عنوان
تحریر: میرے لیے سب کچھ نیا تھا لیکن اب میں خود ایک کانفرنس ہوں
میں
کچھ نہیں جانتا تھا، نہ کبھی کسی سے ڈسکس کیا تھا ، نہ کبھی ایسے سیمینار میں شامل
ہوا تھاکوئی بھی معلومات نہ تھیں ، کیسے سیمینار کا آغاز کیا جاتا ہے ؟ کیسے
سیمینار کو جاری رکھا جاتا ہے؟ ایسے سیمینارز کا رویہ کیسا ہوتاہے؟اس میں آنے
والے معزز مہمان اور شرکاء کا Attitude اور
Behavior کیا
ہوتا ہے؟
for PDF Click Here
میں
تذبذب کا شکار تھا ، اور میرے لیے پریشانی مزید بڑھ گئی کہ جب مجھے ابتدائی سیشن
میں موڈیریٹر (نظامت) کے فرائض سونپ دیے گئے۔ اچھی بات یہ تھی کہ میں کچھ بھی نہ
جاننے کے باوجود انکار نہ کر سکا اور اپنے لیے ایک چیلنج سمجھ کر اس کو قبول کیا۔
صرف یہی نہیں تھا کہ نظامت کو سنبھالنا تھا اس کے ساتھ کانفرنس کے جملہ امور
((شرکاء کی رجسٹریشن، سکالرز کاریکاڈ رکھنا، سکالرز کے ملخصات کا ریکارڈ اور انتظام، سکالرز کی میلز وصول
کرنا ان کو رسپانس کرنا، سکالرز سے رابطے اور ان کی راہ نمائی کرنا، کھانے کے
انتظامات کرنا ، کھانا تقسیم کرنے کےتمام مراحل کو خود واچ کرنا، سکالرز کے
سرٹیفیکیٹ کے جملہ امور (چھپائی، لکھائی، حوالگی) کو لیڈ کرنا، کانفرنس
کے لیے پوسٹرز، سٹینڈیز کو ڈیزائن کرنا اور بروقت ان کو لگوانا اور کانفرنس
ہال کو تیار کرنا)) کو بھی سر انجام دینے
کی ذمہ داری سونپی گئی۔یہ سب کچھ میرے لیے نیا تھا ، زندگی کے ابتدائی اور پہلے
تجربات تھے کہ جن کا نمونہ بھی میری زندگی میں پہلے نہیں تھا۔اس سب کو احسن انداز
میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کانفرنس کی مقررہ تاریخ سے دو ہفتے پہلے روزانہ
رات دو بجےسونا اور صبح اٹھ کر فجر کی نماز پڑھانا معمول تھا یعنی جسے کہتے ہیں نا
کہ دن رات ایک کر دینا بلکل اس کا مصداق بن کر محنت کی اور نتیجہ
اللہ پاک کی ذات پر چھوڑ دیا۔
ایک زمانہ پہلے ایک استاد محترم سے
ایک جملہ سنا تھا کہ ‘‘ متحرک کی حرکت
اور سرعت کا انحصار حرکت دینے والے کی قوت و استعداد پر ہوتا ہے’’
وہ
شخص کیا شخص ہے کہ اس کا حوصلہ !!! واللہ واللہ ۔۔۔۔ اس کا اعتماد !!!! لاجواب ۔۔۔۔ اس کا انداز
ِراہ نمائی !!!بے مثال ۔۔۔۔ اس کا عزم !!! ناقابل شکست۔۔۔۔۔ اس کی قوتِ فیصلہ!!!
