کریں یا
صبرکریں ۔ہمارے لئے کہیں کوئی پناہ گاہ نہیں ۔
هٰذَا یَوْمُ
لَا یَنْطِقُوْنَۙ(۳۵)وَ لَا یُؤْذَنُ لَهُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ(۳۶)وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ
لِّلْمُكَذِّبِیْنَ(۳۷)(سورۃ المرسلات :35-37)یہ وہ دن ہے جس میں وہ بول نہ سکیں گے۔اور نہ انہیں اجازت
ملے گی کہ معذرت کریں ۔اس دن جھٹلانے والوں کیلئے خرابی ہے۔
تفہیم
آیت: درج بالا آیات میں
مشرکین اور کفار اور بد عقیدہ لوگوں کے متعلق فرمایا کہ انہیں اجازت نہیں ہو گی کہ
اللہ تعالی کے سامنے بات کریں یا سفارش کریں یا ان کے بارے میں کسی کی سفارش کو
قبول نہیں کیا جائے گا ۔
کون لوگ ہیں جن کو اللہ تعالی قیامت کے دن اذن دے گا اور وہ لوگوں کی سفارش کریں گے۔ آئیں بخاری شریف کی حدیث مبارکہ پڑھیں یقیناً کوئی اس حدیث مبارکہ کا انکار نہیں کر سکے گا اس حدیث مبارکہ
میں نسبت ، تعلق ، قرب، ساتھ رہنے ، نجات اور بخشش جیسے عقائد کی وضاحت ملتی ہے
پڑھیں سمجھیں اور اپنی اصلاح کریں اور: طویل حدیث مبارکہ ہے اس میں سے یہ مطلوبہ
حصہ مذکور ہے اگر مکمل حدیث پاک پڑھنی ہے تو حدیث نمبر موجود ہے آپ حدیث کی کتاب
سے مطالعہ کر سکتے ہیں۔
فَمَا
أَنْتُمْ بِأَشَدَّ لِي مُنَاشَدَةً فِي الْحَقِّ قَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنَ
الْمُؤْمِنِ يَوْمَئِذٍ لِلْجَبَّارِ ، وَإِذَا رَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ نَجَوْا
فِي إِخْوَانِهِمْ ، يَقُولُونَ : رَبَّنَا إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ
مَعَنَا وَيَصُومُونَ مَعَنَا وَيَعْمَلُونَ مَعَنَا ، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى
: اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ إِيمَانٍ
فَأَخْرِجُوهُ ، وَيُحَرِّمُ اللَّهُ صُوَرَهُمْ عَلَى النَّارِ ، فَيَأْتُونَهُمْ
وَبَعْضُهُمْ قَدْ غَابَ فِي النَّارِ إِلَى قَدَمِهِ وَإِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ
، فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا ، ثُمَّ يَعُودُونَ ، فَيَقُولُ : اذْهَبُوا فَمَنْ
وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ ، فَأَخْرِجُوهُ ،
فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا ، ثُمَّ يَعُودُونَ ، فَيَقُولُ : اذْهَبُوا فَمَنْ
وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ ، فَأَخْرِجُوهُ ،
فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ : فَإِنْ لَمْ تُصَدِّقُونِي ،
فَاقْرَءُوا : إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا
سورة النساء آية 40 فَيَشْفَعُ النَّبِيُّونَ وَالْمَلَائِكَةُ وَالْمُؤْمِنُونَ (صحیح بخاری:7439)
ترجمہ
: تم لوگ آج کے دن اپنا حق لینے کے لیے جتنا تقاضا اور مطالبہ مجھ سے کرتے ہو اس
سے زیادہ مسلمان لوگ اللہ سے تقاضا اور مطالبہ کریں گے اور جب وہ دیکھیں گے کہ
اپنے بھائیوں میں سے انہیں نجات ملی ہے تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے بھائی
بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ
دوسرے ( نیک ) اعمال کرتے تھے ( ان کو بھی دوزخ سے نجات فرما ) چنانچہ اللہ تعالیٰ
فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ایک اشرفی کے برابر بھی ایمان پاؤ اسے دوزخ سے
نکال لو اور اللہ ان کے چہروں کو دوزخ پر حرام کر دے گا ۔ چنانچہ وہ آئیں گے اور دیکھیں
گے کہ بعض کا تو جہنم میں قدم اور آدھی پنڈلی جلی ہوئی ہے ۔ چنانچہ جنہیں وہ پہچانیں
گے انہیں دوزخ سے نکالیں گے ، پھر واپس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا
کہ جاؤ اور جس کے دل میں آدھی اشرفی کے برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔
چنانچہ جن کو وہ پہچانتے ہوں گے ان کو نکالیں گے ۔ پھر وہ واپس آئیں گے اور اللہ
تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔
چنانچہ پہچانے جانے والوں کو نکالیں گے ۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ اگر
تم میری تصدیق نہیں کرتے تو یہ آیت پڑھو ” اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم
نہیں کرتا ۔“ اگر نیکی ہے تو اسے بڑھاتا ہے ۔ پھر انبیاء اور مومنین اور فرشتے
شفاعت کریں گے۔
تفہیم
حدیث: درج بالا حدیث پاک
کا مفہوم اور مطلب الفاظ میں واضح ہے اور سادہ ترجمہ بھی واضح ہے۔ اس حدیث پاک کو
بار بار پڑھیں اور سمجھیں۔وہ نیک لوگ اللہ
تعالی سے کس انداز میں مطالبہ اور تقاضا کریں گے آپ الفاظ کو دیکھیں اللہ پاک ان
سے کس طرح محبت کا معاملہ فرمائے گا!۔ نیک لوگ جو کامیاب ہوں گے وہ اپنے ساتھ رہنے والوں کی سفارش کریں گےاور دوزخ سے نکال
نکال کر جنت میں بھیجیں گے۔ اب وہ دوزخ میں جانے والے دوزخ میں کیوں گئے تھے
یقیناً اپنے ان کے اعمال کمزور تھے اور نیک اعمال کم تھے تو دوزخ میں پہنچے مگر
نیک لوگوں کا قرب ، ساتھ ، نسبت اور محبت
ان کی نجات کا ذریعہ بنی۔
بے
شک بے شک بے شک
اللہ
تعالی گناہ معاف کرنے والا ہے اللہ تعالی سننے والا ہے اسے سننے ، دیکھنے ، قبول
کرنے ، معاف کرنے میں کسی وسیلے اور ذریعے کی قطعاً حاجت اور ضرورت نہیں اور نا وہ
محتاج ہے۔ وہ مطلقا سنتا ہے جانتا ہے دیکھتا ، جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ اور سب کچھ
کرنے پر قادر ہے۔ لوگوں کو اللہ تعالی کے
ساتھ تعلق مضبوط بنانے کی تعلیم دینا ایک عنوان اور موضوع ہے اور لوگوں کو اللہ
تعالی کے نیک بندوں اور صالحین کی نسبت اور محبت کے رشتے سے روکنا اور اس کے خلاف
قرآن مجید میں مشرکین کے لیے نازل کردہ آیات بیان کرنا یہ ہر گز درست عمل نہیں
ہے۔ لوگوں کو اللہ تعالی کےساتھ تعلق مضبوط بنانے کا درس ضرور دیں مگر اولیاء اللہ
اور مقربین باری تعالی کے فضائل کا ہر گز انکار اور تنقیص نہ کریں۔
یاد
رکھیں! قبروں کو سجدہ کرنا ، جاہل اور خلاف شریعت اعمال کرنے والے
کو اپنا مرشد بنانا ، نشئی ، چرسی بھنگی کو اللہ والا سمجھنا ، ڈھول باجے اور
شیطانی خرافات کو دین کا حصہ سمجھنا اور ہدایت کا ذریعہ سمجھنا ، ان عقائد و نظریات کا اہلِ سنت و جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جہاں یہ
اعمال ہو رہے ہوں یقیناً نصیحت کی جائی سمجھایا جائے مگر ان کو بنیاد بنا کر اہلِ
سنت و جماعت کے عقائد پر ہرزہ سرائی نہ کی جائے۔ الحمد للہ تمام عقائد ِ اہلِ سنت و جماعت قرآن و سنت کے تقاضوں کے
مطابق ہیں ۔ الحمد للہ ثم الحمدللہ
تحقیق و تدوین : محمد سہیل عارف معینی
ماشاءاللہ
ReplyDeleteاعلی حضرت
ReplyDeleteبہت شکریہ
Deleteماشاءاللہ
ReplyDeletethank you
Delete