علامہ ابن خلدون کا تعارف اور علمی مقام
علامہ ابن خلدون کا مختصر تعارف:
ابن خلدون کا اصل نام عبد
الرحمن بن محمد بن محمد ہے ان کے اجداد
میں ایک خلدون نام آتا ہے آپ انہیں کی نسبت سے ابن خلدون کے نام سے
مشہور ہوئے۔ ابن خلدون تیونس میں بروز بدھ پہلی رمضان المبارک 732 ہجری[1]
میں پیدا ہوئے بچپن میں ہی ابو عبد اللہ
محمد بن سعد بن بُرَّال انصاری سے قرآن مجید حفظ کیا جو قراءت میں امام مانے
جاتے تھے ۔ حفظ کے بعد ابن خلدون نے سبع
قراءت پڑھی اور کمال حاصل کیا ۔ قرآن مجید حفظ اور قراءت کا علم حاصل کرنے کے بعد
ابن خلدون عربی زبان و ادب کی طرف متوجہ ہوئے اس میدا ن کے عظیم ائمہ لغت سے عربی
زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی۔ عربی زبان و
ادب کے بعد علم حدیث اور علم فقہ حاصل کیا اور اپنے اساتذہ سے روایت کی سند حاصل
کی۔ [2]
آپ ایک بھرپور علمی زندگی گزارنے کے بعد 76 سال کی عمر میں 808 ہجری دار فانی سے
رخصت ہو گئے۔
ابن خلدون ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے
ذہانت و متانت ، فکر و تدبر ابن خلدون کا خاصہ تھے ۔وہ ایک ماہر تعلیم ،ماہر زبان
و ادب ،عظیم محدث ،قابل فقیہ ،ماہر عمرانیات ومعاشیات اور عظیم مورخ تھےاور جدید
عمرانیات کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ تاریخ میں ایسی شخصیات کم ہی ملتی ہیں جو علوم ِعقلیہ
و نقلیہ میں کمال درجہ کو پہنچی ہوں اور لوگوں نے ان کے کام سے کما
حقہ استفادہ کیا ہو۔ ماہر تعلیم ہونے کے
ساتھ ساتھ آپ ماہر نفسیات بھی تھے ،انہوں نے حصول تعلیم کے لیے نفسیات
کےکردار کو واضح کیا ہے۔
علامہ ابن خلدون کا علمی مقام ومرتبہ
ابن خلدون کی تصنیف مقدمہ کا مطالعہ
کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فاضل مصنف کا اس زمین کے جغرافیائی خدو خال، انسانی
معاشرے، علوم انسانی ، سلاطین اور سلطنتوں ، ریاست کی ضروریات اور اس کے
اداروں سے متعلق کتنا گہرا مطالعہ تھامزید
برآں مسلم مفکر ، تاریخ دان اورماہر معاشیات و عمرانیات ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی
علوم یعنی قرآن اور تفسیر قرآن، حدیث اور اصول حدیث ، فقہ اور اصول فقہ ، علوم
اللسان ، علوم تصوف اورعلم الکلام پر بھی
دسترس حاصل تھی۔ علم الاعداد و ہندسہ پر بھی ید طولی حاصل تھا۔ علامہ ابن خلدون کے
سیاسی افکار ان کے عملی سیاسی مطالعہ کا
منہ بولتا ثبوت ہیں ۔علامہ ابن خلدون کے مقدمہ سے چند ایک اقتباسات ان کے علمی
مقام و مرتبہ کے بیان کے لیے ذیل میں ذکر کیے جا رہے ہیں:
جغرافیائی تقسیم :
علامہ ابن خلدون کے افکار کے مطابق
جغرافیہ کا اثر انسانی نفسیات ، رنگ و نسل
پر بہت زیادہ ہوتا ہے ۔اسی طرح اقالیم میں
آنے والی قدرتی آفات کا بھی انسانی احوال پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ اس حوالے سے علامہ
نے جغرافیہ کو ہفت اقلیم میں تقسیم کیا اور وہاں کی آبادی کے خواص ان کے رہن سہن
اور تہذیب و تمدن کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ان اقالیم میں آبادی کا تناسب اور
آبادیوں کے رجحان ، علاقوں کے ماہیت یعنی پہاڑ ، دریا ، ریگستان اور میدانی علاقے
کہاں کہاں پائے جاتے ہیں ، یہ تفصیلات مختلف مورخین اور تاجروں کے مشاہدات کی
روشنی میں درج کی ہے۔
آبادی کی تقسیم:
علامہ ابن خلدون نے آبادی کی تقسیم دو
طرح سے کی ایک حضری آبادی یعنی شہروں میں آباد اقوام اور دوسرے بدوی لوگ ہیں
