...
....
وظائف
مختلف وظائف کے لیے کلک کریں
دار المطالعہ
اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں
گوشہءِ غزل
بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں
1/24/24
1/23/24
ہر گھڑی پیش نظر عشق میں کیا کیا نہ رہا | har ghari pesh e nazar lyrics صوفیانہ کلام رندانہ کلام
ہر
گھڑی پیش نظر عشق میں کیا کیا نہ رہا
میرا
دل بس تری تصویر کا دیوانہ رہا
ایسا
مدہوش کیا تیری تجلی نے مجھے
طور
بھی میرے لئے وجہ تماشہ نہ رہا
یہ ستم مجھ پہ مرے عشق کا اچھا نہ رہا
تجھ
کو دیکھا تو مرا دل مرا اپنا نہ رہا
یوں ترے نقش کف پا پہ ادا کی ہے نماز
سر میں
کعبہ کے لئے ایک بھی سجدہ نہ رہا
ابتدا
یہ تھی کہ میں اپنا سمجھتا تھا انہیں
انتہا یہ ہے کہ میں آپ بھی اپنا نہ رہا
زندگانی تجھے لے جاؤں میں کس کے در پر
دل میں حسرت نہ رہی سر میں بھی سودا نہ رہا
وہ نہ کعبے میں ملا ہے نہ صنم خانے میں
کیا قیامت ہے کہ وہ شوخ کسی کا نہ رہا
وہ پرایا تھا فناؔ اس کا گلا کیا کیجیے
غم
تو یہ ہے کہ میں خود آپ بھی اپنا نہ رہا
1/22/24
لفظ میں آپﷺ کے شایان کہاں سے لاؤں | lafz men aap k shayan kahan se laaon lyrics
لفظ
میں آپﷺ کے شایان کہاں سے لاؤں
نعت
کہنے کا میں عرفان کہاں سے لاؤں
لوگ
کہتے ہیں کروں آپﷺ کی مدحت آقا
میں
بھلا لہجہ ءِیزدان کہاں سے لاؤں
آپﷺ
کی نعت تو لکھتا ہوں مگر سوچتا ہوں
میں
بھلا دوسرا قرآن کہاں سے لاؤں
دل
تو کہتا ہے لکھوں آپ ﷺکی تعریف مگر
میں
ابو طالب کا قلمدان کہاں سے لاؤں
آپﷺ
کی آل کی پہچان نہیں دنیا کو
دیدہ
ءِ بو ذر و سلمان کہاں سے لاؤں
آپ
ﷺکے حکم کو جو حکم خدا مانتے ہیں
آج
میں ایسے مسلمان کہاں سے لاؤں
آج
بھی آتی ہے توحید کے پردے سے صدا
مصطفے
ﷺسا کوئی مہمان کہاں سے لاؤں
تیرے
کہنے سے جو عمرا ن کا انکار کروں
پھر
محمد ﷺکا نکاح خوان کہاں سے لاؤں
کھو
گیا عشق محمدﷺ میں بڑی دیر ہوئی
اپنا
دل ڈھونڈ کے رحانؔ کہاں سے لاؤں
1/21/24
میں بندۂِ عاصی ہوں خطا کارہوں مولا | men banda e aassi hon lyrics | وابسطہ ہے امید میری
میں بندۂِ عاصی ہوں خطا کارہوں مولا
لیکن تیری رحمت کا طلب گار ہوں مولا
وابسطہ ہے امید میری تیرے کرم سے
تیرا ہوں فقط تیرا پرستار ہوں مولا
اک تیرا اشارہ ہو اور آسان ہو منزل
اک لہرا ٹھے اور میں اُس پار ہوں مولا
جن سے میں گزر جاوں وہ در کھول دے مجھ میں
خود اپنے ہی رستے کی میں دیوار ہوں مولا
باہر کے اجالے مجھےکیا راہ سجھائیں
اندر کے اندھیروں میں گرفتار ہوں مولا
پھر تو میرے ایماں کو توانائی عطا کر
برسوں نہیں صدیوں سے بیمار ہوں مولا
مدینہ چھوڑ آئے اپنی دنیا چھوڑ آئے ہیں | Madnia chor aay hen lyrics | ابھی تک دل وہیں پر ہے | abhi tak dil wohen par he
مدینہ چھوڑ آئے اپنی دنیا چھوڑ آئے ہیں
ہمارے پاس جتنا تھا اثاثہ چھوڑ آئے ہیں
خدا کا گھر بھی چھوٹا ہے نبی آستانہ بھی
لگا ہے دوہراغم مکہ مدینہ چھوڑ آئے ہیں
ابھی تک دل وہیں پر ہے ابھی تک جاں وہیں پر ہے
دل و جاں کو وہاں روتا بلکتا چھوڑ آئے ہیں
ریاض الجنہ وہ منبر سے گھر تک سارا ہی گوشہ
جہانِ خلد کا وہ حسن سارا چھوڑ آئے ہیں
ہوا ہے ختم ویزہ اب کف افسوس ملتے ہیں
سنہری جالیوں کا نور سارا چھوڑ آئے ہیں
خدا جانے وہ کیسی نور اور کرنوں کی بستی تھی
