جب
تیری بے رخی اتنی حد سے بڑھی میں نے سمجھا کہ بس انتہا ہو گئی
تو
نے نظریں اٹھا کر جو دیکھا مجھے میرے اشکوں کی قیمت ادا ہو گئی
تو
میرے راستے سے ذراہٹ گیا میرے دل میں تو آتش فشا پھٹ گیا
زندگی
سے مرا رابطہ کٹ گیا جسم سےروح میرے جدا
ہو گئی
بے
سبب ہی نہیں دھڑکنیں بےربط ان کی جانب سے ترک وفا ہو گئی
چل
دیے اٹھ کے وہ سامنے سے مرے میرے گھر میں
بپا کربلا ہو گئی
آ
گئے ہیں مجھے راس زخمِ جگردیجیے چھوڑ مجھ کو مرے حال پر
بے
قراری میں ہی میرا اب ہے سکوں لذتِ درد میری دوا ہو گئی
یہ
ستم کیوں یہ جورو جفا کس لیے ہو گیا ہے تو مجھ سے خفا کس لیے
سر
بھی حاضر ہے لیکن سزا کے لیے ایسی مجھ سے بتا کیا خطا ہو گئی
میری
بے سود ہی رہ گئیں سسکیاں پاس ہو کے بھی وہ سن سکے نا فغاں
کچھ
نا حاصل ہوا تو نہیں یہ بھی کم درد سے روح تو آشنا ہو گئی
تیرے
در سے ہے پایا ہر اک نے صلہ ہم کو رسوائیوں سکے سوا کیا ملا
مل
گئی غیر کو عزتِ دو جہاں ہم کو وحشت ہی وحشت عطا ہو گئی
میرے
منصف ہے انصاف تیرا یہی کیا مساوات کا ہے تقاضا یہی
بات
کرنا میرا جرم سا بن گیا ان کی رسم ستم بھی روا ہو گئی
روح
بے چین میں غم کی دلدل سی ہےدل میں طوفان یہ ایک ہل چل سی ہے
تو
جو بچھڑا تو یوں لگ رہا ہے مجھے زندگی میری مجھ سے خفا ہو گئی
تھا
قیامت کے بارے میں جو بھی سنا ، آج اس کا مجھے بھی یقیں ہو گیا
آپ
نے جوں ہی محفل میں رکھا قدم، تو قیامت ہی ہر سو بپا ہو گئی
تاب
رخ گر نہیں ہے مجھے ساقیا اپنے آنچل سے پوچھو کہ کیوں اٹھ گیا
پھر
چلے گا پتہ جرم کس کا ہے یہ زندگی میری کیسے تباہ ہو گئی
سب
طبیبوں نے مجھ سے کہا لا دوا حل کسی سے نہ نکلا مرے مرض کا
ایک
لمحے میں بس ہو گیا معجزہ ، اس نے دیکھا ادھر اور شفا ہو گئی
اس
کی جانب کیا جب بھی قصد سفر آندھیاں چل پڑیں کیوں مری راہ پر
پہلے
تو لوگ تھے رقیب اے فقیرؔ،اب رقیبوں میں شامل ہوا ہو گئی
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You