حدیث وحیِ الہی ہے
لغوی
معنی ہے خفیہ اشارہ ۔اصطلاح میں اللہ تعالی کا کسی نبی کو شرعی حکم کی اطلاع دینا اعلام اللہ تعالی الی نبیہ من الانبیاء
وحی کی دو قسمیں ہیں ۱:وحی متلو ۲: وحی غیر متلو
۱: وہی متلو سے مراد قران مجید ہے ۲:وحی غیر متلو سے مراد حدیث مبارکہ ہے ۔
وحی متلو اور وحی غیر
متلو میں فرق
وحی
متلو الفاظ و معنی اللہ تعالی کی طرف سے ہیں اور وحی غیر متلو معنی اللہ تعالی کی
طرف سے ہیں لیکن الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے ہوتے ہیں۔
حدیث وحی کے ہونے سے
متعلق چند قرآنی دلائل:
نبی کریم ﷺ کی گفت گو اور
احادیث مبارکہ بھی اللہ تعالی کی طرف سے
وحی ہوتے تھے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
وَ
مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى (سورۃ النجم :4،3)
یعنی آپ اپنی خواہش سے کچھ بھی نہیں بولتے جو بھی آپ
کی زبان سے نکلتا ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہوتا ہے۔ایک اور مقام پر قرآن
مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ
یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ
رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ(سورۃ
الشوریٰ:51)
اس آیہ مبارکہ میں وحی
کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں : خفیہ اشارہ ، پردہ کے پیچھے سے ، کوئی فرشتہ بھیج
کر ۔نبی کریم ﷺ پر ان تینوں طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی لیکن قران مجید صرف جبرائیل
امین کے ذریعے ہی نازل ہوا ہے باقی دو طریقے جو ہیں وہ کون سے ہیں وہ حدیث ہی ہے
قران پاک کی آیت کہ جس میں واضح ذکر ہے کہ یہ جبرائیل کے ذریعے نازل کیا گیا ہے
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ
رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ(سورۃ
الشعراء:192-193)
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ
تَعَالَوْا اِلٰى مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَى الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ
الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا(سورۃ
النسا ء:61)
قرآن مجید کی ترتیب
نزولی و توقیفی:
قران پاک کی موجودہ مرتب آیات سے یہ ظاہر ہے کہ اللہ جل شانہ نے قران پاک حضور
نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام پرجس ترتیب سے نازل فرمایاہے یہ وہ ترتیب نہیں ہے۔ یہ ترتیب کس نے کیسے لگوائی؟ جب قرآن
مجید نازل ہوتا ، کوئی سورت یا کوئی آیات نازل ہوتیں نبی کریم ﷺ کاتب کو فرماتے
اس کو کہاں ، کس آیت کے بعد اور کس آیت سے پہلے لکھنا ہے ہی مکمل ہدایات نبی
کریم ﷺ دیتے اب کیا یہ ہدایات آپ ﷺ کی طرف سے ہوتی تھیں یا اللہ تعالی کی طرف سے
ہوتی تھیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے
ارشاد فرمایا:
قُلْ
مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْٓ-اِنْ اَتَّبِـعُ
اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّۚ(سورۃ یونس:15)
آپ
فرماؤ: مجھے حق نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے تبدیل کردوں ۔ میں تو اسی کا تابع ہوں
جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے ۔
اس کا مطلب ہے جو آج ترتیب
ہے یہ بھی اللہ ہی کی طرف سے وحی کی گئی ترتیب ہے اب یہ جو اللہ کی طرف سے ہدایت کی گئی
ترتیب ہے یہ قران مجید میں مذکور نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قران پاک
کے علاوہ بھی حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام پر وحی نازل ہوتی تھی تو وہ وحی کی
