نیت
لوگوں کی موت کے احوال
الَّذِیْنَ
تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ طَیِّبِیْنَۙ-یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ
عَلَیْكُمُۙ-ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(سورۃ النحل:32)
فرشتے
ان کی جان پاکیزگی کی حالت میں نکالتے ہوئے کہتے ہیں : تم پر سلامتی ہو،تم اپنے
اعمال کے بدلے میں جنت میں داخل ہوجاؤ۔
(صحیح مسلم:6824) مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللهِ أَحَبَّ اللهُ
لِقَاءَهُ ، وَمَنْ کَرِهَ لِقَاءَ اللهِ کَرِهَ اللهُ لِقَاءَهُ۔
(صحیح بخاری: 7504) قَالَ : قَالَ اللهُ إِذَاأَحَبَّ عَبْدِي لِقَائِي
أَحْبَبْتُ لِقَائَهُ
جو
اللہ سے ملاقات کرنا چاہیں اللہ ان سے ملاقات کرنا چاہے گا اور جو نہیں چاہیں گے
اللہ بھی ان سے نہیں چاہے گا ۔۔۔ اس سے آگے (ترمذی :1067) عرض کی گئی
پھر تو موت کی ہی صورت ہے لیکن کون مرنا چاہتا ہے کوئی بھی نہیں ۔۔ تو فرمایا نہیں دراصل ، جب موت طاری ہوتی ہے نزع کا عالم
ہوتا ہے تو نیک بندے کو اس کی راہیں اس کی منزلیں اس کے مقابر اس کی حویلیاں دکھا
دی جاتی ہیں) وَلَكِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا بُشِّرَ بِرَحْمَةِ اللَّهِ
وَرِضْوَانِهِ وَجَنَّتِهِ، أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ وَأَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ،( اور وہ جانا
چاہتا ہے تو اللہ بھی شوق رکھتا ہے لیکن بد آدمی کو انجام دکھایا جاتا ہے تو نا
جانے ہر اصرار کرتا ہے تو اللہ بھی دھدکار دیتا ہے۔
·
حضرت فاطمہ ؓ خوش ہوئیں جب آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم مجھے سب
سے پہلے ملو گی تو گویا ،،، موت بھی ایسی کہ محبوب سے ملاقات ہو گی تو موت بھی
خوشی کا سامان ہے
·
حضرت بلال ؓ کا واقعہ فرمایا کیوں پریشان ہو آج تو محبوب
کی محبوب سے ملاقات کا دن ہے۔
کون
کہتا ہے کہ مومن مر گئے
قید
سے چھوٹےوہ اپنے گھر گئے
·
فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَـآءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ
عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٓ ٖ اَحَدًا (سورۃ الکھف:۱۱۰)
(صحیح مسلم :7221) ابوہریرہ : وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَائِ رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَائَتْ
مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْکِ وَعَلَی جَسَدٍ کُنْتِ
تَعْمُرِينَهُ
آسمان
والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالیٰ تجھ پر اور اس جسم
پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے
موت
کی لذت جو شہید کو آتی ہے
(صحیح بخاری:2795) أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ
صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ عَبْدٍ يَمُوتُ لَهُ عِنْدَ
اللَّهِ خَيْرٌ يَسُرُّهُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَی الدُّنْيَا وَأَنَّ لَهُ الدُّنْيَا
وَمَا فِيهَا إِلَّا الشَّهِيدَ لِمَا يَرَی مِنْ فَضْلِ الشَّهَادَةِ فَإِنَّهُ
يَسُرُّهُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَی الدُّنْيَا فَيُقْتَلَ مَرَّةً أُخْرَ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندوں میں سے
جو کوئی مرتا ہے اللہ کے پاس اس کے لئے کچھ بھلائی ہےتو وہ نہیں چاہتا کہ دنیا کی
طرف لوٹ آئے چاہے اسے دنیا کی ہر چیز دے دی جائے۔ مگر شہید بوجہ اس کے کہ وہ شہادت
کی فضیلت دیکھتا ہے لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ دنیا کی طرف واپس لوٹ آئے اور دوبارہ پھر
قتل کیاجائے۔
جابر
بن عبد اللہ نے عرض کیا(جامع ترمذی :3010) میرا باپ اولاد اور قرض چھوڑ کے شہید ہوا
میں بہت پریشان ہوں تو حضور ﷺ نے فرمایا:مَا
كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ،وَأَحْيَا أَبَاكَ
فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا، فَقَالَ: يَا عَبْدِي، تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ، قَالَ:
يَا رَبِّ، تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيكَ ثَانِيَةً، قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ:
إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ، قَالَ:
وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ
اللَّهِ أَمْوَاتًا
کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ سناؤں جس کے
ساتھ اللہ تعالیٰ تمہارے والد سے ملاقات کی عرض کیا کیوں نہیںیا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کے
علاوہ ہر شخص سے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی لیکن تمہارے والد کو زندہ کر کے ان سے
بالمشافہ گفتگو کی اور فرمایا اے میرے بندے تمنا کر۔ تو جس چیز کی تمنا کرے گا میں
تجھے عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ مجھے دوبارہ زندہ کر دے تاکہ میں
دوبارہ تیری راہ میں قتل ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری طرف سےفیصلہ ہو چکا
کہ یہ سب دنیا میں واپس نہیں بھیجےجائیں گے۔‘‘
عَنِ الْبَرَاءِ
بْنِ عَازِبٍ (حدیث نمبر 18534)، )اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ
الْقَبْرِ("پھر فرمایا کہ بندہ مؤمن جب دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر
جانے کے قریب ہوتا ہے.) نَزَلَ
إِلَيْهِ مَلَائِكَةٌ مِنَ السَّمَاءِ بِيضُ الْوُجُوهِ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمْ الشَّمْسُ،
مَعَهُمْ كَفَنٌ مِنْ أَكْفَانِ الْجَنَّةِ، وَحَنُوطٌ مِنْ حَنُوطِ الْجَنَّةِ، حَتَّى
يَجْلِسُوا مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ عَلَيْهِ السَّلَام
حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ، اخْرُجِي
إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ")(( یہ الفاظ میرے (سہیل) ہیں: گویا کہتے ہیں یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ
الْمُطْمَىٕنَّةُ(27)ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً(28) الفجر())، قَالَ:"
)فَتَخْرُجُ تَسِيلُ كَمَا تَسِيلُ الْقَطْرَةُ مِنْ فِي السِّقَاءِ(جس فرشتے کے پاس سے گزرتے ہیں وہ پوچھتا ہے مَا هَذَا الرُّوحُ الطَّيِّبُ؟! فَيَقُولُونَ: فُلَانُ بْنُ
فُلَانٍ،جب ساتوں آسمانوں
سے اوپر اللہ کے پاس پہنچتے ہیں تو اللہ پاک فرماتا ہے:(فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: اكْتُبُوا كِتَابَ عَبْدِي
فِي عِلِّيِّينَ)۔اسے زمین میں واپس کر
آو گویا اس کی روح واپس لوٹا دی جاتی ہے۔قَالَ:"(
فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ) ،فرشتے آتے ہیں سوال کرتے ہیں سوالات کے بعد
آسامن سے آواز آتی ہے ( فَيُنَادِي مُنَادٍ فِي السَّمَاءِ: أَنْ صَدَقَ عَبْدِي،
فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا
إِلَى الْجَنَّةِ". قَالَ:" فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا، وَيُفْسَحُ
لَهُ فِي قَبْرِهِ مَدَّ بَصَرِهِ")
سر
اٹھا کر فرمایا اللہ سے عذاب قبر سے بچنے کے لئے پناہ مانگو، (تو اس کے آس پاس سے
روشن چہروں والے ہوتے ہیں آتے ہیں ان کے پاس جنت کا کفن اور جنت کی حنوط ہوتی ہے
تاحد نگاہ وہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور
کہتے ہیں اے نفس مطمئنہ! اللہ کی مغفرت اور خوشنودی کی طرف نکل چل چناچہ اس کی روح
اس بہہ کر نکل جاتی ہے جیسے مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ بہہ جاتا ہے) ( کہ یہ
پاکیزہ روح کون ہے؟ وہ جواب میں اس کا وہ بہترین نام بتاتے ہیں۔( میرے بندے کا
نامہ اعمال " علیین " میں لکھ دو) (چناچہ اس کی روح جسم میں واپس لوٹادی
جاتی ہے) (آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا اس کے لئے جنت کا
بستر بچھادو اسے جنت کا لباس پہنادو اور اس کے لئے جنت کا ایک دروازہ کھول دو
چناچہ اسے جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آتی رہتیں ہیں اور تاحد نگاہ اس کی قبر وسیع
کردی جاتی ہے)
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You