یعنی دیہاتوں ، پہاڑوں اور ریگساتوں میں
رہنے والے لوگ۔علامہ نے بدوی لوگوں کو حضری لوگوں پر ترجیح دی اور بہت
تعریف کی ہے کہ یہ لوگ نیکی کرنے میں حضریوں سے زیادہ بہتر ہوتے ہیں اسی طرح شجاعت و بہادری کا عنصر
میں زیادہ پایا جاتا ہے اور عصبیت جو کہ سلطنت کی مضبوطی کی بنیادی اکائی ہوتی ہے
ان بدوی لوگوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ دوسری علامہ طرف علامہ لکھتے ہیں کہ بدوی
نظام زندگی چلانے کے شہریوں کے محتاج اور
مغلوب ہوتے ہیں کہ انہیں زندگی کی ضروریات شہروں ےس پوری کرنا پڑتی ہیں انہیں اپنا
ساز و سامان بیچنے کے لیے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔کھیتی باڑی کے آلات خریدنے کے
لیے شہروں میں جانا پڑتا ہے۔
علم تاریخ:
علامہ ابن خلدون نے علم تاریخ کی اہمیت بیان کی اور اس کی فضیلت
میں لکھتے ہیں کہ یہ ایسا علم ہے کہ اس کے ذریعے ہمیں پہلے لوگوں کے حالات ان کے
رہن سہن کے انداز ، مختلف سلطنتوں اور سلاطین کے احوال جاننے کو ملتے ہیں اور سب
سے بڑھ کر ہمیں انبیا ئے کرام علیھم السلام کے حالات زندگی اور تعلیمات بھی سیکھنے
کو ملتی ہیں ۔ تاریخ کی تدوین کے حوالے سے علامہ نے جو اسلوب اپنائے ہیں وہ ماقبل مورخین میں ناپید
ہیں ۔ علامہ ابن خلدون نے تدوین تاریخ سے متعلق لکھتے ہیں کہ : فللعمران طبائع فی احوالہ ترجع الیھا الاخبار و تحمل علیھا
الروایات و الآثار [3]۔ترجمہ:
تاریخی روایات کا تعلق عمرانی احوال و طبائع سے ہوتا ہے اس لیے ان آثار اور
روایات کو عمرانی احوال و طبائع پر پرکھا جاتا ہے۔ اس اصول کے تحت علامہ نے مختلف مورخین کی تعریف
کی ہے جن میں ابن اسحاق ابن جریر طبری وغیرہ اور کچھ مورخین پر جرح بھی کی اور ان کی
مختلف روایات پر تبصرہ بھی درج کیا ہے۔ جیسے مسعودی اور واقدی پر بڑی تنقید کی ہے
، مسعودی کے حوالے سے لکھتے ہیں مسعودی نے فرعون سے آزادی کے وقت بنی اسرائیل کی
فوج کی تعدا 6 لاکھ بتائی ہے جبکہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ
السلام کے زمانے تک کا عرصہ، اس وقت کے جغرافیائی خد و خال اور عمرانی احوال اس
بات کی تصدیق نہیں کرتے ۔ اسی طرح سلاطین یمن و عرب اور سلاطین فارس کے احوال میں
ایسے ایسے واقعات بیان کیے گئے جنہیں نا عقل تسلیم کرتی ہے نا جغرافیہ اورنا
عمرانی احوال ۔علامہ نے تدوینِِ تاریخ میں روایات کو قبول کرنے اور درج کرنے میں
ہونے والی اغلاط کے اسباب بھی بڑی تفصیل سے درج کیے ہیں۔
علم اللسان :
علوم لسانیات میں آپ نے عربی و غیر عربی اور دیہاتی و شہری
زبانوں میں فرق بیان کیا۔ زبان کی ترقی کے مراحل زبان کی خصوصیات و نقائص کھول
کھول کر بیان کیے ہیں۔علوم لسانیات میں فن شعر و نثر، شعر کی
جملہ اصناف،شہری اور دیہاتی شعرا کے کلام کی خصوصیات اور باہمی فرق، شعر اور نثر
کے تعلم کے طریقہ کار ، اسلوب ، زباندانی میں کلام یعنی تکلم کی اہمیت
کو بیان کیا۔علامہ نے شعری اصناف کا ذکر کرتے ہوئے اشعار بیان کر کے اس کی مثالیں
دی ہیں۔
علم الکلام:
علم الکلام اور عقلی دلائل سے عقیدہ اسلامیہ پر بحث کی اور
عقیدہ توحید کو آسان عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے۔بعد ازاں علم الکلام کی
ضرورت و اہمیت اور اس علم کو اپنانے کی وجوہات تفصیل سے ذکر کی ہیں۔ اس بحث میں قرآنی آیات کو ذکر کر کے مزید جازب بنایا ہے۔علم
