تدوین حدیث | علم روایت و علم درایت | مقدمہ ابن صلاح | تدوین اصول حدیث
تدوین و روایت حدیث میں صحابہ کرام انتہائی احتیاط کرتے
تھے۔ جب کوئی حدیث مبارکہ بیان کرتا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اس سے
گواہ مانگتے تھے۔ جیسے سیدنا عبید بن عمیر سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا ابو
موسیٰ اشعری ؓ نے سیدنا عمر فاروق ؓ سے اجازت طلب کی لیکن سیدنا عمر بن خطاب ؓ کو
کسی کام میں مصروف پاکر آپ واپس چلے گئے۔ پھر (فراغت کے بعد) سیدنا عمر بن خطاب ؓ
نے کہا: کیا میں نے ابھی عبداللہ بن قیس ؓ کی آواز نہیں سنی تھی؟ انہیں اجازت دے
دو۔ جب انہیں بلایا گیا تو سیدنا عمر ؓ نے ان سے پوچھا: تم نے ایسا کیوں کیا؟
انہوں نے کہا: ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: ہمیں یہی حکم دیا گیا
ہے سیدنا عمر ؓ نے کہا: اس پر کوئی گواہ پیش کرو بصورت دیگر میں تمہارے ساتھ ایسا
ایسا کروں گا۔ سیدنا ابو موسیٰ ؓ یہ سن کر انصار کی مجلس میں گئے تو انہوں نے کہا:
اس کے لیے تو ہمارا چھوٹے سے چھوٹا شخص بھی گواہی دے سکتا ہے، پھر سیدنا ابو سعید
خدری ؓ اٹھے اور انہوں نے کہا: ہمیں یہی حکم دیا گیا تھا۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا:
مجھ سے نبی ﷺ کا حکم مخفی رہا کیونکہ مجھے منڈیوں میں تجارت نے مشغول کر رکھا تھا۔(صحیح
بخاری:7353) اسی طرح سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ قسم لیا کرتے تھے۔
سیدنا ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ پوچھا کرتے تھے کہ یہ بات کہاں سے سنی؟ یعنی سند
کی پڑتال کرتے تھے اور یہ معاملہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے فتنوں
کے زمانے سے شروع ہوا۔
علوم
حدیث سے متعلقہ چند مشہور تصانیف؛
1: المحدث الفاصل بین الراوی
والواعی مصنفہ ابن خلاد رامہرمزی (متوفی 360ھ)
2: معرفۃ علوم الحدیث مصنفہ امام حاکم (متوفی405ھ)
3:المستخرج علی معرفۃ علوم الحدیث مصنفہ امام ابو نعیم (متوفی 430ھ)
4:الکفایۃ فی علوم الروایۃ مصنفہ خطیب بغدادی (متوفی 463 ھ)
5:الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع مصنفہ خطیب بغدادی (متوفی 463ھ)
6:الماع الی معرفۃ اصول الروایۃ و تقیید السماع مصنفہ قاضی عیاض مالکی (متوفی544ھ)
7: مالایسع المحدث جھلہ مصنفہ علامہ میان جی (متوفی 580ھ)
8: علوم الحدیث المشہور بہ مقدمہ ابن صلاح مصنفہ حافظ ابن صلاح (متوفی 643ھ)
نوٹ: یہ بہت مشہور اور عمدہ کتاب تھی ، اس کتاب کے بعد ائمہ نے
اسی کتاب پر کام کیا ہے۔
مقدمہ
ابن صلاح
·
امام نووی نے مختصر کیا
اور 676ھ میں کتاب لکھی :: التقریب و التیسیر لمعرفۃ سنن البشیر النذیر
·
التقریب کی شرح میں امام جلال الدین سیوطی نے911ھ کتاب لکھی : تدریب الراوی فی شرح تقریب لنواوی
·
806 ھ میں امام عراقی نے اشعار کی صورت میں مقدمہ ابن صلاح
میں بیان کردہ اصول و ضوابط بیان کیے ہیں
کتاب کا نام : نظم
الدرر فی علم الاثر اس میں ایک ہزار
اشعار تھے یہ کتاب الفیہ عراقی کے نام سے مشہور ہوئی۔
·
الفیہ عراقی کتاب کی شرح لکھی 902ھ میں امام سخاوی نے فتح
المغیث فی شرح الفۃ الحدیث
·
