بڑھ
گیا عالم وحشت تیری تنہائی کا
فائدہ
خاک ہوا تیری مسیحائی کا
واسطہ
تجھ کو تیرے جلوۂ زیبائی کا
حال
آ دیکھ ذرا کیا تیرے شیدائی کا
زور
ٹوٹا میری آہوں کی توانائی کا
نا
پتہ پھر بھی چلا در د کی گہرائی کا
میں
تیرے گیسوئے خم دار سے بچ نکلا بھی تو
کیا
کروں گا میرے دلبر تیری انگڑائی کا
اپنا
غم دے کے گئے مجھ کو بہلنے کے لیے
اور
حل نکلا نہ ان سے میری تنہائی کا
جب
دوا سے نہ دعا ہی سے کوئی بات بنی
یادآیا
تیری نظروں کی مسیحائی کا
نام
تو لے لوں سرِ بزم تیرا میں لیکن
بن
نا جائے کہیں موجب تیری رسوائی کا
چلو
رسما سہی مدفن پہ میرے آ تو گئے
مل
گیا کچھ تو ثمر میری شکیبائی کا
اس
کے ہاتھوں سے میرا قتل ہوا ہے افسوس
جس
کے ہاتھوں میں ہے اعجاز مسیحائی کا
عصمت
و جاں کی بھی پروا ہ عبث ٹھہر گئی
کہ
تقاضا ہے یہی عشقِ زلیخائی کا
مجھ
کو اس عشق نے برباد کیا ہے آخر
دور
تک کیوں نہ ہو چرچا میری رسوائی کا
اس
میں بے خرد ہی پاتے ہیں فنا کے گوہر
وادیٔ
عشق میں کیا کام ہے دانائی کا
میں
جو میں ہوں یہ نہیں میں کہ اصل میں تم ہو
کھل
گیا بھید بھی آخر تیری یکتائی کا
اپنی
تصویر تھما کر کہا قاصد سے فقیر
ہم
کو احساس ہے کہنا تیری تنہائی کا
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You