اختتام
سند کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:
۱: قدسی
۲: مرفوع ۳: موقوف ۴:مقطوع
1: حدیث
قدسی:
حدیث
قدسی کی تعریف: اس سے مراد وہ حدیث ہے کہ جس میں نبی کریم ﷺ کوئی بات اللہ
تعالی کی طرف منسوب کر رہے ہوں۔
روایت
کے الفاظ کچھ اس طرح ہوتے ہیں : ۱:
قال اللہ تعالی ۲:فیما
یرویہ عن ربہ ۳: فیما روی عن اللہ
مثال
: قال رسول اللہ قال اللہ تعالی انا
اغنی الشرکاء
حدیث
قدسی اور قرآن مجید میں فرق:
۱: قرآن مجید میں جبریل علیہ السلام کا واسطہ شرط ہے، جبکہ
حدیث قدسی میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے
۲؛ قران مجید سارے
کا سارا متواتر ہے جبکہ حدیث قدسی میں صحیح بھی ہیں اور ضعیف بھی ہیں۔
۳: قراان مجید کی
اجر و ثواب کی نیت سے تلاوت کی جاتی ہے جبکہ حدیث قدسی کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔
۴: قرآن مجید لفظی
اور معنوی طور پر اللہ تعالی کا کلام ہے جبکہ حدیث قدسی میں معنی اللہ تعالی کی
طرف سے اور الفاظ نبی کریم ﷺکی طرف سے ہوتے ہیں۔
حدیث
قدسی پر چند کتب:
۱: الاتحاف السنیّۃ بالاحادیث القدسیہ مصنفہ عبد الرووف مناوی
۲: الصحیح المسند من الاحادیث القدسیہ مصنفہ مصطفے عدوی
2: حدیث
مرفوع:
وہ حدیث جس کی سند رسول اللہ ﷺ تک پہنچتی ہو ، اس کی چار اقسام ہیں :
قولی
: جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر مبنی ہو۔(راوی
براء بن عازب رضی اللہ عنہ ''جب تم سجدہ کرو تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو(زمین
پر)رکھو اور اپنی دونوں کہنیوں کو (زمین سے) بلند رکھو۔''صحیح مسلم)
فعلی: جو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل پر مبنی ہو۔ (راوی مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ
عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو اپنی پیشانی کے بالوں،پگڑی اور موزوں پر
مسح کیا۔صحیح مسلم)
تقریری
: صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہ اجمعین کا وہ فعل یا قول جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہوا
اور آپ نے اسے برقرار رکھا یا آپ علیہ السلام کے سامنے کسی کے عمل کا ذکر کیا
گیا تو آپ نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی ۔۔یعنی منع نہیں کیا۔ (راوی قیس رضی
اللہ عنہ بن عمرو بن سہل انصاری ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو
صبح کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا تو فرمایا''صبح کی نماز تو دو رکعت ہے''
اس آدمی نے جواب دیا:''میں نے فرض نماز سے پہلے کی دو رکعتیں نہیں پڑھی
تھیں،لہٰذا اب پڑھ لی ہیں۔''تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔۔سنن
ابی داود)
وصفی: وہ حدیث جس میں نبی کریم ﷺ کے کسی وصف کا بیان ہو۔
مرفوع
کی ایک تقسیم اس طرح بھی کی جاتی ہے: مرفوع حقیقی مرفوع حکمی
مرفوع
حکمی سے مراد ایسی روایت ہے جو حکمی طور پر مرفوع ہو۔
3: حدیث
موقف:
ہر وہ قول یا فعل یا تقریر جو صحابی کی طرف منسوب ہو
اقسام
و امثلہ:
موقوف
قولی: صحابی کا قول جیسا کہ : حضرت علی ؓ کا فرمان( لوگوں سے وہی
بیان کرو جس کو وہ سمجھتے بھی ہوں)
موقوف
فعلی: صحابی کا فعل جیسا کہ امام بخاری ؒ نے نقل فرمایا ہے: حضرت
عبد اللہ بن عباس ؓ نے امامت کروائی اور وہ حالت تیمم میں
تھے۔
موقوف
تقریری: جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما ساحل سمندر پر آباد لوگوں کو نماز جمعہ ادا
کرتے ہوئے دیکھتے
تھے اور ان پر کوئی عیب نہیں لگاتے تھے۔
لفظا
موقوف حکما مرفوع: حقیقت میں
حدیث موقوف ہے لیکن حکما مرفوع ہوتی ہے:
1:
ایسی حدیث /صحابی کا ایسا قول جس میں اجتہاد کی گنجائش نہ ہو جیسا کہ صحابی کی
سابقہ اقوام ، مستقبل کے حالات کی خبر دینا یا ماضی
