Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

12/19/23

Islam is a complete code of life اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات | تشویش ناک رویہ | ہمارے رویے | قیمتی انسان

اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے۔۔۔

ہی جملہ دکھنے میں ، سننے میں ، سمجھنے میں اور کہنے میں بہت آسان ہے ۔۔

لیکن جب ہم اس کی گہرائی میں جاتے ہیں تو اتنی بڑی دنیا ہے کہ شاید ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور ایسی وسیع دنیا ہے کہ آدمی ایک بار بھنچلا جاتا ہے۔ اسلام کی اس دنیا میں بہت سے میدان ہیں اور بہت سی شاخیں ہیں ۔ہر شاخ کی وسعت کااندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔جس قدر  زندگی کے معاملات میں گہرائی ہے اس دنیا میں نت نئے اخلاقی، سماجی، معاشی ، مذہبی یا سیاسی چیلنجز رورنما ہو رہے ہیں ان کا تعلق انسان کی  انفرادی یا اجتمائی زندگی سے ہو ،جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام مکمل نظام زندگی اور ضابطہ حیات ہے تو بلاواسطہ ہی ماننا پڑے گا کہ ان معاملات میں رہنمائی کے لیے اسلام میں وسعت بھی اتنی ہی پائی جاتی ہے۔اس جدید دور میں جہاں بے شمار اخلاقی اور سماجی برائیاں پائی جاتی ہیں وہاں ایک نیا فلسفہ، ٹیکنالوجی کی ترقی اور کرشمہ سازی کی وجہ سے یہ پیدا ہو رہا ہے کہ لوگ ہی چاہتے ہیں کہ جس اصول کے تحت ٹیکنالوجی ترقی کرتی ہے ویسے ہی مذہب بھی ہماری رہنمائی کرے یعنی جو اصول ٹیکنالوجی پر لاگو ہوتا ہے وہی اصول  مذہب پر بھی نافذ کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہ دونوں مختلف انداز میں سوچتے اور کام کرتے ہیں  مذہب کو اس بات پر کوئی سروکار نہیں کہ بندہ چاند پر پہنچ گیا ہے اسے وہاں جانا چاہیے یا نہیں ، وہاں انسان راکٹ اور چاند گاڑی کے ذریعے کیوں گیا ہے؟ چاند پر انسان کو صرف راکٹ کے ذریعے جانا چاہیے تھا، موبائل کیوں ایجاد ہوا، سکرین کیوں ایجاد ہوئی، جہاز پر سواری کیوں کی جاتی ہے، جہاز کے ہوتے ہوئے راکٹ کیوں ایجاد کیا گیا ، انسان خلا میں کیوں جا رہا ہے اور خلا سے متعلق اتنا تجسس کیوں رکھتا ہے ؟ مذہب کو ان باتوں سے کوئی سروکارنہیں ہے اور نا ان سے کوئی تعلق ہے ۔جب مذہب ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی اور کرشمہ سازی میں دخل اندازی نہیں کرتا اور نہ مذہب کا اس سےکوئی تعلق ہے تو کیوں پھر یہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے لوگ مذہب کو اپنی مرضی سے استعمال کرنا چاہتے ہیں؟ اور ہر چیز کو اپنے ہی سائنسی اصولوں پر پرکھنا چاہتے ہیں ؟

 انسان ہمیشہ  سے ایک مکمل وجود ہونے کے ساتھ مجبوراور انتہائی محدود ہے، اس کی صلاحیتیں بہت وسیع ہیں لیکن یہ ان کو کھوجنے اور ان کے اظہار میں اکثر غلطی کرتا ہے اور افراط وتفریط کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ جب یہ کسی بھی میدان میں اترتا ہے اور اس میں کھوجنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو اتنی محنت درکار ہوتی ہے اور ذہنی صلاحیتوں کا اس قدر استعمال ہوتا ہے کہ عموما جب کوئی اُس میدان میں کچھ نا کچھ پا لیتا ہے تو یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس میدان میں شاید میں ہی اکیلا ہوں اور دوسرا کوئی اس میں اس کا شریک نہیں ہے اور جو گوہر نایاب مجھے ملا ہے کسی اور کو کبھی نہیں مل سکتا۔ یہی سوچ اور اندازہ اس کو پائی ہوئی دولت سے محروم کر دیتا ہے اور وہ دولت ضائع ہو جاتی ہے یعنی وہ دودلت ہوتی تو اس کے پاس ہے لیکن اس کی کوئی قیمت نہیں رہتی کیوں کہ وہ اس کو پا کر اس پر اترانے لگا ہے اور اپنے علاوہ کسی کو برداشت کرنے کی حالت میں نہیں اور کسی کو ماننے اور قبول کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے لہذا جو اس نے کمایا سو اس نے وہ کھو دیا۔۔

