حفاظت حدیث بذریعہ حفظ
قران
مجید اللہ تعالی کی آخری
کتاب ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے خود اپنے ذمہ کرم پر لیا ہے ارشاد
فرمایا: اِنَّا
نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (سورۃ
الحجر: 9)قران پاک کی تشریح چونکہ حدیث پاک ہے تو جس طرح اللہ تعالی نے قران پاک کی
حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے اسی طرح اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کی احادیث مبارکہ کی حفاظت کا ذمہ بھی خود
لیا ہوا ہے۔ قران مجید حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل
ہوا اور حضور ﷺ کی ہی زبان سے لوگوں کو معلوم ہوا ہے تو گویا قران پاک بھی حضور کی
زبان سے ظاہر ہوا اور احادیث مبارکہ بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان
سے ظاہر ہوئے ہیں۔
الفاظ
قران مجید کے ساتھ ساتھ بیان قران کی حفاظت کا ذریعہ بھی اللہ تعالی نے لیا ہے ارشاد
باری تعالی ہے: لَا تُحَرِّكْ بِهٖ
لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ۔ اِنَّ
عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ۔فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِـعْ قُرْاٰنَهٗ ۔ ثُمَّ
اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ (سورۃ القیامۃ: 16تا 20)
حفاظت حدیث بذریعہ حفظ
قوت حافظہ انسان کے اندر فطری طور پر موجود ہے اس لیے دنیا میں
ہر چیز کوپہلے یاد کیا جاتا ہے پھر لکھنا سیکھا جاتا ہے بعد میں کتابت کی ضرورت
اور درجہ آتا ہے۔مقولہ مشہور ہے : العلم فی الصدور لا فی
الکتب۔ حدیث نبوی کی حفاظت کا اولین ذریعہ حفظ ہی
تھا ، نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کو تعلیم دیتے ، اور جو بھی ارشاد فرماتے صحابہ کرام
اس کو یاد کر لیتے۔ذیل میں حفاظت حدیث بذریعہ حفظ کے چند ایک عوامل تحریر کیے جاتے
ہیں۔
قوت حافظہ اور عادات عرب
اہل عرب بے پناہ قوت حافظہ کے مالک تھے یہی وجہ
ہے کہ ان کو اشعار ،قصیدے ،خطبے، ضرب الامثال ،قصص اور علم الانصاب وغیرہ یاد ہوتے
تھے بلکہ باتوں کو یاد رکھنا ان کی عادات
میں شامل تھا۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ جانوروں کے نصب نامے بھی یاد ہوتے تھے ۔اہل عرب
کو اپنے حافظے پر بہت ناز اور فخر تھا اس لیے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کی احادیث مبارکہ کا علم ہوا تو انہوں نے اس کو بھی حفظ شروع کر دیا۔
لکھنا پڑھنا اور عرب
معاشرہ :
عرب
معاشرے میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا حتی کہ بعض روایات کے مطابق بعثتِ نبوی
کے وقت صرف 16 یا 17 آدمی لکھنا پڑھنا جانتے تھے لکھنے پڑھنے کو عرب لوگ حقارت کی
نظر سے دیکھتے تھے یعنی ہر چیز یاد ہونی چاہیے۔اہل عرب اپنے لیے توہین سمجھتے تھے کہ کسی بات کو لکھ کر پڑھا
جائے یا لکھ کر اس کو یاد کیا جائے۔ اسی لیے انہوں نے احادیث
نبویہ کو سنتے ہی حفظ کرنے کی کوشش کی۔
حفظ حدیث اور نبی کریم صلی
اللہ علیہ والہ وسلم کی ترغیبات:
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حدیث
مبارکہ یاد کرنے کی خود صحابہ کرام کو ترغیب دلائی تھی۔ احادیث مبارکہ میں اس طرح
کے الفاظ ملتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نَضَّرَ
اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ )جامع
ترمذی: 2657) اللہ اس شخص کو تروتازہ (اور خوش) رکھے جس
نے مجھ سے کوئی بات سنی پھر اس نے اسے جیسا کچھ مجھ سے سنا تھا ہوبہو دوسروں تک
پہنچا دیا۔ دوسری حدیث پاک میں ہے
کہ اللہ تعالی ایسے شخص پر رحم کرے جس نے مجھ سے سنا یاد کیا اور اس کو اگے پہنچایا۔
اسی طرح وفد عبدالقیس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چند احادیث
چند احکامات دیے اور ارشاد فرمایا اس کو یاد کر لو اور جو تمہارے پیچھے بیٹھے ہوئے
ہیں ان کو جا کے یہ بتا دو اور ان کوؤ اس کی خبر دو۔
حفظ حدیث اور صحابہ کرام:
۱: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں جب
ہم اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس ہوتے اور آپ سے حدیث سنتے تو آپس میں اس
کا مذاکرہ کرتے حتی کہ اس کو یاد کر لیتے۔ خطیب بغدادی ۲: حضرت علی نے فرمایا اس
حدیث کا مذاکرہ کیا کرو اگر اس کو یاد نہ کیا تو مٹ سکتی ہے۔۳: حضرت عباس حضرت ابن
عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جب تم مجھ سے کوئی حدیث سنو تو اس کو اپس میں
مذاکراہ کیا کرو۔ صحابہ کرام کو بہت شوق تھا یاد کرنے کا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور کے پاس بیٹھا رہتا تھا اور احادیث سنتا رہتا تھا
مہاجر صحابہ تجارت کرتے انصار کھیتی باڑی
کرتے اور میں مجھے کوئی کام نہ ہوتا تھا لہذا میں حضور کے پاس بیٹھا رہتا تھا اور
جو آپ احادیث بیان کرتے ہیں میں ان کو یاد کر لیتا تھا۔
حفظ حدیث اور آئمہ حدیث:
1:حدیث
کو جب آگے بیان کریں گے تو آپ کو بھی یاد ہو جائے گی۔۔ جو چاہتا ہے جس کو حدیث
حفظ ہو وہ اس کو آگے بیان کرے۔یعنی حدیث بیان کرتے رہیں ، خواہ کوئی سنے یا نہ
سنے۔ 2: اسماعیل بن رجاء بچوں کو جمع کرتے تھے اور اور ان کو حدیث بیان کرتے
تھے تاکہ آپ کو حدیث نہ بھولے۔ 3:محدثین
کا معمول تھا کہ ان کے حافظے کا امتحان لیا جاتا تھا۔جیسے امام بخاری کا مشہور
واقعہ ہے کہ لوگوں نے حدیث کی سند اور متن کو تبدیل کر دیا تو آپ نے سب کو ان کے
سند اور متن کے ساتھ بیان کیا۔
حفظ
حدیث اور ایک اعتراض: حدیث
کا سارا سلسلہ زبانی تھا اس لیے یہ قابل اعتماد نہیں ۔ اگر یہ حجت ہوتی تو اسے
لکھوایا کیوں نہ گیا۔ جواب: پہلا جواب : قرآن مجید کو اس لیے لکھوایا
گیا تھا کہ اس کے الفاظ اور آیات و سورتوں کی ترتیب سب کچھ اللہ کی طرف سے تھا
اور الفاظ میں تبدیلی بھی ناجائز تھی جس کا قصد یہ تھا کہ لوگ اسی ترتیب سے اس کی
تلاوت کریں۔ 1:جبکہ حدیث کی نوعیت اس سے مختلف تھی الفاظ بذریعہ وحی نہیں آئے
بلکہ بزبان رسالت ماب بیان ہوئے۔ 2: ایک بڑا حصہ حدیث کا تو صحابہ کی زبانی بیان
ہوا ہے۔یعنی صحابہ نے بیان کیا ہے کہ صحابہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم اس طرح
کرتے 3:حدیث مبارکہ میں روایات بالمعنی بھی جائز تھی۔وہ الفاظ ضروری نہیں
کہ وہی الفاظ بیان ہوں جو رسول اللہ نے فرمائے بلکہ وہ بعض دفعہ ان معانی کے دوسرے
الفاظ بھی استعمال ہو سکتے تھے۔ 4: اس کی تلاوت نہیں تھی صرف پیروی ضروری
تھی۔ ان وجوہات کی بنا پر لکھنا ضروری نہیں تھا ۔ دوسرا
جواب: کسی بات کے حجت ہونے کے لیے اس کا لکھا
ہوا ہونا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ قائل کا قابل اعتماد ہونا ضروری ہے۔ قرآن مجید کو
اللہ تعالی نے زبان رسالت سے ہی لوگوں تک پہنچایا ہے۔ اس کی تبلیغ بھی زبانی ہے۔
جب آپ ﷺ لوگوں کو سناتے اور لکھنے کا کہتے تو رسول اللہ ﷺ کی زبان سے ہی ادا ہوئے
اور پھر لکھے گئے۔ آپ ﷺ قابل اعتماد تھے تو لوگ آپ کی بات مانتے۔ لکھی ہوئی چیز
بھی اس وقت تک قابل اعتماد نہیں ہوتی جب تک زندہ قابل اعتماد انسانوں کی گواہی سے اس کی تصدیق نہ ہو جائے۔
قرآن مجید جو ہمارے پاس ہے جب یہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کےزمانے میں جمع
ہوا تو اس وقت لوگوں کی گواہی سے ہی لکھا
گیا ہے۔ اگر حدیث حجت نہیں تو پھر قرآن مجید کیسے؟قرآن مجید لکھا گیا ہے۔ کیسے
پتہ چلا، اس کی ترتیب لگائی گئی، رسول ﷺ نے لکھوایا ، فلاں کو بلایا ، اس نے لکھا
،، تو یہ ساری باتیں حدیث رسول سے ہی معلوم ہوتی ہیں۔
ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب
سبجیکٹ: علوم الحدیث
کلاس PHD سیشن 2023 ایجوکیشن یونیورسٹی لوئر مال کیمپس لاہور
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You