خدا کی خاص نعمت۔۔۔۔
جی!! میں اپنی پوری زندگی میں پانچ لوگوں سے متاثر
ہوا ہوں جن میں سے شاید آخری وہ ہیں اُن
کے تاثر کے بعد راقم کو شاید کوئی بھی متاثر نہ کر سکےکیوں کہ ان کے تاثر کا لیول
بہت بلندہے۔
میرے
لیے!! یہ سب کچھ نیا تھا بالکل نیا باخدا
زندگی میں پہلے ان معاملات کی ہوا تک نہ لگی تھی ، اس کیفیت کے باوجود اس شخص کا
مجھ پر اعتماد کرنا بذاتِ خود میرے لیے حیران کن تھا حالانکہ اس شخص کے ساتھ میری
زندگی کی اتنی رفاقت بھی نہیں تھی ( یہاں ان کا مجھ پر اعتماد کرنا) خود ایک حوالے
سے کرامت تھی یا خدا کا کرشمہ تھا۔ اگر وہ یہ سب معاملات خود کرتے تو یقینا ان کے
لیے کوئی مشکل نہ تھے لیکن ان کا یوں اعتماد کرنا اور ذمہ داریاں دینا یقیناً یہ
استاد کا وہ پہلو ہے کہ شاید ہی اس کی کوئی عملی مثال آج کہیں ملتی ہو۔۔۔۔ (کئی
ایسی باتیں ہیں کہ میں حیطۂِ تحریر میں نہیں لاسکتا)
شاگر دکو چار لفظ پڑھا دینا، کتاب میں لکھی عبارت سمجھا
دینا اور سبق یاد کروا دینا، امتحانات کی تیاری کروا دینا اور اچھے نمبروں سے
امتحان پاس کروا دینا ، کیا یہی استاد کے
فرائض ہیں ؟ یا صرف اسی کو استاد کہتے ہیں؟ یقینا استاد ضرور ہوتا ہے لیکن زندگی
کے جملہ مراحل میں سے ایک مرحلہ کو تبدیل کرنے والے کو اگر استاد کہتے ہیں تو
میرا سوال ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کی زندگی کی منازل کا تعین کرکے ان منازل کے
راستے ہموار کر دے اور آپ کو ان راستوں پر چلنا سکھا دے ، ان راستوں کی اونچ نیچ
سے باخبر کر دے ، اس میں پیش آنے والے مصائب و تکالیف کو عملی شکل میں سامنے رکھ
دے تو ایسے شخص کو کیا نام دیا جائے گا ؟؟؟؟؟؟؟
مناسب
وقت میں مناسب سبق دینا ، زندگی کے جس مرحلے میں جس تربیت کی ضرورت ہے وہ تربیت
دینا ، طلبا کی کمزوریوں کو جانچنا ، ان کا احسن انداز میں اظہار کرنا ، ان کو دور
کرنے کے لیے باعزت ذریعہ اپنانا ، تعلیمی و تربیتی پیاس کو بجھانا ، انگلی پکڑ کے
نہیں انگلی سے اشارہ کر کے خود اپنے پاوں پر طالب علم کو چلانا ، طالب علم کے
حوصلے اور عزم کو اوج ثریا بخشنا ، اگر کہیں احساس کمتری ہو تو اس کی بیخ کنی کرنا
۔۔۔۔۔
میری
مراد ہیں:
پروفیسر
ڈاکٹر محمد شہباز منج چیئر مین شعبہ علوم اسلامیہ یونیورسٹی آف
ایجو کیشن لاہور
یہ
سر کا اعتماد تھا کہ کانفرنس ہو ، تو ہوئی۔۔۔ انتظام اچھے ہوں ،تو الحمد للہ اچھے
ہوئے۔۔۔ کوئی کانفرنس میں ان ہونی نہ ہو، تو نہیں ہوئی ۔۔۔ اول تا آخر احسن انداز
میں تکمیل ہو ، تو ہوئی۔۔۔۔ سب کو اعتماد ملے ، تو ملا ، ۔۔۔سب خوش ہوں ، تو ہوئے۔۔۔۔
کس حوالے سے کیسے سر کی تعریف کی جائے؟ ہر
حوالے سے وہ اپنی مثال آپ ہیں وہ مشعل ہیں اساتذہ کے لیے، وہ مینارہ منزل ہیں
طلباء کے لیے۔۔۔۔۔۔
Unity in Diversity: Insights from Prophetic Vision for
World Peace.
الحمد
للہ کانفرس بیس اپریل کو انعقاد پذیر ہوئی جس میں امریکہ، چائنہ، جنوبی کوریا، مصر
، ایران ، ترکی، بوسنیا، کینیڈا ، آسٹریلیا سے سکالرز نے شرکت کی ۔ یہ ایک عظیم
گلدستہ تھا کہ جو انٹرنیشل اور نیشنل سکالرز کے ساتھ سجا ہوا تھا ۔ چند نام میں
ضرور تحریر کرنا چاہو ں گا :
1. Seungmin Chae, Coordinator Department of Religion at HWPL, South Korea
2. Pastor Eldon Jones, Pastor
of Good field Church, Louisville Kentucky/ Founder of the Center for Spiritual
Studies (USA)
3. Prof. Dr. Laieb Youcef, Faculty of Fundamentals of
Religion, Emir Abdelkader University of Islamic sciences, Constantine, Algeria
4. Prof. Garrfield Du Couturier Nichol, McGill
University, Canada
5. Osman Abdelnasser Osman Mostafa, Faculty of
