حدیث قرآن مجید کی تشریح
ہے۔
قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہےجو تقریباً تئیس
سال کے عرصے میں بمناسبت ِ حال نازل ہوتا رہا ۔ قرآن مجید انسان کی رشدو ہدایت کی
ضامن کتاب ہے۔ قرآن مجید کو پڑھنا ، سمجھنا اور پھر اس پر عمل کرنا قرآن حکیم کا
اولین حق ہے۔قرآن مجید نبی کریم
ﷺ کے وساطت سے انسانوں تک پہنچا ہے۔ اس کے سب سے پہلے معلم ، شارح اور مفسر خود رسالت ماٰب ﷺ ہیں ۔نبی
کریم ﷺ کے فرائضِ نبوت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا
ہے:
لَقَدْ
مَنَّ اللّٰهُ عَلَى
الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ
فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ
اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ
اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ
وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ
وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ
كَانُوْا مِنْ قَبْلُ
لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(سورۃ اٰل عمران: 164)
ترجمہ: بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا
احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے ۔ وہ ان کے
سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور
حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے
تھے۔
اللہ تعالی کی آیات کی
تلاوت کرنا ، ترکیہ نفس کرنا ، کتاب اور حکمت کی تعلیم دینا نبی کریم ﷺ کے منصبِ رسالت کی ذمہ داریوں
میں سے ہیں۔ تعلیم دینے کے ضمن میں مفاہیم اور علوم کی تشریح کرنا بھی نبی
کریم ﷺ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ چناں چہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَ مَاۤ
اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا
فِیْهِۙ-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(سورۃ النحل:64)
ترجمہ: اور ہم نے تم پر یہ کتاب اس لئے
نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں کیلئے وہ بات واضح کردو جس میں انہیں اختلاف ہے اوریہ
کتاب ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
اس آیہ مقدسہ میں اللہ
تعالی نے قرآن مجید کے نزول کا مقصد بیان کیا کہ نازل ہی اس لیے کی گئی کہ آپ
لوگوں کو وضاحت سے مسائل بیان کر دیں ۔لوگوں کے اختلافات کو ختم کرنا اور اللہ
تعالی کی تعلیمات لوگوں تک مفصل بیان کرنا نبی کریم ﷺ کی ذمہ داری ہے۔ ذیل میں چند
ایک اہم نِکات بیان کیے جا رہے ہیں جن سے اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا کہ حدیث
قرآن مجید کے لیے کیوں لازم و ملزوم ہے ۔
حدیث کے بغیر قرآ ن فہمی
نا ممکن ہے:
قرآن مجید کی دیگر بے شمار صفات میں ایک صفت قرآن مجید کا
مفصل ہونا بھی ہے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: وَّ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ اِلَیْكُمُ الْكِتٰبَ
مُفَصَّلًاؕ(سورۃ الانعام:114)
ترجمہ: وہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصل کتاب اُتاری۔قرآن مجید کو
اللہ تعالی ے مفصل کتاب قرار دیا ہے یعنی قرآن مجید خود اپنی تشریح کرتا ہے یعنی
اگر ایک مقام پر ایک جملہ مجمل ہے تو دوسرے مقام پر اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
جیسے روزوں کے معاملے میں فرمایا :
اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ(سورۃ
البقرۃ:184) کہ یہ گنتی کے چند دن ہیں ۔ اب یہ کون سے چند دن ہیں اس کی وضاحت آیت
نمبر 185 میں کر دی : شَهْرُ رَمَضَانَ
الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ
الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ (سورۃ البقرۃ:185) ترجمہ:رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن
نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر
مشتمل ہے۔) تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے۔ اس کے
باوجود قرآن مجید میں بعض مقامات ایسے ہیں جن کی وضاحت قرآن مجید میں موجود نہیں
ہے اس کی وضاحت اور تشریح ہمیں حدیث رسول ﷺ سے ملتی ہے جیسے
1: وَ
لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ(سورۃ الحجر:87) اور بیشک ہم نے تمہیں سات آیتیں دیں جو بار بار دہرائی جاتی ہیں اور عظمت والا
قرآن(دیا)۔سبع مثانی کے معاملے میں قرآن
مجید میں کسی دوسری آیت سے اس کی وضاحت نہیں ہوتی کہ سبع مثانی سے کیا مراد ہے۔اس
کا علم حدیث پاک میں دیا گیا :
أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ ،
قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ
، فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجَ مِنَ
الْمَسْجِدِ ، فَذَكَّرْتُهُ ، فَقَالَ :
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 هِيَ السَّبْعُ
الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ ، الَّذِي أُوتِيتُهُ(صحیح بخاری :4703)
ابو سعید بن المعلیّٰ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: کیوں نہ آج میں تمہیں مسجد سے
نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے عظیم سورت بتاوں۔ پھر آپ ﷺ مسجد سے باہر تشریف لے
جانے کے لیے اٹھے تو میں نے بات یاد دلا دی۔ آپ نے فرمایا سورۃ الحمد للہ رب اللعلمین یہی سبع مثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا
ہے۔
2: ایک اور مقام پر سورۃ الزمر آیت نمبر 67 میں : وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ السَّمٰوٰتُ
مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖؕ (سورۃ الزمر :67) ترجمہ: اور قیامت کے دن ساری زمین اس کے قبضے میں ہوگی اور
اس کی قدرت سے تمام آسمان لپیٹے ہوئے ہوں گے۔
اس آیہ مبارکہ میں مذکور ہے کہ قیامت کے دن زمین و آسمان
اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہوں گے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے
ہیں کہ :
حَدَّثَتْنِیْ عَائِشَۃُ رضی اللہ عنہا اَنَّہَا سَاَلَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم عَنْ قَوْلِہٖ
{وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمٰوَاتُ
مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ} فَاَیْنَ النَّاسُ یَوْمَئِذٍیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!؟
قَالَ: ((ھُمْ عَلٰی جَسْرِ جَہَنَّمَ)۔(مسند احمد:13212)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بیان کیا تھا کہ انہوں نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں پوچھا
تھا: {وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہُ
یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمٰوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ} (اور قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور
سارے آسمان بھی اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے) (سورۃ الزمر: 67) اے
اللہ کے رسول ! اس تبدیلی کے وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وہ جہنم کے پل صراط پر ہوں گے۔
3: سورۃ القیامہ کی آیت نمبر 22 اور 23 میں اللہ تعالی کے
کی زیارت کے حوالے سے مذکور ہے :
وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌ(22)اِلٰى رَبِّهَا
نَاظِرَةٌ(23) ترجمہ: کچھ چہرے اس
دن تر و تازہ ہوں گے۔اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے۔
ان
آیات میں قیامت کے دن اللہ تعالی کے چہرے کی طرف دیکھنے کی بات ہے کہ ترو تازہ