اندھیرا ہےے یہاں پر ہم اجالا چھوڑ آئے ہیں
ابھی تک یاد آتی ہے مزار حمزہ کی رونق
بھلا کیوں سد الشہدا کا خطہ چھوڑ آئے ہیں
مدینے کے در ودیوار سب رستےمہکتے ہیں
ذرا سا عطر لے کر مشک نافہ چھوڑ آئے ہیں
جہاں سے ساری دنای میں اجاگر فیض جاری ہے
بقیع پاک میں زہرا کا روضہ چھوڑ آئے ہیں
1/16/24
ظلم کر دے نہ تیرا مائلِ فریاد مجھے | نصیریات | کلام پیر نصیر الدین نصیر ؒ | کلیات پیر نصیر
ظلم
کر دے نہ تیرا مائلِ فریاد مجھے
اس
قدر بھی نہ ستا او ستم ایجاد مجھے
رات
پڑتی ہے تو آتا ہے کوئی یاد مجھے
تو
نے رکھا نہ کہیں قابلِ ناشاد مجھے
جو
خوشی آپ کی وہ میری خوشی بسم اللہ
آپ
کرتے ہیں توکر دیجیے برباد مجھے
پوچھتے
کیا ہو میرا حالِ پریشاں مجھ سے
ایسا
کھویا ہوں کہ کچھ بھی نہ رہا یاد مجھے
میں
قفس ہی سے گلستاں کا نظارہ کر لوں
اتنی
رخصت نہیں دیتا میرا صیاد مجھے
رکھ
سکے ہاتھ بھلا کون کسی کے منہ پر
لوگ
کہتےت ہیں تیرا کشتۂِ بے داد مجھے
لینے
دیجیے ابھی اس دل کو اسیری کے مزے
ابھی
کیجیے نہ خمِ زلف سے آزاد مجھے
بھول
جاؤں میں زمانے کو تیری چاہت میں
یاد
تیری رہے اللہ کرے یاد مجھے
اس
کی یادوں سے نصیرؔ آج بھی دل ہے آباد
بھول
کر بھی نہ کیا جس نے کبھی یاد مجھے
1/14/24
Aristotle On the 3 Types of Friendship | Three Lessons From Aristotle on Friendship
Three
Lessons From Aristotle on Friendship
"Three Lessons From
Aristotle on Friendship" explores the timeless wisdom of Aristotle
regarding the essence of genuine companionship. Aristotle, the ancient Greek
philosopher, imparts invaluable insights on the importance of mutual goodwill,
shared virtues, and the principles of equality and reciprocity in fostering
meaningful and lasting friendships. These lessons emphasize the significance of
authentic connections built on trust, common values, and a balanced exchange of
care and support, resonating with the enduring qualities that characterize true
friendships throughout history.
Mutual
Goodwill: Aristotle emphasized the
importance of mutual goodwill in friendships. True friendships are based on a
genuine desire for the well-being of the other person, creating a reciprocal
bond of trust and support.
Mutual goodwill, according
to Aristotle, refers to the genuine
and sincere desire for the well-being and happiness of the other person in a
friendship. It involves a reciprocal intention to support and contribute
positively to each other's lives. In Aristotle's view, true friendships are
built on this foundation of mutual care and concern for the other person's
flourishing, creating a bond based on genuine affection and goodwill.
Shared
Virtue: Aristotle believed that the best
friendships are those where individuals share virtues and values. When friends
have common ethical principles and goals, it strengthens the bond and
contributes to a more meaningful and lasting relationship.