الکلام، منطق ،فلسفہ کے جملہ جزئیات اور مہارتیں، علم الکلام کی صفات، استدلال اور
استدلال کے طریقہ کار، جواب اوراس کے جملہ خواص کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
آپ نے علم الکلام کے ذریعے فرقہ معتزلہ ، امامیہ کے عقائد کی عقلی دلائل سے نفی کی
ہے آخر میں علم الکلام کے حوالے سے جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ‘‘طالبان
علم کو یہ علم ضرور مفید ہےاس لیے کہ حاملان سنت کو اپنے مذہب کےادلہ عقلیہ سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے’’۔[4]
علم الاعداد و سحر:
ابن خلدون سحر اور طلسمات کو بھی زیر بحث لائے اور خاطر
خواہ معلومات درج کی ہیں ۔اسی ضمن میں علم الاعداد اور اعداد سے زائچے نکالنے کے
انداز اور طریقہ کار کو باقاعدہ زائچے اور نقوش بنا کر ان کی وضاحت کی ہے۔
تصوف:
تصوف کے بارے میں تفصیلات بیان کی ہیں تصوف کا معنی و مفہوم
بیان کیا ،کہ تصوف صوف سے مشتق ہے صوفیہ نے اپنے لیےیہ لفظ اس لیے استعمال کیا کہ
وہ عام لوگوں سے ہٹ کر سادہ اور موٹے اونی کپڑے پہنتے تھے اس لیے صوفیہ کہلائے۔
پھر آپ نے اہلِ تصوف کے انداز تربیت
اورصوفیہ کے مشاہدات و مجاہدات کا ذکر کیا۔ اہلِ شریعت و طریقت اور صوفیہ کے انداز
تعلیم و تربیت میں فرق کا ذکر کیا ہے۔مقدمہ میں آپ نے متقدمین و متاخرین کے ہاں مروج تصوف کے احوال
تحریر کیے ہیں۔ امام غزالی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے شریعت و طریقت اور
تصوف کو یکجا کر دیا۔[5]
علم تفسیر:
علم تفسیر ، حدیث ، فقہ اور منطق پر آپ نے قرآنی آیات
اور دلائل عقلیہ و نقلیہ سے بحث کی۔ آپ
نے قرآنی تفسیر کی بنیادی طور پر دو اقسام بیان کی ہیں۔ ایک نقلی تفسیر یعنی
صحابہ کرام تابعین اور تبع تابعین کے اقوال ذکر کیے جاتے ہیں اور دوسری قسم کی وہ
تفسیر ہےجس میں علم الکلام علم اللسان کا سہارا لیا جاتا ہے اور حروف و الفاط پر
بحث کرتے ہوئے مفاہیم اخذ کیے جاتے ہیں۔ اس میں آپ نے علامہ جار اللہ زمحشری کی
تفسیر کشاف کا ذکر کیا اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں چونکہ علامہ
زمحشری معتزلی تھے تو معتزلہ کے ہاں مروج کلم الکلام کا غلبہ زیادہ ہونے کی وجہ سے
عموماً اہل سنت نے اس تفسیر کو پسند نہیں کیا۔قرآں مجید کی تفسیر
میں درج چند تاریخی واقعات(باغ ِارم اور شداد) درج کرنے پر مفسرین پر بھی علامہ نے جغرافیائی اور عمرانی احوال کو
سامنے رکھتے ہوئے تنقید کی ۔
علم حدیث:
علم حدیث کے ضمن میں ناسخ و منسوخ کا تذکرہ کیا اور اس پر جن علما نے کام کیا اور اس کی تفصیلات درج کیں ان کا تذکرہ کیا جن میں خاص امام شافعی اور امام زہری کا ذکر کیا۔جرح و تعدیل اور فن حدیث پر بات کرتے ہوئے صحیح اورضعیف احادیث پر تبصرہ کیا ہے۔احادیث کے قبول ہونے یا ناقابل قبول ہونے کے حوالے سے اصولِ حدیث کے ائمہ کی بیان کردہ اقسام کو بھی زیرِ بحث لائے ہیں۔
[1] الحنبلی، عبد الحیی بن العماد، شذرات الذھب ،
دار المسیرہ ، بیروت ، لبنان 1979، ج 7 ص76
[2] ابن خلدون، عبد الرحمن، التعریف بابن خلدون
ورحلتہ غربا وشرقا، دارالکتاب اللبنانی ، 1979، صفحہ 20
[3] ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد، مقدمہ ابن خلدون
، دار الھلال، بیروت لبنان ،1984، ص 4
[4] مقدمہ ابن خلدون ، ص467
[5] ایضاً ،
صفحہ 469
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You