مرفوعات کا بیان
مرفوعات جمع ہے مرفوع کی ، مرفوع اس شے کو کہتے
ہیں جس پر رفع ہو
جملہ اسمیہ
جملہ اسمیہ وہ جملہ ہے،
جو مبتدا اور خبر سے مل کر بنتا ہے،مبتدا کومسند الیہ اور خبر کومسند کہتے ہیں،
مبتدا اور خبر دونوں کا آخر مرفوع ہوتا ہے، ان کا عامل یعنی رفع دینے والا ، معنوی
ہوتا ہے۔ جیسے محمدٌ رَّسُوْلُ اللهِ، اللهُ وَاحِدٌ، اَللہُ
اور محمدٌ
مبتدا رَسُوْلُ
اللہِ اور
وَاحِدٌ خبر
ہیں
مبتدا اور خبر کے احکام
1: مبتدا وہ اسم ہوتا ہے، جو ابتدائے
کلام میں آتا ہے اور مسند الیہ ہوتا ہے، یہ عموماً معرفہ ہوتا ہے یا نکرہ مخصوصہ۔
جیسے الشَّجَرُ طَوِيْلٌ،
طِفْلٌ صَغِيْرٌ جَمِيْلٌ
2: خبر
وہ شے ہوتی ہے جو مبتدا کے ساتھ مل کر جملہ مفیدہ بناتی ہے، یہ بھی مفرد ہوتی ہے۔
جیسے اَلْعَدْلُ مَحْمُوْدٌ،
اور کبھی جملہ ہوتی ہے۔ جیسے اَلْقَلَمُ يَكْتُبُ
( قلم لکھتا ہے )، ان مثالوں میں مَحْمُوْدٌ
اور يَكْتُبُ
خبر ہیں۔
مبتدا کے احکام :مبتدا
عموما معرفہ ہوتا ہے۔ جیسے اَلْقَاهِرَةُ مَشْهُوْرَةٌ
یا نکرہ مخصوصہ ہوتا ہے، البتہ نکرہ صرف دوصورتوں میں
مبتدا بن سکتا ہے:
ا۔ جب وہ عموم پر دلالت کرے۔ جیسے مَا
تِلْمِيْذٌ غَائِبٌ (
کوئی طالبعلم غائب نہیں) جب نکرہ سے پہلے حرف نفی یا حرف استفہام آ جائے تو یہ
عموم پر دلالت کرتا ہے ۔جیسے مَا مُجْتَهِدٌ غَائِبٌ
( کوئی محنتی غائب نہیں)، هَلْ
كَرِيْمٌ ذَاهِبٌ (
کیا کوئی کی جانے والا ہے؟ )
۲۔
جب وہ مخصوصہ ہو، جیسے کِتَابُ
تِلْمِيْذٍ مَفْقُوْدٌ
نکرہ کو مخصوص کرنے
کی صورتیں: نکرہ درج ذیل صورتوں میں مخصوص ہو جا تا ہے :
ا۔ اضافت سے
: جب اسے دوسرے نکرہ کی طرف مضاف کیا جائے تو یہ نکرہ مخصوصہ بن جا تا ہے ۔ جیسے طَالِبُ
إِحْسَانٍ وَاقِفٌ (
نیکی کا طالب کھڑا ہے)
۲۔ صفت لگانے سے :
جب اس کی صفت دوسرے اسم نکرہ سے لگائی جائے تو یہ خاص ہو جا تا ہے۔ جیسے تِلْمِيْذٌ
مُجْتَهِدٌ فَائِزٌ (محنتی
شاگرد کامیاب ہے )
۳۔
جب خبر ظرف یا جار مجرور ہو اور مبتدا سے پہلے آ جائے۔
جیسے عَلى الشَّجَرَةِ طَائِرٌ، عِنْدِیْ کِتَابٌ،
ان مثالوں میں عَلى الشَّجَرَةِ اور
عِنْدِیْ خبر مقدم اور طَائِرٌ
اور کِتَابٌ
نکرہ مبتدا موخر ہیں ۔ ۔
۴۔جو اپنے مابعد میں عمل
کر رہا ہو۔ جیسے رَغْبَةٌ فِي الْخَيْرِ خَيْرٌ (
بھلائی میں رغبت کرنا بہتر ہے) رَغْبَةٌ فِي الْخَيْرِ مبتدا
ہے۔ ۵۔جب دعا کے لئے استعمال کیا جائے۔ جیسے سَلَامٌ
عَلٰى اِلْيَاسِيْن
۶۔ جب وہ مصغر
ہو۔ جیسے رُجَيْلٌ عِنْدِیْ
۷۔ جب وہ لَوْلَا
کے بعد واقع ہو۔ جیسے لَوْلَا
اصْطِبَارٌ لمَاَ فَازَ أَحَدٌ (اگر
صبر کرنا نہ ہوتا تو کوئی کامیاب نہ ہوتا ) اس میں اصْطِبَارٌ
مبتدا ہے جس کی خبر محذوف ہے۔
خبر کے احکام
ا۔ مبتدا کی خبر کبھی مفردہوتی ہے۔ جیسے
الکتاب مفید
۲۔