852ھ میں علامہ ابن حجر عسقلانی نے کتاب نخبۃ الفکر فی مصطلح الاثر لکھی یہ کتاب بہت
عمدہ تھی ، ترتیب اور نظم بہت اچھا تھا مگر مختصر بہت تھی پھر خود ہی اس کی شرح
لکھ دی : نزھۃ النظر شرح نخبۃ
الفکر
·
1080 میں امام بیقونی نے علوم حدیث سے متعلق اشعار کی صورت
مین کتا ب لکھی: المنظومۃ بیقونیۃ
·
1331 میں جمال الدین قاسمی نے فوائد
الحدیث کتاب لکھی
چند
جدید کتب میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں:
·
نور الدین عتر منھج النقد فی علوم الحدیث
·
ڈاکٹر صبحی صالح علوم الحدیث و مصطلحہ
·
عبد اللہ بن یوسف الجدیع تحریر علوم الحدیث
·
ڈاکٹر محمود طحان تیسیر
مصطلح الحدیث
علم الحدیث کی دو قسمیں ہیں
۱: علم
الحدیث روایۃً ۲: علم الحدیث درایۃً
علم
الحدیث روایۃً : (روایتِ
حدیث ) علم یشتمل علی نقل الحدیث یعنی ایسا علم
جو حدیث کے نقل کرنے پر مشتمل ہوتا ہے
یعنی راوی نے علم الحدیث آگے لوگوں تک روایت کیا ہےے یعنی راوی نے ایک
حدیث سنی اور اسے آگے بیان کر دیا اس میں متن اور سند دونوں حصے شامل ہیں
علم
الحدیث درایۃً: علم حدیث کی گہرائی
میں جا کر جانچنا یعنی پرکھنا یعنی حدیث کو پرکھنا جانچنا تحقیق کرنا اس میں حدیث
کا متن اور سند دونوں شامل ہوتے ہیں۔
علم
باصولٍ وقواعدٍ یعرف بھا احوال السند و المتن من حیث القبول و الرد
روایت:
نقل الحدیث
درایت:
نقد الحدیث
حدیث
کی چار اقسام ہیں : قول ، فعل ، تقریر، صفت (یعنی جس میں نبی کریم وکی صفات کا
بیان ہو)
حدیث
، خبر ، اثر
خبر : اس میں تین اقوال ہیں : ۱: حدیث اور خبر ایک ہی چیز ہیں ۲: خبر حدیث کے متضاد ہے یعنی حدیث کے علاوہ سب خبر ہوتے ہیں ۳: خبر عام ہے یعنی اس میں حدیث اور خبر
دوونوں شامل ہیں۔
اثر: اس
میں دو قول ہیں ۱: اثر اور حدیث دونوں ایک ہی چیز ہیں ۲: اقوال صحابہ اور تابعین
کے لیے اثر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
مسند : مسند حدیث :
مرفوع متصل حدیث کو مسند کہتے ہیں ۲: مسند کتاب : جس میں صحابہ کے ناموں کی الف
بائی ترتیب سے احادیث جمع کی گئی ہوں۔
مُحَدِّث: جو روایت و درایت کے اعتبار سے علم حدیث کے کام مین مثغول
ہو جائے اور اس میں حدیث کا حافظ ہونا شرط نہیں اور اسے بہت سی احادیث اور راویوں
کا علم ہو۔
الحافظ: تین اقوال ہیں : ۱: محدث کے مترادف ہے ۲: محدث سے درجہ
اوپر ہوتا ہے ۳: جس کو ایک لاکھ احادیث یاد ہوں۔
الحجۃ : ایسا محدث جس
کو تین لاکھ احادیث یاد ہوں۔
الحاکم : ایسا
محڈث جس کو سند و متن اور جرح و تعدیل کے اعتبار سے تقریبا تمام احادیث کا علم ہو
، بہت کم کوئی ایسی حدیث ہو جو اس کو یاد نہ ہو یا اس کو علم نہ ہو۔
حدیث
کا تعارف اور تقسیمات
حدیث
کا تعارف
۱:
حدیث کا لغوی معنی: جدید ، گفت گو اور بات
۲:
حدیث کی اصطلاحی تعریف: ہر وہ قول ،فعل،تقریر یا صفت جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی
طرف منسوب ہو حدیث کہلاتی ہے۔
۳:
سنت : معنی ، طریقہ راستہ جیسا سُنَّةَ
اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ۚۖ-وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ
تَبْدِیْلًا(سورۃ الفتح:23)
·
محدیثین کی اصطلاح میں سنت حدیث کے ہی مترادف ہے۔
·
جبکہ فقہا کی اصطلاح میں سنت وہ ہے جو فرض کے مقابلے میں
