کیا واقعی بارہ ربیع
الاول یومِ وصال ثابت ہے ؟؟
صحیح
بخاری کی 2 مستند حدیث سے اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ، پوری امت مسلمہ کے علماء اکرام اور تاریخ دان اس بات پر متفق
ہے کہ رسول اللہ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے
کے دسویں سال یعنی 10
ہجری میں اپنے آخری حج کے دوران 9
ذالحجہ کو عرفات کے میدان میں جمعہ کے دن اپنا آخری مشہور خطبہ ارشاد فرمایا، جسے
خطبہ الودع کہا جاتا ہے ، اور اسی دوران ہی دین میں تکمیل والی آیت مبارکہ نازل
ہوئی ، پھر اسی آخری حجِ اکبر کے فوراً بعد
اگلے سال یعنی 11
ہجری میں ربیع الاول میں کسی ایسی تاریخ کو جب سوموار(پیر) کا دن تھا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا ۔ عام فہم انسان بھی بنا بحث و تکرار یہ بات ضرور
تسلیم کرے گا کہ سوموار کا دن 11,12
ربیع الاول یومِ وصال قطعاً ثابت نہیں
ہے۔
آئیے
سب سے پہلے صحیح بخاری شریف کی دو حدیث کی روشنی
میں ان تاریخی حقائق کو ملاحظہ فرمائیں۔
نمبر1: 9 ذالحجہ یعنی عرفہ 10 ہجری کو جمعہ کا
دن تھا ۔
نمبر2 : 11ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال سوموار
(پیر)کے دن ہوا تھا ۔
نوٹ
: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا 10 ہجری میں آخری حج فرمانےاور 11 ہجری سوموار (پیر)کے دن
وصال ہونے پر کوئی اختلاف نہیں ۔
نمبر
1 :: ایک یہودی ( کعب احبار
اسلام لانے سے پہلے ) نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیرالمؤمنین! اگر ہمارے یہاں
سورۃ المائدہ کی یہ آیت نازل ہوتی « اَلْیَوْمَ
اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ
لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ » کہ ”آج میں نے تمہارے
لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لیے
اسلام کو بطور دین کے پسند کر لیا۔“ تو ہم اس دن کو عید ( خوشی ) کا دن بنا لیتے۔
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی، عرفہ کے
دن نازل ہوئی اور جمعہ کا دن تھا ۔ (صحیح بخاری :7368)
اس
حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 10 ہجری کو جو حج کیا تھا
تو وہ 9
ذلحجہ بروز جمعہ تھا ۔
نمبر2 : حضرت
انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی.... آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
پیروی کرنے والے، آپ کے خادم اور صحابی تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض
الموت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے تھے۔ پیر کے دن جب لوگ نماز میں
صف باندھے کھڑے ہوئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ کا پردہ ہٹائے کھڑے
ہوئے، ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ( حسن و جمال
اور صفائی میں ) گویا مصحف کا ورق تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا کر ہنسنے لگے۔
ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ خطرہ ہو گیا کہ کہیں ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے
ہی میں نہ مشغول ہو جائیں اور نماز توڑ دیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے
ہٹ کر صف کے ساتھ آ ملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اشارہ کیا
کہ نماز پوری کر لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ڈال دیا۔ پس نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی وفات اسی دن ہو گئی۔ ( «اناللہ و انا الیہ راجعون» ) متفق علیہ
، (صحیح بخاری :680) (صحیح
مسلم :944)
اس
حدیث کی روشنی میں سوموار(پیر) کا دن
ثابت ہو جاتا ہے۔
اب
9ذالحجہ
10
ہجری بروز جمعہ سے لیکر 11
ہجری بارہ ربیع الاول تک تقریباً کُل چار ماہ شامل ہوتے ہیں ، چاروں مہینوں کا
نقوش :
مزید یہ کے چاند کا یعنی قمری مہینہ یا تو 30 دن کا ہوتا ہے یا 29 دن کا ، یعنی کل چار(4)
ممکنات بنتی ہیں ۔
نمبر1: اگر
ذالحجہ 30
دن محرم 30
دن صفر 30
دن کا ہوتو 10
ہجری جمعہ 9 ذالحجہ سے لیکر 12 ربیع الاول اتوار کا دن بنتا ہے۔
نمبر2: اسی
طرح آپ ان ماہ کو 29/29/29 کا کرے تو جمعرات کو 12 ربیع الاول بنتا ہے ۔
نمبر3: یا
پھر 30/29/30 کا کر لیں تو 12 ربیع الاول جمعہ کا دن
بنتا ہے ۔
نمبر4: یا
پھر 29/29/30
کا کر لیں تو 12
ربیع الاول ہفتہ کا دن بنتا ہے
10
ہجری بروز جمعہ 9 ذالحجہ سے لیکر 12 ربیع
الاول کو سوموار کا دن قطعاً ثابت نہیں
ہوتا تو پھر بارہ وفات کیسے ثابت ہو گئی؟