Languages and Translation, Al-Azhar University in Cairo, Egypt
6. Dr. Mohammed Mohammady Al- Shahat Tawfik, Faculty of
Lamguages and Translation, Al-Azhar University, Cairo, Egypt/ Supervisor at
Al-Azhar Observatory for Combating Extremism, Al-Azhar Al-Sharif, Cairo, Egypt
7. Mohammad Abbasi, Faculty member at the Encyclopedia Islamica Foundation,
Tehran, Iran
8. Youang-Soo Ryu, Christian Scholar and Evangelist from South Korea
9. Dr Susic Sejo, scholar from Bosnia/ AP International Islamic
University Islamabad
10. Prof. Dr. Herman Roborgh, Ex
Professor at Melbourne University Australia, Currently working as Professor at
Minhaj University, Lahore
جناب
ڈاکڑ راغب نعیمی (جامعہ نعیمیہ لاہور)
جناب
ڈاکٹر اعلی اکبر الازہری (گیریزن یونیورسٹی لاہور)
جناب
ڈاکر اکرم رانا (پنجاب یونیورسٹی لاہور)
جناب
ڈاکٹر سید سلطان شاہ (جی سی یونیورسٹی
لاہور)
جناب
ڈاکٹر سعید احمد سعیدی (پنجاب یونیورسٹی لاہور)
جناب
ڈاکٹر مطلوب
یہ
وہ سکالرز تھے جو ہمارے معزز مہمان تھے ان کے علاوہ اس کانفرنس میں مقالہ جات پیش
کرنے کے لیے مختلف سکالرز اسلام آباد ، کراچی ، کوئٹہ ، پشاور ، ملتان ، بہاول
پور اور لاہور کی جملہ جامعات سے تشریف لائے اور کانفرنس کے مقاصد اور تھیم کو
سامنے رکھتے ہوئے انتہائی جامع انداز میں اپنے اپنے مخلص پیش کیے۔
ایجوکیشن
یونیورسٹی لاہور کے شعبہ اسلامک سٹڈیز کے معزز
اساتذہ کرام جناب ڈاکر شہزادہ عمران ایوب
،جناب ڈاکٹر محمد سجاد، جناب ڈاکٹر عمران حیات اور ڈاکٹر ابرار احمداعوان نے خصوصی
شرکت کی اور اپنی دل آویز گفت گو سے ہمیں مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا۔معزز
اساتذہ کے ساتھ ساتھ اس جامعہ کے طلبا میں سے ایم فل اسلامک سٹڈیز اور پی ایچ ڈی
اسلامک سٹڈیز کی کلاسز کے سکالرز نے بھی
ملخصات پیش کیے اور اپنی جامعہ کا نام روشن کر نے میں موقع کا خوب فائدہ اٹھایا ۔راقم
الحروف نے بھی ((The Nature of Relationships with Non-Muslims: A Study of
Islamic Studies )) کے عنوان سے
مقالہ پیش کیا جو جلد ہی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحقیق مجلہ میں چھپ کر آپ کو مل
جائے گا۔
ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور کے دیگر طلبا نے بھی بطور خاص اس
میں شمولیت اختیار کی اور انتظامی کمیٹی میں شامل طلبا نے اپنے فرائض بخوبی سر
انجام دیے ، ہر طالب علم کی خوشی اور دلچسپی دیدنی تھی، ہر کوئی ذاتی دل چسپی لے
رہا تھا اور یوں اپنی فرائض سر انجام دے رہا تھا کہ جیسے وہ خود ایک منتظم اعلی ہو
یعنی احساس ذمہ داری بھی دیدنی تھا۔معزز مہمانان گرامی قدر کےاستقبال کا مرحلہ ہو
یا کانفرنس کے پنڈال کا انتظام ہو ، کھانا تقسیم کرنے کے مراحل ہوں یا سرٹیفیکیٹس
حوالے کرنے کا موقع ہو تمام طلبا نے اپنے اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے سر انجام
دیا۔ یقینا ہر طالب علم داد و دہش کا حق دار ہے۔
کانفرنس کو دو سیشنز میں تقسیم کیا گیا تھا پہلا ابتدائی
سیشن کہ جس میں معزز مہمانان گرامی قدر نے اپنی گفت گو کی اور دوسرے سیشن میں
سکالرز نے اپنے اپنےملخصات پیش کیے۔ ابتدائی سیشن میں نظامت کے فرائض میڈم طاہرہ منور ( پی ایچ ڈی سکالر علوم اسلامیہ ایجوکیشن
یونیورسٹی لاہور) اور محمد سہیل عارف
معینی (پی ایچ ڈی سکالر یونیورسٹی آف ایجو کیشن لاہور) نے سر انجام دیے۔اس سیشن
کے صدر کانفرنس جناب Prof. Dr. Herman Roborgh تھے۔ابتدائی
سیشن کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے کیا گیا اور تلاوت کے بعد نعت رسول مقبول ﷺ سے