کیا زندگی  اور زندگی کے لوازمات کی اتنی وسعت کو مخاطب کرنے والا مذہب اتنا ہی مختصر ہو گا کہ اس کے تمام فلسفے ایک فرد واحد اپنے من میں سما کر کامل بن گیا ہے؟

ہر انسان کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں ان ترجیحات کی بنیاد پر وہ اپنے لیے ایک میدان منتخب کرتا ہے، وہ ایک سمت کا تعین کرتا ہے اور پھر اس پر اپنی پوری محنت اور لگن سے گامزن ہوتا ہے، چاہیے تو یہ کہ انسان اسی پر رہے اور اپنی ہی سمت اور میدان کے لوازمات سے بات کرے نہ کہ باقی لوگوں کو اچھا برا کہہ کر ٹانگ اڑاتا جائے اور اپنی محبت ونفرت کااظہار کرنا فرض عین سمجھتا رہے اور پھر دوسرے لوگوں سے الجھ جاتا ہے اور نتیجتا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا سوائے بحث و مباحثہ کے۔

 

ایک دوسرے کی قدر کرنا

ہر ایک کو اس کے دائرہ کار میں کام کرتے دیکھ کر حوصلہ افزائی کرنا

دووسروں کی محنت و کوشش کو سراہنا اور اگر ادراک ہو تو علمی و عملی تعاون کرنا

 یہ ایسی سوچ ہے کہ جو یقینی طور پر مثبت اور کارا ٓمد ہے۔

رویہ انتہائی تشویش ناک ہے کہ:

 

میں مکمل ہوں

جو میں جانتا ہوں وہ دوسرا نہیں جانتا

جو  میرا ادراک اور فہم کام کرتا ہے ایسا دوسرا کوئی نہیں کر سکتا

میرے جیسا شعور کوئی ددوسرا نہیں رکھتا

میرا مشورہ سب سے بہترین اور کامل ہے

جو میری رائے ہے وہی سب سے اچھی اور کارآمد رائے ہے

جو میرا انداز ہے وہی سب سے بہتر ہے

 

ہر انسان کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے ہر انسان اپنی ذات میں ایک گوہر نایاب ہے جب وہ اپنے آپ کو کسی دوسرے کے ساتھ وزن کرتا ہے تو کبھی وہ ضرب کھا کر اور زیادہ قیمتی ہو جاتا ہے اور کبھی ضرب کھا کر صفر ہو کاتا ہے۔ کبھی کسی کے ساتھ جمع ہو کر وہ قیمت میں اضافہ کر لیتا ہے اور کبھی منفی ہو کر قیمت کم کر بیٹھتا ہے۔

تو انسان کیوں دوسروں کے ساتھ ضرب کھاتا  ،تقسیم ہوتا ہے  یا جمع و منفی ہوتا ہے اپنی ذات میں ترقی کیوں نہیں کرتا، اپنی ذات کو عروج بخشنے کے لیے وہ رذائل کو کیوں نہیں چھوڑتا ؟ یہی تو ہماری کمزوری ہے کہ ہم جب خود صفر سے آگے بڑھتے ہیں یعنی ہماری کوئی قیمت شروع ہوتی ہے تو ہم دوسروں کے ساتھ ضرب تقسیم ہونے لگ جاتے ہیں۔  کم ظرفی شاید اسی کو کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو سنبھال نہیں پاتےاور ایک بے قیمتی اور جہالت جیسی مصیبت سے نکل کر دوسری مصیبت میں پڑ جاتے ہیں ۔۔۔۔

 مشورہ یہی ہے کہ :

اگر آپ کچھ ہیں تو اپنے زبان اورکردار سے خود کو صفر نہ کریں بلکہ اگر کسی سے ملنا ہی ہے تو جمع ہو جائیں ، کسی سے ضرب کھا جائیں سوائے صفر  کے۔۔۔


 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive