نواسخِ جملہ
نواسخ جمع ہے، اس کا مفرد ناسخ ہے، جو نسخ سے نکلا ہے۔ نسخ
کا لغوی معنی زائل کرنا اور اثر مٹا دینا ہے، اصطلاح میں نواسخ جملہ سے مراد وہ
افعال اور حروف ہیں، جو جملہ اسمیہ پر داخل ہو کر اس کے پہلے حکم کو ختم کر دیں ۔
کیونکہ مبتدا اور خبر دونوں مرفوع ہوتے ہیں اور بعض اوقات ان سے پہلے کچھ ایسے
افعال اور حروف آتے ہیں ، جومبتدا کو رفع اور خبر کو نصب اور بعض مبتدا کو نصب اور
خبر کو رفع اور بعض دونوں کو نصب دیتے ہیں انہیں نواسخ جملہ کہتے ہیں۔ اور یہ
تعداد میں چھ ہیں:
ا۔ افعال ناقصہ ۲۔افعال مقار به ۳۔ ماولا مشبہتان بلیس ۴-حروف مشبہ بالفعل ۵۔لانفی جنس ۲۔ افعال قلوب
1: افعال ناقصہ اور ان کے مشتقات
یہ جملہ اسمیہ پر
داخل ہوتے ہیں، مبتدا کو رفع دیتے ہیں ، اسے ان کا اسم کہتے ہیں اور خبر کو نصب دیتے
ہیں اور اسے ان کی خبر کہتے ہیں۔ جیسے کَانَ الطَّالِبُ وَاقِفًا، مَازَالَ الشَّجَرُ مُثْمِرًا
وجہ تسمیہ: ناقصہ نقص سے نکلا ہے اور اس کا معنی ہے نامکمل ہونا۔ چونکہ
یہ افعال لازم ہیں اور فعل لازم کی طرح فائل کے ساتھ مل کر مکمل جملہ نہیں بنتے
بلکہ فاعل کی صفت بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا انہیں ناقصہ کہتے ہیں ۔ ان کے
فاعل کو ان کا اسم اور صفت فاعل کو ان کی خبر کہہ دیتے ہیں۔ یہ تعداد میں تیرہ ہیں:
1: کَانَ ،2: صَارَ،3: أَصْبَحَ، 4: أَمْسٰى، 5: أَضْحٰى، 6:
ظَلَّ، 7: بَاتَ، 8: مَابَرِحَ، 9: مَازَالَ، 10: مَافَتِیَ، 11: مَا انْفَكَّ، 12:
مَادَامَ، 13: لَيْسَ
عمل کی تفصیل
1: کَانَ : یہ
چار معانی میں استعمال ہوتا ہے: (۱) ناقصه (۲) تامہ (۳) زائده (۴) بمعنی صار
۱: کَانَ
ناقصہ: یہ اپنے اسم کی خبرکو زمانہ ماضی میں ثابت کرنے کے لئے آتا ہے، خواہ خبر کا
اسم سے جدا ہونا ناممکن ہو۔ جیسے کَانَ
اللہُ عَلِیْمًا ، یا اس کا اسم سے جدا ہونا ممکن ہو۔ جیسے کَانَ الْمَاءُ بَارِدًا ( پانی ٹھنڈا
تھا)
۲: کَانَ تامہ: یہ صرف فاعل کے ساتھ مل کر مکمل جملہ بن جاتا ہے، اسے
خبر کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس وقت یہ ثَبَتَ اور حَصَلَ کا معنی دیتا ہے ۔ جیسے کَانَ اللہُ وَلَمْ يَكُنْ غَیْرُہٗ اس مثال میں کان
تامہ ہے ۔
۳: کَانَ زائدہ: وہ کَانَ ہے کہ اگر اسے کلام سے نکال دیا جائے تو معنی مقصود میں فرق
نہ آئے ۔اس کے زائد ہونے کی دوشرطیں ہیں: ایک یہ کہ صیغہ ماضی میں ہو۔ جیسے مَا كَانَ أحْسَنَ زَیْدًا، دوسری یہ کہ چار مجرور کے سوا دومتلازم چیزوں کے درمیان آئے
۔ جیسے اَلْقِطَارُ كَانَ مُتَحُرِّکٌ ان دونوں مثالوں
میں كَانَ زائدہ ہے۔
۴: كَانَ بمعنی صار: وہ كَانَ ہے جو صَارَ کی طرح اسم کی
حالت تبدیل کرنے کے لے آئے۔ جیسے کان
الشجر مثمرا (درخت پھل دار ہو گیا )
خصوصیات:
جب كَانَ سے فعل مضارع بنایا جائے اور اس سے پہلے حرف جازم آ جائے
تو اس کے آخر سے نون گر جا تا ہے ۔ بشرطیکہ سکون وقف کی وجہ سے نہ ہو اور ضمیر
منصوب متصل یا کوئی دوسرا ساکن اس کے ساتھ نہ ملا ہو۔ جیسے لم اک بغیا، یہ اصل میں لم أكن تھا مگر لَمْ یَكُنِ الَّذِیْنَ
كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اور
لَمْ يَكُنْہُ میں نون حذف نہیں ہوگا کیونکہ پہلی جگہ دوسرے
ساکن سے اور دوسری مثال میں ہٗ ضمیر منصوب سے ملا ہوا ہے۔
2: صَارَ: یہ اپنے اسم کی حالت یا صفت کو تبدیل کرنے کے
لئے آتا ہے۔ جیسے صَارَ الْمَاءُ جَلِيْدًا ( پانی جم گیا)،
صَارَ الْعِنَبُ نَاضِجًا (انگور پک گئے )
3: أَصْبَحَ ( صبح کا وقت ہوا)، 4: أَمْسٰی ( شام کا وقت ہوا)، 5: اَضْحٰی(چاشت کا وقت ہوا)
یہ تینوں افعال
اپنے اپنے اسم کی خبر کو اپنے اپنے وقتوں کے ساتھ ملانے کے لئے آتے ہیں، یعنی أَصْبَحَ صبح کے وقت کے ساتھ، اَضْحٰی چاشت
کے وقت کے ساتھ ، أَمْسٰی شام کے وقت کے
ساتھ۔ جیسے أَصْبَحَ التِّلْمِيْذُ مُصَلِّيًا (طالب علم نے
صبح کے وقت نماز پڑھی)، أَمْسٰی الطِّفْلُ بَاكَيًا (شام کے وقت بچہ
رویا)، اَضْحٰی الْفَلَّاحُ مُسْتَرِيْحًا (چاشت کے وقت
کسان آرام پانے والا ہوا)
6: ظَلَّ: یہ اپنے اسم کی خبر کو دن کے ساتھ خاص کرنے کے لئے آتا
ہے۔ جیسے ظَلَّ الْفَارِسُ ذَاهِبًا ( شاہسوار دن کے
وقت گیا )
7: بَاتَ: یہ
اپنے اسم کی خبر کو رات کے وقت کے ساتھ خاص کر دیتا ہے۔ جیسے بَاتَ الْمَرِيْضُ نَائِمًا (مریض رات کے
وقت سویا)۔
نوٹ: اَمْسٰى، أَصْبَحَ، أَضْحٰى، ظَلَّ، بَاتَ، یہ پانچوں افعال
بھی کَانَ کی طرح کبھی صَارَ کے معنی میں
استعمال ہوتے ہیں، اس وقت ان سے وقت مراد نہیں ہوتا صرف تبد یلی حالت مقصود ہوتی
ہے۔ جیسے اَمْسَى الْغُبَارُ ثَائِرًا
(غبار اڑنے والا ہو گیا)، فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖ
إِخْوَانًا(تم اس کے انعام سے
بھائی بھائی ہو گئے)، ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا(اس کا چہرہ سیاہ ہو گیا)، أَضْحَى الطَّالِبُ مُجْتَهِدًا (طالب علم محنتی
ہو گیا)
8: مَازَالَ، 9: مَابَرِحَ 10: مَافَتِىَ،11: مَا انْفَكَّ: یہ چاروں افعال اپنے اسم کی خبر کے استمرار کے لئے آتے ہیں،
ان سے پہلے ما حرف نفی آتا ہے جیسے مَازَالَ
الْمَطَرُ غَزِيْرًا ( بارش موسلا
دھار برستی رہی)، مَابَرِحَ الْمَرِيْضُ
مُتَوَجِّعًا (مریض درد محسوس
کرتا رہا)
نوٹ : افعال استمرار کا فعل مضارع بھی ماضی کی طرح عمل کرتا
ہے۔ جیسے لَایَزَالُ الْمَطَرُ غَزِيْرًا
12: مَادَامَ: یہ تعیینِ وقت کے لئے آتا ہے، اس سے پہلے ما مصدر یہ ظرفیہ ہے، یہ اپنے اسم
اور خبر سے مل کر اپنے سے پہلے فعل یا شبہ فعل کی ظرف بنتا ہے ، اس سے مضارع اور
امر کے صیغے نہیں آتے۔ جیسے لَا تَقْرَءُ
مَادَامَ النُّوْرُ ضَئِيْلًا (تو مت پڑھ، جب تک روشنی کمزور ہے)
13: لَیْسَ : یہ اپنے اسم سے زمانہ حال میں خبر کی نفی کرتا ہے۔ جیسے لَیْسَ الْكَسْلَانُ نَاجِحًا (سست آدمی کامیاب
نہیں ہے )
یہ فعلِ جامد ہے، اصل میں لَیِسَ تھا، کثرت استعمال کی وجہ سے کسرہ حذف کر دیا ، ماضی کے سوا
اس سے کوئی فعل نہیں آتا ، جب اس کی خبر سے پہلے ب حرف جر آ جائے تو اس کی خبر
لفظاً مجرور اور محلاًمنصوب ہوتی ہے۔ جیسے
لَیْسَ التِّلْمِيْذُ بِرَاسِبٍ (طالب علم فیل نہیں ہے )۔
ضروری احکام
مذکورہ بالا تمام
افعال ناقصہ کی خبر کو ان کے اسم سے پہلے ذکر کرنا جائز ہے۔ جیسے أَمْسٰى نَازِ لَانِ الْمَطَرُ
لَیْسَ اور وہ افعال جن سے پہلے مَا آتا ہے ، ان کی خبر کونفس افعال سے مقدم کرنا جائز نہیں،
باقی افعال ناقصہ کی خبر ان سے پہلے آ سکتی ہے۔ البتہ ان تمام افعال سے ان کے اسم
کو ان سے مقدم کرنا جائز نہیں۔
لَیْسَ ، مَازَالَ، مَابَرِحَ ، مَا انْفَكَّ کے علاوہ یہ تمام افعال ناقصہ کبھی تامہ بھی استعمال ہوتے
ہیں جیسے فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ
حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ (سورۃ الروم : 17)( الله تعالى پاک ہے ہر عیب سے جب تم شام کر تے ہو اور جب تم
صبح کرتے ہو )، خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا
دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ (سورۃ
ھود :107) ( وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں)، صِرْتُ مِنْ مَكَانٍ إِلٰى مَكَانٍ ، ( میں ایک جگہ
سے دوسری جگہ منتقل ہوا)
۲۔افعال مقار به پڑھنے کے لیے کلک کریں نیا سبق شروع ہو رہا ہے۔۔۔۔۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You