کے واقعات کی خبر دینا۔۔
2:
صحابی کا ایسا فعل جس میں اجتہاد کی گنجائش نہ ہو جیسے حضرت علی ؓ کی حدیچ کہ آپ
نے نماز کسوف میں ہر رکعت میں دو سے زیادہ
رکوع کیے۔
3: صحابی کا قول کہ ہم ایسا کرتے تھے /ہم ایسے کہا کرتے تھے۔
اگر تو وہ عہد نبوی کی طرف منسوب کریں تو حکما مرفوع ہے اگر وہ
ایسی نسبت نہ کریں تو موقوف ہی ہے۔ ہم اور ہماری عورتیں ایک
ہی برتن میں وضوع کر لیا کرتے تھے۔ ہم جب چڑھائی
چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے تھے۔
4:
صحابی کا قول جو کہ امرنا کذا نھینا عن کذا
او من السنۃ کذا پر مشتمل ہو۔
5: تابعی
کا قول : صحابی سے روایت کرتے ہوئے وہ ایسے کہیں : یرفعہ ، یبلغ بہ
روایۃ ، وہ بھی مرفوع ہو
گی۔
6:
صحابی کی ایسی تفسیر جو کسی آیت کے شانِ نزول سے متعلق ہو جیسے حضرت عائشہ فرماتی
ہیں کسی آدمی کے زیرِ کفالت کوئی یتیم
بچی ہوتی اور اس کی ملکیت میں کھجور کا ایک درخت بھی ہوتا تو وہ اس سےنکاح کر لیتے
تھے جب کہ اس سے کوئی الفت و محبت نہیں ہوتی تھی تو پھر یہ آیت نازل ہوئی: وَ اِنْ خِفْتُمْ
اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی
الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا
طَابَ لَكُمْ مِّنَ
النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ
ثُلٰثَ وَ رُبٰعَۚ-فَاِنْ خِفْتُمْ
اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً
اَوْ مَا مَلَكَتْ
اَیْمَانُكُمْؕ-ذٰلِكَ
اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْا (سورۃ النساء :3) اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم
لڑکیوں میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں ،دو دو
اور تین تین او ر چار چار پھر اگر تمہیں اس بات کا ڈرہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے
تو صرف ایک (سے نکاح کرو) یا لونڈیوں (پر گزارا کرو) جن کے تم مالک ہو۔ یہ اس سے زیادہ
قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔
موقوف
کی حجیت:
1: اصل میں حکم
واجب نہیں ۔
2: اگر یہ روایت
صحیح ثابت ہو جائیں تو بعض ضعیف روایت کو
تقویت پہنچا دیتی ہیں۔
3:اگر یہ مرفوع کے
حکم میں ہو تو ان پر مرفوع کی طرح ہی عمل کرننا لازم ہے۔
4: حدیث
مقطوع:
ہر وہ قول یا فعل جو کسی تابعی یا تابعی سے نچلے درجے والے
کی طرف منسوب ہو
اقسام
اور مثالیں:
1: مقطوع
قولی: جیسا کہ بدعتی سے
متعلق حسن بصری کا قول : آپ نمناز پڑھ لیں اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہو گا
2: مقطوع
فعلی: مسروق رحمۃ اللہ علیہ
: اپنے اور اپنے گھر والوں کے درمیان پردہ لٹکا لیتے اور پھر اپنی نماز کی طرف
متوجہ ہو جاتے
تھے اور انہیں اور ان کی دنیا کو چھوڑ دیتے تھے۔
مقطوع
اور منقطع میں فرق: مقطوع کاتعلق متن سے ہے جبکہ منقطع کا تعلق سند سے ہے (
یعنی مقطوع سے مراد ہے کہ وہ حدیث یا حدیث کے الفاظ کی نسبت تابعی یا اس سے نچلے
طبقے والے کی طرف منسوب ہے اور منقطع سے مراد ہے کہ حدیث کی سند میں کہیں کوئی
راوی ساقط ہو گیا ہے یعنی سند میں انقطاع آ گیا ہے)
مقطوع
کی حجیت:
مقطوع احکام میں کچھ بھی حجیت نہیں کیوں کہ یہ مسلمانوں میں
سے ہی کسی کا کلام ہے اور فعل ہے ۔اگر وہاں کوئی ایسا قرینہ پایا جاتا ہو جو اس کے
مرفوع ہونے پر دلالت کرے تو تب یہ مرفوع مرسل کے حکم میں ہو گی ۔ تابعی کا ایسا کہ
جس میں یَرْفَعُہ یَبْلُغُ بِہٖ یا رِوَایَۃ کے الفاظ ہوں تو
یہ مرفوع مرسل کی طرف اشارہ ہیں۔
موقوف
اور مقطوع روایات پر مشتمل کتب :
1: مصنف عبد الرزاق لامام عبد الرزاق
2: مصنف ابن ابی شیبہ لامام ابن ابی شیبہ
ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب
سبجیکٹ: علوم الحدیث
کلاس PHD سیشن 2023 ایجوکیشن یونیورسٹی لوئر مال کیمپس لاہور