صورت، احادیث مبارکہ ہی ہیں۔ترتیب توقیفی کا حکم اس آیت کی روشنی
میں واضح ہے آیت کو لکھنے کا مقام اور تلاوت کا مقام یہ وہی غیرمتلو کی صورت
میں ہے
مسجد حرام سے پہلے بیت
المقدس کو قبلہ قراردینا:
جب
مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو کچھ عرصہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے
نماز پڑھتے رہے ، نبی کریم ﷺ کی بہت خواہش تھی کہ قبلہ مسجد حرام کو ٹھہرایا جائے
۔ آپ اکثر اس غرض سے آسمان کی طرف منہ کیا کرتے تھے تو جب قبلہ کو بدلنے کا حکم
آیاتو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا بیت المقدس کو قبلہ بنانے کی وجہ یہ تھی کہ
لوگوں کو آزمایا جائے کہ کون آپ کی پیروی کرتا ہے اور کون روگردانی کرتا ہے۔ قرآن
مجید میں ارشاد باری تعالی ہے: وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ
الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـعُ الرَّسُوْلَ
مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِؕ (سورۃ البقرۃ: 143) اس آیہ مبارکہ میں قبلہ اول کی
تقرری کا ذکر ہے کہ یہ بنایا گیا تھا ، یہ قبلہ مقرر کرنے کا حکم قرآن مجید میں
مزکور نہیں کہ کب اور کن الفاظ میں مقرر کیا گیا تھا تو یہ حکم غیر
متلو یعنی قرآن مجید کے علاوہ اللہ تعالی کی طرف وحی فرمایا تھا۔
نماز کا طریقہ اور قرآن
مجید میں اس کا اشارہ:
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے صلوۃ الخوف کے بارے میں احکام
بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب خوف نہ ہو یعنی امن کی صورت ہو تو ایسے نماز
پڑھو جیسے تمہیں سکھائی گئی ہے ۔ اب یہ الفاظ کہ سکھائی گئی ہے تو یہ سکھانا قرآن
مجید میں مذکور نہیں ہے اس کا واضح اشارہ نبی کریم ﷺ کی احادیث اور وحی غیر متلو
کی طرف ہے۔ آیہ مبارکہ یوں ہے:
فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا
اَوْ رُكْبَانًاۚ-فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَّا
لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ (سورۃ
البقرۃ:239)
نبی کریم ﷺ کا پنی زوجہ
سے بات کرنا:
ایک مرتبہ نبی کریم نے اپنی زوجہ سے راز کی بات کی انہوں نے دوسری زوجہ سے اس کا اظہار کر دیا ،
نبی کریم ﷺ جب ان سے یہ بات کی تو انہوں نے عرض کیا آپ کو کس نے بتایا تو آپ ﷺ
نے فرمایا مجھے علیم و خبیر اللہ تعالی نے
بتایا ہے۔ اب یہ بات نبی کریم ﷺ کوجو اللہ تعالی نے بتائی ہے یہ قرٓٓن مجید میں
مذکور نہیں یعنی یہ بھی وحی غیر متلو حدیث
مبارکہ ہی ہے۔ فَلَمَّا نَبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ
اَنْۢبَاَكَ هٰذَاؕ-قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ
(سورۃ التحریم:3)
بنو نضیر کے درخت کاٹنے
کا معاملہ:
بنو نضیر کے قلعوں جب نبی کریم ﷺﷺ نے محاصرہ کیا اور ان کے
درخت کاٹنے کا حکم دیا گیا تو یہودیوں نے کہا کہ کیا یہ تمہاری کتاب میں لکھا ہے
تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ سب اللہ کی اجازت سے ہو رہا ہے۔ ارشادفرمایا:
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآىٕمَةً عَلٰۤى
اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ(سورۃ
الحشر:5) اس آیہ مبارکہ میں اللہ تعالی کی اجازت کا ذکر ہے۔ اب یہ اجزت کب نبی
کریم کو دی گئی اس کا ذکر قرآن مجید نہیں ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ
پر قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی نازل ہوتی تھی، وہ وحی ، وحی غیر متلو اور حدیث مبارکہ ہی ہے۔
لفظ وحی پر مشتمل احادیث:
نبی
کریم ﷺ نکی احادیث مبارکہ اس بات پر شاہد ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ یہ بات مجھ پر