استعمال ہو۔
حدیث
و سنت میں فرق: علی الاطلاق: حدیث
و سنت مترادف ہیں ، اور علی التقابل دونوں میں فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ حدیث عام ہے
جس میں قول ، فعل، تقریراور صفت چاروں شامل ہیں جبکہ سنت خاص ہے افعال کے ساتھ۔
حدیث
نبوی اور حدیث قدسی میں فرق: درذیل چار فرق ہیں :
۱: حدیث قدسی میں نبی ﷺ اللہ
تعالی کی طرف نسبت کرتے ہیں جبکہ حدیث نبوی میں ایسی کوئی نسبت نہیں ہوتی۔
۲: حدیث قدسی تعداد میں بہت کم
ہیں جب کہ حدیث نبوی کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
۳: حدیث قدسی میں خوف ، رج ااور
مخلوق کے ساتھ کلام کے بارے میں گفت گو ہوتی ہے، جبکہ حدیث نبوی میں ان تمام
موضوعات کت ساتھ ساتھ دیگر موضوعات بھی شامل ہوتے ہیں۔
۴: حدیث قدسی بالعموم قولی ہوتی
ہے ، جبکہ حدیث نبوی قولی فعلی تقریر ہر طرح کی ہوتی ہے۔
حدیث
قدسی اور قرآن مجید میں کیا فرق ہے؟:
۱: قرآن مجید میں جبریل علیہ السلام کا
واسطہ شرط ہے، جبکہ حدیث قدسی میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے
۲؛ قران مجید سارے کا سارا متواتر ہے
جبکہ حدیث قدسی میں صحیح بھی ہیں اور ضعیف بھی ہیں۔
۳: قراان مجید کی اجر و ثواب کی نیت سے
تلاوت کی جاتی ہے جبکہ حدیث قدسی کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔
۴: قرآن مجید لفظی اور معنوی طور پر
اللہ تعالی کا کلام ہے جبکہ حدیث قدسی میں معنی اللہ تعالی کی طرف سے اور الفاظ
نبی کریم ﷺکی طرف سے ہوتے ہیں۔
حدیث کی تقسیمات:
· نبی کریم ﷺ کی طرف نسبت کے اعتبار سے:
قولی
فعلی
تقریری
وصفی
· انتہائے سند یا
اختتام سند کے اعتبار سے :
حدیث
قدسی
مرفوع
موقف
مقطوع
(تابعی یا تبع تابعی)
· راویوں کی تعداد کے
اعتبار سے:
۱:
متواتر(کم از کم کسی طبقہ میں تعداد دس ہو )
۲:
آحاد
آحاد
کی تین اقسام ہیں:
مشہور(کم از کم تین راویوں کی تعداد ہو ،
۲: عزیز(کم
از کم تعداد دو رہ گئی ہو)
۳: غریب
(کم از کم تعدادایک ہو)
· قبول ورد کے اعتبار
سے ۱: قبول اور مردود
مقبول کی دو اقسام ہیں :
مقبول معمول
بہ
مقبول غیر معمول بہ
مقبول معمول بہ کی چار اقسام ہیں
۱: صحیح لذاتہ ۔
حسن لذاتہ ،
صحیح لغیرہ
حسن لغیرہ
مقبول غیر معمول بہ:
۱: مختلف الحدیث
۲: منسوخ الحدیث
مردود
/ ضعیف
1: انقطاع
سند کے لحاظ سے: سقوط ظاہر ۲: سقوط
خفی
سقوط
ظاہری: ۱:معنی ،۲: مرسل ،۳: معضل ،۴:
منقطع
سقوط
خفی: ۱: مدلس ۲: مرسل خفی
راوی
کی عدالت میں طعن کے اعتبار سے :
تقوی، پرہیز گاری، دین داری
۱: الکذب
(موضوع) ۲: تہمت بالکذب (متروک) ۳: الفسق (منکر) ۴: البدعۃ (ضعیف) ۵: الجھالہ
(ضعیف)
راوی
کے ضبط میں طعن کے اعتبار سے:
حافظہ میں طعن ہونا
فحش
الغلط ( منکر) ۲: کثرت غفلت (نکر) ۳: سوء
الحفظ(ضعیف) ۴: کثرت اوہام ( معلل) ۵:
مخالفت ثقات (شاذ)
۵:
مخالفت ثقات (شاذ) اس کی مزید پانچ
اقسام ہیں : مُدرج ۲: مقلوب ، ۳: مزید فی
متصل الاسانید ۴: مضطرب ۵:
مُصَحَّف/مُحرَّفّ
ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب
سبجیکٹ: علوم الحدیث
کلاس PHD سیشن 2023 ایجوکیشن یونیورسٹی لوئر مال کیمپس لاہور
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You