اسلام اور عورت کا تصور:
اسلام نے جو عزت اور شرف عورت کو دیا
ہے اگر اس سے واقفیت اورآگاہی مکمل ہو تو ایسے سوال پیدا ہی نہیں ہوتے۔ مزید یہ
کہ جو عورت اسلامی نظام کی پابندی میں اپنے ناپسندیدہ مرد کے ساتھ دنیا میں گزارا
کر لے وہ اس طرح کی بات بھی نہیں کرتی اور نہ سوال کرتی ہے کیوں کہ اسلام ہی کی پیروی
کرتے ہوئے اس نے یہ دنیا گزاری ہے اور اسلام اس کو آخرت میں جو دے وہ اسی پر راضی
ہوتی ہے نا کہ اپنے ڈھنگوسلے چلاتی ہے۔ اسلام نے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی صورت
میں جو عورت کا تصور دیا ہے وہ مرد کے حقوق و فضائل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ دنیا میں
بھی عورت کو مردسے زیادہ فضیلت والالمقام ملا سوائے یہ کہ مرد عورتوں پر حاکم
ہے اس کے بر عکس دیکھیں ماں باپ کی حیثیت میں زیادہ حقوق عورت کے، بیٹا اور بیٹی کی
حیثیت میں زیادہ حفاظت اور نگہداشت عورت کی، بہن اور بھائی کی حیثیت میں زیادہ اہمیت
عورت کی ، شوہر اور بیوی کی حیثیت میں زیادہ حیثیت کس کی عورت کی ۔۔۔ اب ہر ایک کی
تفصیل میں جائیں گے تو تحریر بہت طویل ہو جائے گی۔ مختصر یہ کہ عورت کے لیے بہت سی
فضیلتیں ہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ رہی بات جنت میں کیا ہو گا ؟؟؟؟
مر دکے ستر حوروں والے تصور کے مقابلے میں
اور مزید برآں شاپنگ مال وغیرہ کے جواباً ملاحظہ فرمائیں:
اسلام نے عورت کے لیے ایک مرد ہی کافی
جانا یعنی عورت ایک مرد کے ہوتے ہوئے دوسری شادی نہیں کر سکتی یعنی دو مردوں سے ایک
وقت میں شادی نہیں کر سکتی ، میڈیکلی عورت اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی قدرت نے
عورت کو بنایا ہی ایک مرد کے لیے ہے۔ اس کے مقابلے میں مرد ایک زیادہ شادیاں کر
سکتاہے میڈیکلی بھی اس بات سے اسے کوئی مسئلہ نہیں ہے یعنی یہ قدرت ہے، نیچر ہے،
فطرت ہے ۔ نر اور مادہ کے تصور کو سجھنا
چاہیے تمام مخلوقات اس بات کی شاہد ہیں۔جنت میں بھی عورت ایک ہی مرد کے تحت ہو گی
اس کے علاوہ کوئی دوسرا دروازہ نہیں ہے۔ رہی بات یہ کہ عورت کس کے نکاح میں ہو گئی
جنت میں ( بقول اینکر پرسن ) کہ اگر دنیا میں کسی نا کسی طرح گزارہ کر لیا تو جنت
میں بھی اسی کے ساتھ رہنا ہو گا ؟ اور
دوسرا سوال شاپنگ مال وغیرہ کا ہے کہ موج مستی ہے کے لیے کچھ ؟ ان کا جواب ذیل میں
جنت کے تصور میں دیا جا رہا ہے۔
جنت کا تصور:
اسلام نے جنت کا تصور انعام/جزا کےطور
پر پیش کیا ہے۔ یعنی جنت ،دنیا میں نیک اعمال کے بدلہ میںقیامت کے دن بطور انعام
ملے گی۔ اور جنت کی جو تصویر کشی قرآن مجید نے کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جنت میں
ہر سہولت موجود ہو گی اور ہر دلی خواہش بھی پوری ہو گی ، وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ
وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَﭤ(31)نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ(سورۃ
حم السجدۃ: 31،32)اور تمہارے لیے جنت میں ہر وہ چیز ہے جو تمہارا جی چاہے اور
تمہارے لئے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو۔ بخشنے والے، مہربان کی طرف سے
مہمانی ہے۔اور تمہارے لیے جنت میں ہر وہ چیز ہے جو تمہارا جی چاہے اور تمہارے لئے
اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو۔ بخشنے والے، مہربان کی طرف سے مہمانی ہے۔یُطَافُ
عَلَیْهِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَهَبٍ وَّ اَكْوَابٍۚ-وَ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْهِ
الْاَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْاَعْیُنُۚ-وَ اَنْتُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(71)وَ تِلْكَ
الْجَنَّةُ الَّتِیْۤ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(72)(سورۃ