چہرے والے اللہ تعالی کے چہرے کی طرف دیکھ رہے ہوں گے : عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قلنا يا رسولَ الله، هل
نرى ربَّنا يوم القيامة؟ قال: «هل تُضَارُّون في رؤية الشمس والقمر إذا كانت
صَحْوًا؟»، قلنا: لا، قال: «فإنكم لا تُضَارُّون في رؤية ربِّكم يومئذ، إلا كما
تُضَارُّون في رؤيتهما»(متفق علیہ )ترجمہ: بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ: “کیا
ہم روز قیامت اللہ تعالی کو دیکھیں گے؟۔” آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ہاں۔ تم اپنے رب
کو بالکل ایسے ہی دیکھو گے جیسے عین دوپہر کے وقت سورج کو اور چودھویں کی رات مکمل
چاند کو بغیر کسی بھیڑ اور دھکم پیل کے دیکھ لیتے ہو۔
بیان
و تشریحِ قرآن مجید کی مختلف صورتیں:
حدیث رسول ﷺ قرآن مجید کی
تشریح و توضیح ہے ذیل میں مختلف صورتوں کے بارے میں وضاحت دی گئی ہے:
مجملات
کی تفصیل: قرآن مجید میں ایسے
کئی احکام ہیں جن کی تفصیل بیان نہیں کئی وہ تفصیل ہمیں نبی کریم ﷺ کی احادیث
مبارکہ سے ملتی ہے مثلاً نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ، نماز کی فضیلت بیان کی
گئی ہے یعنی نماز بے حیائی سے روکتی ہے،
نماز پڑھنے کا اجمالاً حکم دیا گیا ہے مگر اس کی جزئیات بیان نہیں کی گئی یعنی
نماز کے اوقات ، نماز کی رکعتیں ، نماز کی ہیئت
وغیرہ اسی طرح روزہ ،زکوۃ اورحج کا حکم دیاگیا ہےلیکن ان کی جزیئات یعنی
زکوۃ کی مقدار، زکوۃ کا نصاب حج کے مناسک سب احادیث سے ثابت ہیں ۔ ایک مستند ذریعہ
تعلیم حدیث نبوی ﷺ ہی ہےجو ہمیں قرآن مجید کے احکام پر احسن انداز میں عمل کرنے
کی رہنمائی کرتا ہے۔
مبہمات
کی توضیح: اللہ تعالی نے قرآن
مجید کو یاد کرنے، نصیحت حاصل کرنے اورسمجھنےکیلیے
بہت آسان بنایا ہے لیکن پھر بھی انسانی فکر و نظر کے تحت کہیں آیات کو سمجھنے
میں ابہام پیدا ہو جائے تو اس کی وضاحت
نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ ہی کر سکتی ہیں ۔ جیسے جب روزے کے احکام کے بارے میں آیہ مبارکہ نازل
ہوئی :
وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ
الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ (سورۃ البقرہ:187) اس کے ساتھ ابھی مِنَ الْفَجْرِ۪ کے الفاظ نازل نہیں ہوئے تھے تو حضرت عدی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک سیاہ اور
ایک سفید دھاگا لیا : أَخَذَ عَدِيٌّ ,
عِقَالًا أَبْيَضَ وَعِقَالًا أَسْوَدَ حَتَّى كَانَ بَعْضُ اللَّيْلِ نَظَرَ ،
فَلَمْ يَسْتَبِينَا فَلَمَّا أَصْبَحَ , قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، جَعَلْتُ
تَحْتَ وِسَادِي عِقَالَيْنِ , قَالَ :
إِنَّ وِسَادَكَ إِذًا لَعَرِيضٌ أَنْ كَانَ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ
وَالْأَسْوَدُ تَحْتَ وِسَادَتِكَ (صحیح
بخاری:4509). ( اور سوتے ہوئے اپنے ساتھ رکھ لیا ) ۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو
انہوں نے اسے دیکھا ، وہ دونوں میں تمیز نہیں ہوئی ۔ جب صبح ہوئی تو عرض کیا : یا
رسول اللہ ! میں نے اپنے تکیے کے نیچے ( سفید و سیاہ دھاگے رکھے تھے اور کچھ نہیں
ہوا ) تو حضور ﷺ نے اس پر بطور مذاق فرمایا : پھر تو تمہارا تکیہ بہت لمبا چوڑا ہو
گا کہ صبح کا سفید خط اور سیاہ خط اس کے نیچے آ گیا تھا۔ اس کے بعد پھر وضاحتی
الفاظ مِنَ الْفَجْرِ نازل ہوئے۔
مشکلات
کی تفصیل:قرآن مجید جب نازل
ہوتا تو بعض الفاظ اور آیات کو سمجھنے میں صحابہ کرام مشکل کا شکار ہو جاتے تو اس
مشکل کے حل کے لیے نبی کریم ﷺ کی طرف رجوع کرتے اور آپ ﷺ اس کی وضاحت انتہائی
آسان انداز میں فرما دیتے:
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ: «لَيْسَ أَحَدٌ يُحَاسَبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا هَلَكَ» .
قلتُ: أوَ ليسَ يقولُ اللَّهُ: (فَسَوْفَ يُحَاسِبُ حِسَابا يَسِيرًا) فَقَالَ:
«إِنَّمَا ذَلِكَ الْعَرْضُ وَلَكِنْ مَنْ نُوقِشَ فِي الْحساب يهلكُ» . مُتَّفق
عَلَيْهِ
ترجمہ: عائشہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت
جس کسی سے حساب لیا گیا وہ مارا گیا۔ “ میں نے عرض کیا، کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا:
”(جس کسی کو نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا) اس سے آسان حساب لیا
جائے گا۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو صرف پیش کرنا ہو
گا، لیکن جس کی حساب میں جانچ پڑتال کی گئی وہ ہلاک ہو گا۔ “ متفق علیہ
اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ ملاحظہ
فرمائی:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ :
لَمَّا نَزَلَتْالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة
الأنعام آية 82 شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ ، فَقَالُوا : يَا رَسُولَ
اللَّهِ أَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ ، قَالَ : لَيْسَ ذَلِكَ إِنَّمَا هُوَ
الشِّرْكُ أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا ، قَالَ : لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ
يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان
آية 13 (صحیح بخاری:3429) ترجمہ: حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ
فرماتے ہیں جب آیت ” جو لوگ ایمان لائے
اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہیں کی ۔“ نازل ہوئی تو مسلمانوں پر بڑا شاق
گزرا اور انہوں نے عرض کیا ہم میں کون ایسا ہو سکتا ہے جس نے اپنے ایمان کے ساتھ
ظلم کی ملاوٹ نہ کی ہو گی ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس کا یہ مطلب نہیں ، ظلم سے
مراد آیت میں شرک ہے ۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے
سے کہا تھا اسے نصیحت کرتے ہوئے کہ ’’ اے بیٹے ! اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک
نہ ٹھہرا ، بیشک شرک بڑا ہی ظلم ہے ۔
اشارات
کی تشریح: قرآن مجید کا یہ
اعجاز ہے کہ ہر چیز کی تفصیل بیان نہیں کی اور نہ ہی ہر چیز کا اجمالاً بیان کیا
بلکہ جہاں ضرورت تھی وہاں تفصیل بیان کی جہاں حسن اجمال میں تھا تو اجمال سے ذکر
کیا ۔ اب جہاں کہیں ضرورت ہوتی صحابہ کرام نبی کریم ﷺ سے بلاواسطہ قرآن مجید سمجھ
لیتے تھے۔ اس لحاظ سے قرآن مجید کے ہر مجمل ، مشکل اور مبہم حکم کو نبی کریم ﷺ نے
احادیث مبارکہ میں کھول کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ بعض ایسے مقامات ہیں جہاں اللہ
تعالی نے اشارے کیے ہیں اور ان کی وضاحت قرآن مجید میں کہیں نہیں کی گئی تو ان کو
علم حدیث مبارکہ سے حاصل ہوتا ہے جیسے
سورۃ التوبہ میں فرمایا : وَّ
عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْاؕ (سورۃ التوبہ:118) اس میں تین لوگوں کے پیچھے رہ جانے کا ذکر ہے اب وہ لوگ
کون تھے اور کس معاملے میں پیچے رہے اس کی وضاحت ہمیں احادیث مبارکہ میں ملتی ہے۔
وہ تین لوگ حضرت کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن
ربیع تھے جو غزہ تبوک میں مجاہدین سے پیچھے رہ گئے تھے اور بغیر کسی عذر کے جہاد
میں شریک نہ ہو سکے۔
احادیث
مبارکہ سے ہمیں تین طرح کے احکام ملتے ہیں:
۱: ایسے احکام جنہیں قرآن مجید نے بھی بیان فرمایا ہے احادیث
مبارکہ میں بھی ان کی ترغیب گاہے بگاہے بیان کی گئی۔ جیسے نماز پڑھنے کا حکم ایک
مقام پر آیا تو رسول اللہ ﷺ نے کسی مقام پر جہاں قرآن نازل تو نہیں ہوا لیکن آپ
ﷺ نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہو ۔
۲:ایسے احکام کہ قرآن مجید نے جن کا ذکر اجمالاً کیا اس کی
جزیئات کا بیان نہیں کیا گیا تو احادیث نبویہ میں ان کی وضاحت بیان کی گئی۔
۳:ایسے احکام جن کے معاملے میں قرآن مجید نے سکوت اختیار
کیا یعنی وہ احکام قرآن مجید میں بیان نہیں ہوئے مثلا دادی کی وراثت ، پھوپھی اور
بھتیجی کو ایک مرد کا اکٹھانکاح میں رکھنا ۔
ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب
سبجیکٹ: علوم الحدیث
کلاس PHD سیشن 2023 ایجوکیشن یونیورسٹی لوئر مال کیمپس لاہور