Shared virtue, according
to Aristotle, refers to the idea that
the best and most fulfilling friendships are those in which individuals share
similar ethical principles, values, and virtues. In Aristotle's ethical
philosophy, virtues are qualities that contribute to a person's moral
excellence, such as honesty, integrity, and kindness. When friends possess
common virtues, it strengthens their connection and contributes to a more
meaningful and harmonious relationship. The shared commitment to living a
virtuous life becomes a unifying factor, fostering trust and understanding
between friends.
Equality
and Reciprocity: Aristotle highlighted
the importance of equality and reciprocity in friendships. For a friendship to
thrive, there should be a balanced give-and-take, where both parties contribute
to the relationship in a fair and reciprocal manner, avoiding any sense of
exploitation or imbalance.
Equality: Aristotle emphasized that true friendships are based
on a sense of equality between individuals. This doesn't necessarily mean equal
talents, resources, or abilities, but rather an equal regard for each other's
well-being and a balanced give-and-take within the relationship. In an equal
friendship, both parties contribute to the relationship, and there's a sense of
fairness.
Reciprocity: Aristotle believed that friendships involve a
reciprocal exchange of goodwill, support, and benefits. Friends give and
receive from each other in a balanced manner, fostering a mutual understanding
and harmony. Reciprocity in actions and emotions helps maintain the equilibrium
in the friendship, preventing feelings of exploitation or one-sidedness.
1/11/24
خوبصورت نعت سوہنے دیس عرب دے والی دی جینوں دید عطا ہو جاندی اے sohne des arab de wali di
سوہنے دیس عرب دے والی
دی جینوں دید عطا ہو جاندی اے
اوہندے مکدے پند حیاتی دے
درداں تو شفا ہو جاندی اے
جینوں لگے عشق محمد ﷺ دا بن
جان اویس بلال سید
سوہنے کملی والے دی جس تے اک
وار نگاہ ہو جاندی اے
کرے رقص
ہوا وچ گلیاں دے چم چم کے زلف محمد ﷺ دی
کلی
ویکھ کے زلف حبیب والی ایہہ خود ہی صبا ہو جاندی اے
اوہو روون ہجر دے وچ یارواوہو اکھیاں غیر نوں تکدیاں
نئیں
جس اکھ
نوں کملی والے دی اک جھلک عطا ہو جاندی اے
پیاں
مہکن اج وی راہواں اوہ، جتھے لگے قدم محمدﷺ دے
جتھے
سوہنا ماہی لنگھ جاندا مخمور فضا ہو جاندی اے
ایہہ گل
تے خاص ہے عام نئیں ، اسی پڑھیا وچ حدیثاں دے
جنہوں
یار دی دید نصیب ہووے اوہنوں دید ِخدا ہو جاندی اے
منگو
صدقہ مدنی ماہی دا ، رب یار دا واسطہ موڑ
دا نئیں
جہڑی
مرضی سوہنے دلبر دی اوہو رب دی رضاہو جاندی اے
1/5/24
یہ ہے چشمِ فیض کا معجزہ میری فکر سود و زیاں گئی ye he chashm e faiz ka mujza with lyrics
یہ
ہے چشمِ فیض کا معجزہ میری فکر سود و زیاں گئی
تیرے
عشق نے وہ کرم کیا کہ تلاش کون و مکاں گئی
بھلا
یہ کسی کا کرم نہیں مجھے جستجوئے حرم نہیں
وہ
فکر مندی تھی واعظاتجھے کیا بتاوں کہاں گئی
نہیں
آشیانِ حوس مجھے نہیں امتیازِ قفس مجھے
کوئی
ایسا راز بتا گیا میری آرزو جہاں گئی
ہے
یہ شکل عرض و نیاز کی ہے نظر در گاہِ ناز کی
کہیں
دل گیا کہیں دیں کہیں سر گیا کہیں جاں گئی
تیرا
شکر کیسے ادا کروں کیوں نماز عشق قضا کروں
مجھے
ایسا سوزِ دروں ملا میری لک لکا ئے زباں گئی
تو
پھنسا ہواہے حجاب میں وہ نہیں ہے حدِ حساب میں
جو
تو قادری کو سمجھ گیا تو خرد کا ساری دکاں گئی