الزخرف:71،72)ان پر سونے کی تھالیوں اور جاموں کے دَور ہوں گے اور جنت میں وہ تمام
چیزیں ہوں گی جن کی ان کے دل خواہش کریں گے اور جن سے آنکھوں کو لذت ملے گی اور
تم اس میں ہمیشہ رہوگے۔اور یہی وہ جنت ہے جس کا تمہارے اعمال کے صدقے تمہیں وارث
بنایا گیا ہے۔
کھانے پینے پھل میوہ جات، شراب طہور،
اوڑھنے پچھونے، لباس، بستر، تخت ، آپس میں مومنین کی بیٹھکیں، خوش گپیاں،رہنے کے
لیے گھر اور محلات ، غلاموں اور کنیزوں کی موجودگی؛ یہ تمام باتیں اور معاملات ایسے
ہیں کہ اللہ تعالی نے ان کی تفصیل بتائی ہے اور بار ہا قرآن مجید میں متعدد
مقامات پر ان کی صفات بیان کی ہیں۔ اس کے لیے( سورۃ الرحمن آیہ 46 تا 78، سورۃ
الواقعہ آیہ 12 تا 38،سورۃ الرعد آیہ33تا34 ، سورۃ یسین آیہ 55تا 58، سورۃ
الحج آیہ 23 )مکمل پڑھیں یہاں درج کرنے
سے تحریر ضخیم ہو جائے گی۔
شراب کے حوالے سے لوگ (miss
understanding) کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہی شراب ہے
جو دنیا میں ہے اور اسی پر اس شراب طہور کو قیاس کر لیے ہیں۔ جبکہ الہ تعالی نے
قرآن مجید میں سورۃ واقعہ میں بتایا ہے لَّا
یُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَ لَا یُنْزِفُوْنَ(سورۃ
الواقعہ:19)اس سے نہ انہیں سردرد ہو گااور نہ ان کے ہوش میں فرق آئے گا۔ اب سوچیں
کہاں دنیا کی شراب اور کہاں جنت کا مشروب جس کی یہ تعریف کی جارہی ہے؟۔دنیا کی
شرابِ نجس پر جنت کی شراب طہور کو قیاس کرنا اور حوالہ بھی دینا ناانصافی ، بے
وقوفی اور شراب طہور کی توہین ہے۔
جنت میں کیا کیا ہو گا
؟۔۔مرد کے لیے اور عورت کے لیے
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قرآن مجید
نے مرد کے لیےحوروں کا وعدہ کیا ہے اور اس کے مقابلے میں عورت کے لیے ایسا نہیں،
تو یہ مزاج اسلام کا ہے کہ وہ عورت کو ایک ہی مرد کے ماتحت دیکھنا چاہتا ہے جنت میں
بھی یقیناً عورت اپنے خاوند کے ساتھ ہی ہو گی۔ دنیا میں رہتے ہوئے اگر اس نے با
مشکل گزارا کیا ہو گا تو یہ بھی یاد رکھیں دونوں جنت میں پہنچ گئے ۔صاف ظاہر ہے کہ
ان کے اعمال اچھے ہوں گے دونوں نے ایک دوسرے کو معاف بھی کر دیا ہے تبھی تو جنت میں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جنت میں
ناپسندیدگیاں ، ناراضگیاں، لڑائی جھگڑے، غلط فہمیاں، اکتاہٹ وغیرہ ایسا کچھ نہیں
ہو گا کیوں کہ یہ سب دنیا کے معاملات ہیں شیطان کے پھیلائے ہوئے جال ہیں جو وہ میاں
بیوی کو لڑانے اور جدا کرنے کے لیے بنتا رہتا ہے۔ جنت میں سکون راحت محبتیں ہوں گی۔
تو جب جنت میں میاں بیوی جائیں گے تو ان کے درمیاں محبت ہی محبت ہو گی اور کوئی
لڑائی جھگڑا نہیں ہوگا ۔ مزید یہ کہ قرآن مجید میں جتنی آسائشیں اور سہولتیں جنتیوں
کے لیے بیان ہوئی ہیں اس میں کوئی مرد و
عورت کی تخصیص نہیں ،سب کو سب کچھ ملے گا سوائے یہ حوروں والے معاملے کے۔(متعدد
نکاح والی عورت کس کے ساتھ ہو گی یا کنواری عورت کس کے ساتھ ہو گی، یہ تفصیلات یہاں
ضخامت کے بوجھ کی وجہ سے نہیں تحریر کی جارہیں)
شاپنگ مال اور عورتوں کی
دلچسپیوں کا سامان کیا ہو گا ؟؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا کی ہر
خواہش کے حوالے سے ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہ بھی جنت میں ہو یہ بھی جنت میں ،
علی ھذا القیاس۔۔۔ کیوں کہ دنیا میں ہزاروں خواہشیں ایسی ہیں جو شیطان کی طرف سے
ہوتی ہیں مثلاً فضول خرچی بھی تو شیطان کا ایک جال ہے اسی طرح بہت سی خواہشات ہوتی
ہیں، تو یاد رہے ایسی خواہشات جنت میں نہیں ہوں گی کیوں کہ شیطان نہیں ہو گا ۔ اس
کے علاوہ جتنی فطرتی خواہشات ہوں گی اس کا قیاس کیا جا سکتا ہے۔کیوں کہ اللہ تعالی
نے وعدہ کیا ہے اس حوالے سے اوپر آیہ مقدسہ بیان ہو چکی ہے۔یہاں
احادیث مبارکہ ملاحظہ
فرمائیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ،
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَوْمًا يُحَدِّثُ وَعِنْدَهُ رَجُلٌ
مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ اسْتَأْذَنَ
رَبَّهُ فِي الزَّرْعِ ، فَقَالَ لَهُ : أَوَلَسْتَ فِيمَا شِئْتَ ؟ ، قَالَ :
بَلَى ، وَلَكِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَزْرَعَ ، فَأَسْرَعَ وَبَذَرَ ،
فَتَبَادَرَ الطَّرْفَ نَبَاتُهُ وَاسْتِوَاؤُهُ وَاسْتِحْصَادُهُ وَتَكْوِيرُهُ
أَمْثَالَ الْجِبَالِ ، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى : دُونَكَ يَا ابْنَ آدَمَ ،
فَإِنَّهُ لَا يُشْبِعُكَ شَيْءٌ ، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ : يَا رَسُولَ
اللَّهِ ، لَا تَجِدُ هَذَا إِلَّا قُرَشِيًّا أَوْ أَنْصَارِيًّا ، فَإِنَّهُمْ
أَصْحَابُ زَرْعٍ ، فَأَمَّا نَحْنُ فَلَسْنَا بِأَصْحَابِ زَرْعٍ ، فَضَحِكَ
رَسُولُ اللَّهِ
. رسول کریم ﷺ ایک دن گفتگو کر رہے تھے ، اس وقت آپ کے پاس ایک بدوی بھی
تھا کہ اہل جنت میں سے ایک شخص نے اللہ تعالیٰ سے کھیتی کی اجازت چاہی تو اللہ
تعالیٰ نے کہا کہ کیا وہ سب کچھ تمہارے پاس نہیں ہے جو تم چاہتے ہو ؟ وہ کہے گا کہ
ضرور ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ کھیتی کروں ۔ چنانچہ بہت جلدی وہ بیج ڈالے گا اور
پلک جھپکنے تک اس کا اگنا ، برابر ، کٹنا اور پہاڑوں کی طرح غلے کے انبار لگ جانا
ہو جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ کہے گا : ابن آدم ! اسے لے لے ، تیرے پیٹ کو کوئی چیز
نہیں بھر سکتی ۔ دیہاتی نے کہا : یا رسول اللہ ! اس کا مزہ تو قریشی یا انصاری ہی
اٹھایں گے کیونکہ وہی کھیتی باڑی والے ہیں ، ہم تو کسان ہیں نہیں ۔ آنحضرت ﷺ کو یہ
بات سن کر ہنسی آ گئی(صحیح بخاری:7519)
عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ
أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ فِي الْجَنَّةِ مِنْ خَيْلٍ ؟
قَالَ: إِنِ اللَّهُ أَدْخَلَكَ
الْجَنَّةَ فَلَا تَشَاءُ أَنْ تُحْمَلَ فِيهَا عَلَى فَرَسٍ مِنْ يَاقُوتَةٍ
حَمْرَاءَ يَطِيرُ بِكَ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْتَ إِلا فَعَلْتَ ، قَالَ: وَسَأَلَهُ رَجُلٌ
فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ فِي الْجَنَّةِ مِنْ إِبِلٍ ؟
قَالَ: فَلَمْ يَقُلْ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِصَاحِبِهِ، قَالَ:
إِنْ يُدْخِلْكَ اللَّهُ الْجَنَّةَ يَكُنْ لَكَ فِيهَا مَا اشْتَهَتْ نَفْسُكَ
وَلَذَّتْ عَيْنُكَ
. ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہوئے عرض کیا: اللہ
کے رسول! کیا جنت میں گھوڑے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اگر اللہ نے تم کو جنت میں داخل
کیا تو تمہاری خواہش کے مطابق تمہیں سرخ یاقوت کے گھوڑے پر سوار کیا جائے گا، تم
جہاں چاہو گے وہ تمہیں جنت میں لے کر اڑے گا“، آپ سے ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے
رسول! کیا جنت میں اونٹ ہیں؟ بریدہ کہتے ہیں: آپ نے اس کو پہلے آدمی کی طرح جواب
نہیں دیا۔ آپ نے فرمایا: ”اگر اللہ نے تمہیں جنت میں داخل کیا تو اس میں تمہارے لیے
ہر وہ چیز موجود ہو گی جس کی تم چاہت کرو گے اور جس سے تمہاری آنکھیں لطف اٹھائیں
گی“۔ (جامع ترمذی: 2543)
درج
بالا احادیث مبارکہ سے انسان کی خواہش جو جنت میں پیدا ہو گی اس کے حوالے سے بیان
موجود ہے کہ اللہ تعالی اس کو پورا کرے گا
اور بڑے احسن انداز میں اس کی خواہش پوری ہو گی ۔
یاد رہے جنت کی زندگی کو دنیا کی خواہشات اور تمناوں پر
قیاس نہیں کرنا چاہیے۔
دعاوں میں یاد رکھیں :
محمد سہیل عارف معینی ؔ ۔۔
Student of PHD Islamic
Studies
(University of Education
Laohre)(18/10/2023)