خبر کبھی جملہ اسمیہ واقع ہوتی ہے اور کبھی جملہ فعلیہ ، اس جملہ میں ایک ضمیر
بارز (ظاہر ) یا مستتر ( پوشیدہ) کا ہونا ضروری ہے جو تذکیر و تانیث ، واحد ، تثنیہ،
جمع ہونے میں مبتدا
کے مطابق ہو۔ جیسے اَلْبُسْتَانُ اَزْهَارُہ جَمِيْلَةٌ، اَلْكَرِيْمُ
يُسَاعِدُ الْيَتِيْمَ (سخی
یتیم کی مدد کرتا ہے) اَلْبُسْتَانُ اور
اَلْكَرِيْمُ مبتدا اَزْهَارُہ
جَمِيْلَةٌ اور يُسَاعِدُ
الْيَتِيْمَ خبر
ہیں اَزْهَارُہ میں(
ہ) ضمیر اور يُسَاعِدُ میں(
هُوَ) ضمیر مبتدا کی طرف لوٹ
رہی ہے اور اس ضمیر کوضمیر عائد کہتے ہیں۔
۳۔
کبھی مبتدا کی خبر ظرف یا جار مجرور ہوتی ہے ۔ جیسے اَلطِّفْلُ
فِي الْمَسْجِدِ (بچہ
مسجد میں ہے)، اَلطَّائرُ فَوْقُ السَّقْفِ
(پرندہ چھت کے اوپر ہے ) ۔ ان مثالوں میں فِي
الْمَسْجِدِ اور
فَوْقُ السَّقْفِ خبر
ہیں۔
نوٹ: جب خبر ظرف یا چار مجرور ہو تو اس
سے پہلے فعل یا شبہ فعل (اسم فاعل اسم مفعول ،صفت مشبہ اسم تفضیل اور مصدر ) میں
سے کسی کا ہونا ضروری ہے، اگرفل باشبہ فعل کلام میں موجود ہوں تو اس کو ظرف لغو
کہتے ہیں۔ جیسے زَیْدٌ جَالِسٌ عَلَى الْکُرْسِیِّ
اور اگر فعل یا شبہ فعل کلام میں موجود نہ ہوں تو ان سے
پہلے اِسْتَقِرَّ مُسْتَقِرٌّ، مَوْجُوْدٌ ثَابِتٌ
محذوف نکال لیا جا تا ہے ؛ ظرف، جار اور مجر در اس کے
متعلق ہو جاتے ہیں، اس کو ظرف مستقر کہتے ہیں جیسے فِي
الْغُرْفَةِ طَالِبٌ، عِنْدِیْ كِتَابٌ اصل
میں مَوْجُوْدٌ یا
مَوْجُوْدٌ تھے۔
نوٹ: کبھی مبتدا کی کئی خبر یں آتی ہیں۔
جیسے اَلتِّلْمِيْذُ فَائِزٌ مَسْرُوْرٌ
مبتدا کی تقدیم
: مبتدا عموما پہلے آتا ہے ،خبر بعد میں آتی ہے۔ مگر
کبھی اس کا الٹ بھی ہوتا ہے، درج ذیل صورتوں میں پہلے اسم کو مبتدا بنا نا واجب
ہے:
ا۔ جب مبتدا
اور خبر دونوں معرفہ ہوں جیسےعَلِیٌّ صَدِیْقِیْ
۲۔ جب
مبتدا اور خبر دونوں تخصیص میں برابر ہوں ۔ جیسے اَفْضَلُ
مِنْكَ اَفْضَلُ مِنِّىْ، اَفْضَلُ
مِنْكَ مبتدا اور بعد والا حصہ خبر ہے۔
۳۔ جب
مبتدا کی خبر جملہ فعلیہ ہو۔ جیسے اَلطِّفْلُ يَضْحَكُ
۴۔
جب مبتداكو إَنَّمَا
يا مَا
اور إِلَّا
کے ذریعہ خبر کے ساتھ خاص کر دیا جائے ۔ جیسے إَنَّمَا
الْحَدِيْدُ صُلْبٌ، مَا
أَنْتَ إِلَّا شَاعِرٌ
(تو تو صرف شاعر ہے )
۵۔ جب
مبتدا ایسا کلمہ ہو، جس کا ابتدائے کلام میں لانا ضروری ہو، اور یہ درج ذیل کچھ
کلے ہیں:
ا-اسمائے استفہام وشرط ۲- کم خبر یہ ۳- ماتعجیه ۴ -ضمیرشان یاضمیرقصه ۵ - اسم موصول ۲-لام ابتدائیہ
ا-اسمائے استفہام
وشرط وہ اسماء جو استفہام یا شرط کے معنی ہیں۔ جیسے مَنْ
اَبُوْکَ (تیرا
باپ کون ہے؟)، مَنْ يَّجْتَهِدْ يَفُزْ
( جوکوشش کرے گا ، کامیاب ہوگا ) ، مَنْ مبتدا
اور بعد والا کلام خبر ہے۔
۲۔
کم خبر یہ جس کے ساتھ کسی چیز کی کثرت کی خبر دی جائے
۔ جیسے کَمْ کِتَابٍ مُفِیْدٌ
۳۔ ماتعجیہ..........