وحی کی گئی ہے، جبکہ وہ بات قرآن مجید میں مذکور نہیں اس کا مطلب ہے کہ قرآن
مجید کے علاوہ بھی نبی کریم ﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی اور وہ حدیث مبارکہ ہی ہے۔ نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ
اللَّهَ أَوْحَى إِلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوا حَتَّى لَا يَبْغِيَ أَحَدٌ عَلَى
أَحَدٍ وَلَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ (سنن
ابو داود:4895) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے مجھ کو وحی کی ہے کہ تم لوگ تواضع
اختیار کرو یہاں تک کہ تم میں سے کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر
فخر کرے۔
جبریل کے ذکر پر مشتمل
احادیث:
جبریل
امین قرآن مجید کے علاوہ بھی نبی کریم ﷺ پر نازل ہوتے تھےا وراللہ تعالی کاپیغام
لے کر آتے تھے ۔ اس کا مطلب ہے جبریل کا آنا بنا قرآن مجید کے اور آنا بھی
اللہ تعالی کے حکم سے اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ قرآن مجید کے علاوہ بھی
اللہ تعالی کی طرف سے احکام آتے تھے اور وہ یقینا حدیث کی ہی شکل میں ہمارے پاس
موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا زَالَ جِبْرِيلُ
يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ.(صحیح
بخاری:6015) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جبرائیل (علیہ
السلام) مجھے اس طرح باربار پڑوسی کے حق میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ
شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک نہ کردیں۔
دوسری حدیث مبارکہ:
نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کو نماز پڑھا رہے تھے کہ نماز کے دوران ہی آپ ﷺ نے جوتے
اتار پر بائیں جانب رکھ لیے صحابہ کرام نے دیکھا تو آپﷺ کی اتباع میں انہوں نے
بھی جوتے اتار لیے نماز سے فارغ ہو کر آُ ﷺ نے
پوچھا تم نے کیوں اتارے ؟صحابہ کرام نے عرض کیا ہم آپﷺ کو دیکھا تو ہم نے
بھی اتار دیے اس پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: فَقَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ
السلام أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيهِمَا قَذَرًا
مجھے جبریل نے بتایا تھا کہ آپ ﷺ کے جوتوں میں نجاست
لگی ہے۔(سنن ابی داود:650)
لفظ امرت پر مشتمل احادیث:
نبی کریم نے ارشاد فرمایا: قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ
النَّاسَ حَتَّی يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
۔۔۔۔۔۔الخ
(صحیح مسلم:129) اس حدیث مبارکہ میں آپ نے ارشاد
فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے حکم دیا ہے اب یہ حکم قرآن
مجید میں مذکور نہیں ہے جبکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے حکم دی اگیا ہے اس کا
مطلب ہے اللہ تعالی نے حکم دیا لیکن وہ قرآن مجید نہیں ہے۔ تو قرآن مجید کے علاوہ
بھی وحی کا نزول ہوتا تھا۔
حسان بن عطیہ کا
قول:
حضرت حسان بن عطیہ تابعی فرماتے ہیں کان جبریل ینزل علی النبی بالسنہ کما ینزل علیہ بالقرآن (سنن دارمی) جبریل نبی کریم ﷺ پر سنۃ یعنی حدیث مبارکہ لے کر نازل ہوتے جیسے قرآں مجید لے کر نازل ہوتے تھے۔ یعنی نبی کریم ﷺ کی سنت اور حدیظ بھی اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ ہے۔
ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب
سبجیکٹ: علوم الحدیث
کلاس PHD سیشن 2023 ایجوکیشن یونیورسٹی لوئر مال کیمپس لاہور
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You