حجیت
حدیث کے موضوع کو تین اہم حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
1: حجیت
حدیث کے عمومی دلائل
2: حدیث
وحی ہے
3:
حدیث قرآن مجید کی تشریح ہے
1:
حجیت حدیث کے عمومی دلائل:
قرآن مجید اور حدیث نبوی ﷺ آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ جہاں قرآن مجید اللہ تعالی
کا کلام اور اسلامی تعلیمات کا منبع و مرجع ہے وہاں حدیث نبوی ﷺ ان اسلامی تعلیما
ت اوراحکام کی تو ضیح و تشریح ہے۔ حدیث نبوی ﷺ کے بغیر قرآن مجید کے احکام اور
تعلیمات کی وضاحت اور فہم و ادراک نا ممکن ہے۔ قرآن مجید اور حدیث نبوی کا تعلق
متن و شرح، اجمال و تفصیل اور کلمے کے دو
اجزا جیسا ہے۔ قرآن مجید کی دو حیثیتیں ہیں ، ایک علمی اور دوسری عملی ۔ علمی
پہلو کے اعتبار سے کوئی بھی معلم قرآن
مجید کی تعلیمات دوسرے تک پہنچا سکتا ہے اور
کامل ادراک کی صورت میں دوسرے کو بہتر انداز میں تعلیم دے سکتا ہے۔ عملی پہلو کے
اعتبار سے ایک کامل ہادی و راہبر کی ضرورت ہوتی ہے جو قرآن مجید میں نازل ہونے
والے ہر حکم پر عمل کر کے لوگوں کے سامنے اس کا عملی نمونہ پیش کر سکے۔ قرآن مجید
کی ان دونوں حیثیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم حدیث نبوی ﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں تو
یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح ہم پر عیاں ہوتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس ہر دو پہلووں میں کامل و اکمل ہے۔ قرآن
مجید کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے اور ان کا عملی نمونہ پیش کرنے میں نبی کریم ﷺ
نے اس کا حق ادا کر دیا اور خود باری تعالی نے جنابِ رسالت ماب ﷺ کو مرکز و محور
قرار دیا ہے۔ تعلیمی پہلو کے حوالے سے سورہ بقرہ کی آیت یوں شہادت دیتی ہے: كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا
عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ
وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ (سورۃ البقرۃ:151)۔ اور عملی پہلو کے حوالے سے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ
حَسَنَةٌ (سورۃ الاحزاب:21)۔ مزید
برآں اگر دیکھا جائے تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید جو اللہ تعالی کا کلام
ہے ہم تک فقط جنابِ رسالت ماب ﷺ کی زبان اقدس کے ذریعے ہی پہنچا ہے ۔وہی زبان
مبارک جس سے نکلے ہوئے الفاظ کو ہم حدیث نبوی ﷺ کہتے ہیں۔
۱: اطاعت
ِ رسول ﷺ سے متعلقہ عمومی آیات:
اطاعتِ رسول ﷺ کے حوالے سے قرآن مجید میں
اللہ تعالی نے بہت سے مقامات پر ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ
کی اطاعت کرو۔ چنانچہ ذیل میں چند آیات درج کی جا رہی ہیں:
۱: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی
الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ (سورۃ النساء :59)
ترجمہ:
اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت
والے ہیں۔
۲: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ لَا
تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ (سورۃ محمد :33)
ترجمہ:
اے ایمان والو اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور اپنے عمل باطل نہ کرو
۳: قُلْ
اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ
یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورۃ اٰل عمرٰن:
31)
ترجمہ:
اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار
ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا
مہربان ہے۔
۴:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا
تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ (سورۃ الانفال:20)
ترجمہ:
اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور سن سنا کر اسے نہ پھرو
۵:
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ
وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ
تُرْحَمُوْنَ (سورۃ اٰل عمرٰن: 132)
ترجمہ:
اور اللہ و رسول کے فرمان بردار رہو اس اُمید پر کہ تم رحم کیے جاؤ۔
۲:
اطاعت رسول ﷺ کو مستقل دین کا حصہ قرار دینے سے متعلق آیات:
رسول
اللہ ﷺ کی اطاعت کو اللہ تعالی نے مستقل
دین کا حصہ قرار دیا ہے۔ دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت اطاعت رسول ﷺ ہی ہےاور
حقیقتاً اللہ تعالی کی اطاعت اور خوشنودی کا حصول رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہی سے
ممکن ہے۔ ذیل میں قرآن مجید سے چند ایک
آیات درج کی جا رہی ہیں۔
۱: مَنْ
یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ (سورۃ النساء:80)
ترجمہ:
جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا
۲: وَ
مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۚ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ
فَانْتَهُوْاۚ(سورۃ الحشر:7)
ترجمہ:
وررسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں تو تم باز
رہو۔
۳:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ
حَسَنَةٌ (سورۃ الاحزاب:21)
ترجمہ:
تحقیق تمہارے لیے رسول ﷺ کی زنددگی میں (عمل کے لیے) بہترین نمونہ ہے
۴: وَ
اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ (سورۃ اٰل عمرٰن: 158)
ترجمہ:
اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پالو۔
۵:
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ
بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ
یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(65) (سورۃ النساء:65)
ترجمہ:
تو اے حبیب! تمہارے رب کی قسم، یہ لوگ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں
تمہیں حاکم نہ بنالیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے کوئی رکاوٹ
نہ پائیں اوراچھی طرح دل سے مان لیں ۔
۶: وَ
مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ(سورۃ
النساء:65)
ترجمہ:
اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
۳: اطاعت
رسول ﷺ سے انحراف کے خطرناک نتائج سے متعلقہ آیات:
اللہ تعالی نے قرآن مجید انبیا ئے
کرام علیھم السلام کی بعثت کے مقاصد کا
ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ انبیائے کرام کو بھیجا ہی اس لیے جاتا ہے کہ لوگ ان
کی پیروی کریں۔ اللہ تعالی کی محبت اور خوشنودی انبیائے کرام علیھم السلام کی
اطاعت اور تباع میں مضمر ہے۔ اب قیامت تک نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں
آئے گا لہذا دنیا و آخرت میں کامیابی کی
واحد ضمانت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ جن لوگووں نے رسول اللہ ﷺ کی
اطاعت و فرمانبرداری سے منہ موڑا اور انحراف کیا قرآن مجید نے ان کے لیے سخت سے سخت وعید کا ذکر کیا ہے۔ ذیل میں قرآن مجید کی چند ایک آیات تحریر کی رہی
ہیں:
۱: فَلْیَحْذَرِ
الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ
یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (سورۃ النور:63)
ترجمہ:
تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے یا اُن پر
دردناک عذاب پڑے
۲: اِنَّ
الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ شَآقُّوا الرَّسُوْلَ
مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْهُدٰىۙ-لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰهَ
شَیْــٴًـاؕ-وَ سَیُحْبِطُ اَعْمَالَهُمْ (سورۃ محمد 32)
ترجمہ:
بےشک وہ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور رسول کی مخالفت کی بعد اس
کے کہ ہدایت اُن پر ظاہر ہوچکی تھی وہ ہرگز اللہ کو کچھ نقصان نہ پہچائیں گے اور
بہت جلد اللہ ان کا کیا دھرا اکارت کردے گا
۳: یَوْمَ
تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَاۤ اَطَعْنَا اللّٰهَ
وَ اَطَعْنَا الرَّسُوْلَا(سورۃ الاحزاب:66)
ترجمہ:
جس دن اُن کے منہ اُلٹ اُلٹ کر آ گ میں تلے جائیں کہتے ہوں گے ہائے کسی طرح ہم نے
اللہ کا حکم مانا ہوتا اور رسول کا حکم مانا ہوتا۔
۴: وَ
یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ
الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا(27)
ترجمہ:
اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا ئے گا، کہے گا : اے کاش کہ میں نے رسول کے ساتھ
راستہ اختیار کیا ہوتا۔
۴:
اطاعت رسول ﷺ سے متعلق احادیث مبارکہ:
۱: کُلُّ
أُمَّتِی یَدْخُلُونَ الجَنَّۃَ إِلَّا مَنْ أَبَی، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ
صلی اللہ علیہ وسلم ، وَمَنْ یَأْبَی؟ قَالَ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ أَطَاعَنِی
دَخَلَ الجَنَّۃَ ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ أَبَی [بخاری رقم 7280]۔
ترجمہ:
''ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا'' صحابہ نے عرض کیا یا
رسول اللہ! انکار کون کرے گا؟ فرمایا کہ: '' جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل
ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا''۔
۲: فَمَنْ
رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ( صحیح بخاری: 5063)
تین
حضرات ( علی بن ابی طالب ، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی اللہ
عنہم ) نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے
آئے ، جب انہیں حضور اکرم ﷺ کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور
کہا کہ ہمارا آنحضرت ﷺ سے کیا مقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی
گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا ۔
دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا ۔ تیسرے
نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا ۔ پھر
آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو !
اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں
تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔
نماز بھی پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں
۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔
۳: عَنِ
الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ
وَمِثْلَهُ مَعَهُ،ابوداود:4604)
ترجمہ:
حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ خبردار ! مجھے قرآن کے ساتھ اس جیسی ایک اور
چیز بھی دی گئی ہے ۔
۴: عَنْ
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ شَيْئَيْنِ لَنْ
تَضِلُّوا بَعْدَهُمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّتِي، وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى
يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ (مستدرک للحاکم:319)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ( اگر اس
پر عمل پیرا رہو گے ) تو کبھی گمراہ نہ ہو گے ( 1 ) کتاب اللہ ( 2 ) میری سنت ۔
اور یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ۔
۵:
آثارِ صحابہ کرام:
رسول
اللہ ﷺ کے اولین تربیت یافتہ صحابہ کرام تھے جو بلاواسطہ رسول اللہ ﷺ سے تعلیم و
تربیت حاصل کرتے ۔ قرآن مجید کے علوم ، معاملات میں اللہ تعالی کی رضا مندی اور
شرعی احکام نبی کریم ﷺ سے سیکھتے اور اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔ جب بھی کسی معاملے
میں مشکل درپیش ہوتی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نبی کریم ﷺ سے اصلاح کرواتے۔صحابہ کرام
رضی اللہ تعالی عنھم قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین میں کوئی فرق روا نہیں
رکھتےتھے ۔ نبی کریم ﷺ کے فرمان پر ایسے ہی اتباع کرتے تھے جیسے کسی قرآنی حکم کی
اتباع کی جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے
بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم معاملات میں لوگوں کی راہ نمائی کرتے اور کبھی
ایسا ہوتا کہ صحابہ کرام کسی ایک معاملے میں
اپنی رائے سے کوئی فتوی دیتے اور نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارک یا سنت کی تصدیق
بعد میں ہوتی تو فوراً اپنی رائے کو ترک کر کے سنت نبوی کی اتباع کرتے۔ ذیل میں
چند ایک واقعات درج کیے جا رہے ہیں:
۱: حضرت
علقمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدل اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بال گوندھنے
والی، چہرے کے بال اکھاڑنے والی ، دانتوں میں خوبصورتی کے لیے کشادگی کرنے والی
اور اللہ تعالی کی خلقت میں تبدیلی کرنے والی پر لعنت کی تو اس پر ا م یعقوب نے کہا کہ آپ نے لعنت کیوں
کی تو آپ رضی اللہ تعالی ن فرمایا کہ میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ
تعالی کے رسول نے لعنت کی ہو اور وہ جو کتاب اللہ کے مطابق ہو۔ اس پر اس عورت نے
کہا کہ میں نے قرآن مجید پڑھا ہے لیکن مجھے ایسا حکم نہیں ملا تو حضرت عبد اللہ
بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں خدا کی قسم! اگر تو نے قرآن مجید پڑھا ہوتا
تو تجھے یہ پڑھنے کو ملتا ، پھر آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۚ-وَ مَا
نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ(سورۃ الحشر:7)
ترجمہ:
وررسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں تو تم باز
رہو۔ (صحیح بخاری:5939)
اس واقعہ سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس
طرح صحابہ کرام نبی کریم کی بات کو اہمیت دیتے تھے ، نبی کریم کے عطا کرنے کو اللہ
تعالی کی عطا اور رسول ﷺ کے منع کرنے کو اللہ تعالی کا منع کرنا سمجھتے تھے۔
۲:
دادی کی وراثت کے معاملے
میں ایک بوڑی عورت اپنے پوتے سے وراثت میں دعوی کرتے ہوئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی کے پاس آئی
آپ رضی اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں کتاب اللہ میں دادی کی وراثت کو نہیں پاتا ۔حضرت
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دادی کو چھٹا حصہ
وراثت میں سے دیا ہے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فوراً حدیث مبارک
کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا۔(سنن ابن ماجہ:2724)
۳:
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے تھی کہ شوہر کی دیت میں سے بیوی کو وراثت نہیں ملنی چاہیے مگر ضحاک
بن سفیان رضی اللہ تعالی نے جب رسول اللہ ﷺ کا واقعہ بیان کیا کہ آپ ﷺنے اشیم
ضبابی کی بیوی کو دیت میں سے وراثت دی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی
رائے سے فوراً رجوع کر لیا۔(سنن ابن ماجہ: 2642)۔
۴: حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما کا موقف تھا کہ جس عورت کا شوہر فوت ہو جائےا ور وہ حاملہ بھی ہو تو وہ طویل مدت والی عدت پوری کرے گی مگر حضرت سبیعہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنھا نے وضاحت کی مہ میں اپنے شوہر کی وفات کے وقت حاملہ تھی رسول اللہ ﷺ نے میری عدت وضع حمل کو قرار دیا تھا ، اس پر حضرت علی اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔(سنن النسائی: 3539)
ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب
سبجیکٹ: علوم الحدیث
کلاس PHD سیشن 2023 ایجوکیشن یونیورسٹی لوئر مال کیمپس لاہور
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You