جس کے ساتھ تعجب کا اظہار کیا جائے۔ جیسے مَا
أَحْسَنَ زَيْدًا مَا
بَمَعْنٰى شَيْئٌ عَظِيْمٌ مبتدا
اور أَحْسَنَ زَيْدًا
خبر ہے۔
۴۔
ضمیر شان یا قصہ............. وہ ضمیر، جو جملہ کی
ابتداء میں بلا مرجع آئے اور بعد والا جملہ اس کی تفسیر بیان کرے، اگر مذکر ہوتو
ضمیر شان اور مؤنث ہوتو ضمیر قصہ کہلاتی ہے۔ جیسے هِيَ
الْبِنْتُ تَجْتَهِدُ، هُوَ اللهُ اَحَدٌ،
یہاں هِيَ اور
هُوَ
مبتدا ہیں ۔
۵-لام
ابتدائیہ..........وہ اسم ، جس سے پہلے لام مفتوح
ابتدائی آ جائے۔جیسے لَزَیْدٌ مُجْتَهِدٌ
۲ - اسم
موصول .......... وہ اسم ، جس میں شرط کے معنی
پائے جائیں اس کی خبر سے پہلے (ف)آ جائے۔ جیسے اَلَّذِيْ
يُجِيْبُ فَلَه جَائِزَةٌ
خبر کی تقدیم :
خبر کا پار مقامات پر مقدم کرنا واجب ہے۔
ا۔ جب خبر ایسا کلمہ ہو جس کا ابتدائے
کلام میں لانا ضروری ہو۔ جیسے اَیٓنَ کِتَابُکَ مَتٰى الإِمٓتِحَانُ،
كَيٓفَ الْخَلَاصُ
۲۔ جب خبر کو إِنَّمَا
يا مَا
اور إِلَّا
کے ذرایہ مبتدا کے ساتھ خاص کیا جائے۔ جیسے إِنَّمَا
السَّابِقُ محمدٌ، مَا
الْخَطِيْبُ إِلَّا
عَلِىٌّ
۳۔ جب
خبر ظرف یا جار مجرور اور مبتدانکرہ ہو۔ جیسے عِنْدِيْ
سَيَّارَةٌ لِلدَّارِبَابٌ
۴۔ جب
مبتدا میں ایسی ضمیر ہو جو خبر کے کسی جز کی طرف لوٹے ۔ جیسے ۔ عَلَی
الْحَصَانِ سَرْجُہ۔اس مثال میں( ہ
) ضمیر حصان کی طرف لوٹ رہی ہے۔
مبتدا اور خبر کی
مطابقت
جب خبر اسم مشتق یا اسم
منسوب ہو تو واحد، تثنیہ، جمع ، مذکر اور مونٹ میں اس کا مبتدا کے مطابق ہونا ضروری
ہے جیسے اَلتِّلْمِيْذُ حَاضِرٌ، اَلْبِنْتُ ذَكِيَّةٌ،
اَلشَّجَرَتَانِ مُثْمِرَتَانِ، اَلرِّجَالُ مُجْتَهِدُوْنَ
اگر مبتدا جمع مکسر یا
جمع غیر ذوی العقول ہوتو خبر مفردمونث بھی آ سکتی ہے ۔ جیسے اَلْكُتُبُ
مُفِيْدَةٌ، اَلْجِبَالُ شَامِخَۃٌ يا شَامِخَاتٌ