سامعین کو محظوظ کیا گیا۔ خطابات میں سب
سے پہلے تعارفی اور استقبالیہ خطبہ کے لیے اس کانفرنس کے فوکل پرسن جناب پروفیسر
ڈاکٹر محمد شہباز منج کو دعوت دی گئی ۔ آپ نے تمام مہمانان گرامی کا کانفرنس کو
زینت بخشنے پر شکریہ ادا کیا ۔ بعد ازاں کانفرنس کے تعارف پر سیر حاصل گفت گو کی
اور کانفرنس کے تھیم اور مقاصد کو سامعین کے سامنےپیش کیا ۔ ایک تکثیری معاشرے میں
جناب رسول اللہ ﷺ کی سیرت پاک کی روشنی میں کیسے اتحاد کی فضا کو قائم کیا جا سکتا
ہے اور امن عالم کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ سیرت النبی ﷺ سے احسن انداز میں مثالیں
پیش کر کے سامعین کی علمی تشنگی کا سامان کیا۔پروفیسر صاحب کےبعد Prof. Dr. Herman Roborgh مفصل صدارتی
خطبہ دیا جس میں انہوں نے ‘‘تکثیری معاشرے میں امن عالم کو برقرار رکھنے کے
لیے ہم کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور اس میں تعلیمات نبوی ﷺ کا کیا کردار
ہے ’’ کو موضوع سخن بنایا ۔ان کے بعد پرفیسر ڈاکٹر سید سلطان شاہ نے موجودہ دور
میں کس طرح امن عالم کو برقرار رکھ سکتے ہیں نبوی تعلیمات کی روشنی میں بیان
فرمایا اور اپنی گفت گو کے آخر میں نام نہاد اصلاح پسند ممالک اور تنظیموں کو غزہ
اور فلسطین میں حالیہ قتل و غارت اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر آنکھیں بند
کرنے کے معاملے پر آڑے ہاتھوں لیا۔ سلطان شاہ صاحب کے بعد جنوبی کوریا سے مہمان
مسٹر سیو نے اظہار خیال کیا۔ اس سیشن کے
آخر میں جناب Prof. Dr. Herman
Roborgh کو چیف گیسٹ کی شیلڈ پیش کی گئی اور ڈاکٹر محمد شہباز منج
کو اس کانفرنس کو بطور فوکل پرسن احسن انتظامات کی شیلڈ دی گئی۔
پہلے سیشن کے بعد کھانے کا سلسلہ شروع ہوا تمام مہمانوں اور
سکالرز کو کھانا پیش کیا گیا اور نماز ظہر کی ادائیگی ہوئی۔کھانے میں ہال روڈ
سے مشہوروقاص بریانی اور گورمے کی بوتلیں
پیش کی گئیں۔تمام مہمانوں اور سکالرزنے
بہت مزے سے کھانا کھایا اور کھانے کی تعریف کی۔ اعلی انتظامات پر جملہ ٹیم کو اچھے
الفا ظ سے سراہا۔
دوسرا سیشن کیا گیا اور اس میں تمام سکالرز کے ملخصات پیش
کیے گئے ۔ سب سے پہلے دور دراز سے آنے والے معزز مہمان سکالرز کو موقع فراہم کیا
گیا ۔ پھر یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے سکالر ز نے اپنے اپنے مقالہ جات پیش کیے۔ اور
یہ سلسلہ ۵ بجے تک چلتا رہا ہال میں موجود تمام سکالرز کو برابر وقت میسر تھا۔ہر
ایک سکالر کا مقاملہ ایک دوسرے سے بڑھ کر تھا ۔اچھوتے عناوین کے ساتھ تحقیقی
عبارات سبھی کے قلوب و اذہان میں جگہ بنا رہی تھیں۔ اس حتمی سیشن کے آخر میں سب
کو سرٹیفیکیٹس دیے گئے اس طرح یہ کانفرنس اپنی عمد ہ اور ہمیشہ یاد رہنے والی
یادوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
اس تحریر کے آغاز میں راقم الحروف نے جو اپنے بارے میں
الفاظ درج کیے اب ان کا اختتام اس طرح کرتا ہے کہ وہ جو نا تجربہ کاری تھی ، وہ جو
بے ہمتی تھی، وہ جو فکرکمتری تھی معلوم نہیں ان سب کو موت کب ہوئی ؟ان کا جنازہ کب
نکلا ؟ ان کو کب دفن کیا گیا ؟۔۔۔۔۔۔ اب تو لگتا ہے راقم خود اپنی ذات میں ایک
کانفرنس ہے۔۔۔۔۔۔۔
جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد شہباز منج کے لیے ایک شعرہے۔ شعر
قبول کر کے اس کی سند عطا فرمائیں گے۔۔
خود سے چل کر نہیں یہ طرزِ سخن آیا ہے۔۔۔پاؤں استادوں کے
دابے ہیں تو فن آیا ہے
یہ سب ان عظیم ، حقیقی معنوں میں محترم اساتذہ کرام کی مرہون منت ہے۔۔
گر قبول افتد زہے عز و شرف
راقم الحروف
محمد سہیل عارف معینیؔ
پی ایچ ڈی سکالر یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور