حدیث
اور مستشرقین
سترھویں،
اٹھارویں اور کسی حد تک انیسویں صدی کے آغاز میں مستشرقین کی جو کتابیں منصہ شہود
پر آئیں، ان میں بیشتر حملے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر
کیے گئے ۔اس مہم کے قافلہ سالار مشہور مستشرق سر ولیم میور(م ۱۹۰۵ء)
(Sir william Muir) ہیں جنھوں نے چار جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب
The Life of Muhammad میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو ہدفِ تنقید
بنایا۔سر سید احمد خان نے ’’ خطباتِ احمدیہ‘‘ میں مستشرق مذکور کے اعتراضات کاعلمی
اسلوب میں جواب دیا۔
سیرت کے محاذ پر جب مستشرقین کو منہ کی کھانی پڑی تو انھوں نے
اپنا رخ قرآن مجید کی طرف موڑ دیا اوران لوگوں نے ان تمام اعتراضات کو
قرآن پرلوٹانے کی کوشش کی جو عام طور پر بائیبل پر کیے جاتے ہیں ۔ اس مہم کا آغاز
جارج سیل (Gorge Sale) نے "The Koran"سے کیا
اورمعروف آسٹریلوی مستشرق آرتھر جیفری نے اس تحریک کو نقطۂ عروج تک پہنچایا ۔
موصوف نے اپنی کتابوںمیں قرآن کے متن کے غیرمحفوظ ہونے کے اعتراضات اٹھائے،سابقہ
امم کے حالات و واقعات جو یہود و نصاری کی کتب سے ماخوذ لیکن مستشرقین کی یہ مہم
بھی بہت جلد کمزور ہوگئی۔ صرف چالیس پچاس سال کی محنت کے بعد ہی مستشرقین کو
اندازہ ہوگیا کہ قرآن اتنی مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے کہ اس کو محض الزامات سے
ہلانا ممکن نہیں۔
اب ایک اور مہم شروع ہوئی اور ان لوگوں نے اپنا رخ حدیثِ
رسول کی طرف کرلیا ، لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ مستشرقین نے سیرت
اورقرآن پر اعتراضات سے کلی طور پر صرفِ نظر کر لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اب
بھی سیرت اور قرآن پر اعتراضات کرتے ہیں، لیکن ان میں اب وہ پہلے جیسی شدت نہیں ہے
۔ حالات کے جبر نے مستشرقین کو مجبور کیا کہ وہ اسلام کے خلاف کسی اور محاذ پر نئی
صف بندی کریں چنانچہ انھوں نے قرآن کے بعد اسلام کے دوسرے بنیادی مأخذ حدیثِ رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کو تختۂ مشق بنانے کا فیصلہ کیا ۔
ڈاکٹر اسپرنگر (Sprenger) نے تین جلدوں میں سیرت پر کتاب لکھی تو اس میں حدیث کی روایت اور
اس کی حیثیت پر بھی تنقید کی۔ سرولیم میور نے سیرت پر اپنی کتا ب میں حدیث
پر اس بحث کو مزید آگے بڑھایا ، لیکن حدیث پر جس شخص نے سب سے پہلے تفصیلی بحث کی
،وہ مشہور جرمن مستشرق گولڈ زیہر (م ۱۹۲۱ء)
(Gold Zehr)ہے۔ اس نے اپنی کتاب "Muslim Studies"کی دوسری
جلد میں علمِ حدیث پر تجزیاتی انداز میں تنقید کی ہے۔ بعد کے دور میں تمام مستشرقین
نے گولڈ زیہر ہی کے اصولوں کا اتباع کیا ہے۔ پروفیسر الفرڈ گیوم (Alfred Guillaume)نے اپنی کتاب "Islam" اور "Traditions of Islam"میں گولڈ زیہر کی تحقیق کو آگے بڑھایا ہے۔
جوزف شاخت (Joseph Schacht)نے اپنی کتاب "The Origins of Muhammadan Jurisprudence" میں گولڈ زیہر کے
اصولوں کی روشنی میں اسلامی قانون کے مصادر ومنابع کاتجزیہ کیا ہے اور حدیث کے
ظہور اور ارتقا پر بحث کرتے ہوئے حدیث کی نبوی کی ؑ حیثیت کو مشکوک قرار دیا ہے۔اس
کے علاوہ مارگولیتھ (م ۱۹۴۰ء) (Margoliouth)، رابسن(Robson)، گب(م
۱۹۶۵ء)(Gibb)،ول ڈیورانٹ(م
۱۹۸۱ء)
(Will Durant)،آرتھر جیفری (Arthur Jaffery)، منٹگمری
واٹ (م ۱۹۷۹ء)(Montgomery
Watt) ، وان کریمر (Von Kremer)، کیتانی (Caetani) ،اور نکلسن(Nicholson) وغیرہ نے بھی
اپنے حدیث مخالف نظریات پیش کیے۔
مستشرقین میں سے علمِ حدیث پر بنیادی کام گولڈ زیہراورشاخت
ہی کا ہے۔ یہ دونوں یہودی ہیں اوران کا تعلق جرمن سے ہے۔ جن دیگر مستشرقین
نے حدیث نبوی کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا ہے، انھوں نے اسلامی مصادر سے براہِ
راست استفادہ کرنے کی بجائے زیادہ تر گولڈ زیہر اور شاخت کی تحقیقات کو ہی اپنے خیالات
کی بنیادبنایا ہے ۔ آزادانہ تحقیق کے دعوے دار مغربی اہلِ علم کے اس اسلوبِ تحقیق
پرجسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ (م۱۹۱۸ ۔۱۹۹۸ء) تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’حیرت کی بات ہے کہ اصولِ حدیث اور تاریخِ حدیث پر مسلمانوں
کی بے شمار کتابیں دنیا کی لائبریریوں میں موجود ہیں۔ حدیث طیبہ کے بارے مسلمانوں
کا جو موقف ابتدا سے رہا ہے، وہ ہر دور کی تصانیف میں درج ہے لیکن مستشرق محققین
نہ تو مسلمانوں کے موقف کی طرف اپنی توجہ مبذول کرتے ہیں اور نہ ہی حدیث کے متعلق
مسلمانوں کے چودہ سو سالہ ادب کو کوئی اہمیت دیتے ہیں، بلکہ ان پر جب حدیث کے
متعلق تحقیق کا بھوت سوار ہوتا ہے تو گولڈ زیہر اور اس کے نقالوں کی تصانیف کو ہی
قابلِ اعتماد مصادر قرار دیتے ہیں۔‘‘
اعتراضات:
حجت: مستشرقین
نے حدیث کے بارے میں یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ دورِ اوّل کے مسلمان
حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے ،مسلمانوں میں یہ خیال بعد کے دور میں پیدا ہوا۔ (7)
جوزف شاخت نے لکھا ہے کہ امام شافعی ؒ (م ۲۰۴ھ) سے دو پشت پہلے
احادیث کی موجودگی کا کوئی اشارہ ملتا ہے تو یہ شاذ اور استثنائی واقعہ ہے۔ (8)
آرتھر جیفری (Arthur Jeffery)کہتا ہے کہ پیغمبر ؑ کے انتقال کے بعد ان کے
پیرو کاروں کی بڑھتی ہوئی جماعت نے محسوس کیا کہ مذہبی اور معاشرتی زندگی میں بے
شمار ایسے مسائل ہیں جن کے متعلق قرآن میں کوئی راہنمائی موجود نہیں ہے،لہٰذا ایسے
مسائل کے حل کے لیے احادیث کی تلاش شروع کی گئی۔
اعتراض کا جائزہ اور جواب: (( اللہ تعالی نے احادیث طیبہ کی اہمیت اور حجیت کو قرآن
حکیم کے ذریعے بیان کردیا۔ قرآن حکیم کی بے شمار آیتیں احادیث طیبہ کی اہمیت کو
ثابت کر رہی ہیں۔ مستشرقین کی ایک معقول تعداد اب یہ تسلیم کرتی ہے کہ آج مسلمانوں
کے ہاتھوں میں جو قرآن ہے ، یہ بعینہ وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی
امت کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس لیے وہ قرآن حکیم کی کسی آیت کے متعلق یہ نہیں کہہ
سکتے کہ یہ بعد کے مسلمانوں نے خود گھڑی ہے ۔جب قرآن حکیم کی بے شمار آیات کریمہ
احادیث طیبہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت کو بیان کرر ہی ہیں تو یہ کیسے
ممکن ہے کہ دورِ رسالت کے مسلمانوں نے احادیثِ طیبہ کو کوئی اہمیت نہ دی ہو اور صدی،
ڈیڑھ صدی بعد مسلمانوں کو مجبوراً احادیث کی طرف متوجہ ہونا پڑا ہو؟۔ قرونِ
اولیٰ کے مسلمانوں کے متعلق مستشرقین سمجھتے ہیں کہ قرآن حکیم کی بے شمار آیات
جو اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دے رہی تھیں، ان آیات کی طرف ان کی توجہ
ہی نہ تھی۔ یہ بات محض من گھڑت اور اسلامی تاریخ سے چشم پوشی کے مترادف ہے کیوں کہ
ہر زمانے کے مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض سمجھتے تھے، قرآن حکیم
کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کو ضروری
سمجھتے تھے ، وہ احکامِ قرآنی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونے کی روشنی
پر عمل کرتے تھے، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم کتاب و حکمت اور مزکئ قلوب
سمجھتے تھے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ وہ جس طرح قرآن حکیم کو دین کا اول مصدر سمجھتے
تھے، اسی طرح وہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور احادیثِ طیبہ کو دین کا مصدرِ
ثانی سمجھتے تھے))
سند پر اعتراضات: مستشرقین نے اسناد کے من گھڑت ہونے کا اعتراض کرکے احادیث
کو ناقابلِ اعتبار قرار دینے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ اُس دور میں لوگ مختلف
اقوال اور افعال کو محمد ؑ کی طرف منسوب کردیا کرتے تھے ۔کتانی (Caetani) (10) اور اسپرنگر (Springer) (11) ان مستشرقین میں
شامل ہیں جن کے نزدیک اسناد کاآغاز دوسری صدی کے آواخر یا تیسری صدی کے شروع میں
ہوا۔گولڈ زیہر موطأ امام مالک ؒ پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ امام مالک ؒ (م ۱۷۹ھ)
نے اسناد کی تفصیل بیان کرنے کے لیے کوئی مخصوص طریقہ اختیار نہیں کیا بلکہ اکثر و
بیشتر وہ عدالتی فیصلوں کے لیے ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جن کا سلسلۂ اسناد صحابہ
تک ملا ہوا نہیں اور اس میں متعدد خامیاں ہیں۔ (12) جبکہ جوزف شاخت کا کہنا ہے کہ
اس مفروضے کو قائم کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اسناد کے باقاعدہ استعمال کارواج
دوسری صدی ہجری سے قبل ہو چکا تھا۔(13) منٹگمری واٹ (Montgomery Watt)نے اسناد کے
مکمل بیان کو امام شافعی ؒ (م ۲۰۴ھ) کی تعلیمات کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
اعتراض کا جائزہ اور جواب: ((اس بات سے انکار نہیں کہ دشمنانِ اسلام نے سنتِ رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کے چشمۂ صافی کو گدلا کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے ایسی باتوں کو
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کی کوشش بھی کی جو آپ نے نہ فرمائی تھیں،
لیکن صورتِ حال یہ نہ تھی کہ ایسے کم بختوں کی مذموم کارروائیوں کو کسی نے روکا نہ
ہو ۔ حدیث گھڑنے والے گھڑتے رہے، لیکن وہ لوگ جن کی نظریں قرآن حکیم کی ان آیات پر
تھیں جو کسی خبر پر یقین کرنے سے پہلے تحقیق کرنے کا سبق دیتی ہیں یا جو افتراء علی
اللہ کو ظلم عظیم قرار دیتی ہیں اور جن لوگوں کی نظریں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
اس حدیث پاک پر تھیں جو جھوٹی حدیث گھڑنے والوں کو دوزخ کا ٹھکانا دکھا رہی ہے، ایسے
لوگوں نے کبھی ان لوگوں کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیا جو احادیث طیبہ کے چشمۂ
صافی کو گدلا کرنا چاہتے تھے ۔قرآن حکیم نے انہیں فاسق کی خبر کے متعلق محتاط رہنے
کا حکم دیا تھا۔ اسماء الرجال جیسے فن
کی ایجاد کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے جس میں دنیا کی کوئی قوم ان کی ہمسری کا دعویٰ
نہیں کرسکتی۔ اس علم کی بدولت محدثین نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کے شب و روز،
ان کے اخلاق و کردار اور ان کے اندازِ زیست کا ریکارڈ جمع کردیا اور ہر خبر کے راویوں
کے سلسلے کا کھوج لگایا تاکہ یہ پتہ چلایا جاسکے کہ کسی حدیث کے سلسلۂ سند میں کسی
فاسق و فاجر اور کذاب کا نام تو نہیں آتا۔ محدثین کی ان عظیم الشان کوششوں کا
اعتراف مستشرقین نے بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر اسپرنگر (Springer) اس حوالے سے
مسلمانوں کے اس علمی میدان کی ایجاد کا کھلے دل سے اعتراف کرتا ہےا ورسراہتا ہے۔
حدیث کے مضامین اور تعلیمات پر
اعتراض: مستشرقین
نے قرآن مجید کی طرح احادیث پر بھی یہ اعتراض کیا ہے کہ بہت ساری روایات یہودو
نصاریٰ کی کتب سے متأثر ہوکر گھڑی گئی ہیں ۔وہ احادیث جن میں حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کی کسی معجزانہ شان کا ذکر ہے،ان پر تبصرہ کرتے ہوئے ول ڈیورانٹ(م ۱۹۸۱ء) (Will
Durant)کہتاہے کہ
بہت ساری احادیث نے مذہبِ اسلام کو ایک نیارنگ دے دیا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ ان کے پاس معجزات دکھانے کی قوت ہے ، لیکن سینکڑوں
حدیثیں ان کے معجزانہ کارناموں کا پتہ دیتی ہیں جس سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے
کہ اکثر احادیث عیسائی تعلیمات کے زیر اثر تشکیل پذیر ہوئیں۔ (15) اس قسم کا دعویٰ
کرنے والوں میں فلپ کے حتی
(Philip.K.Hitti) بھی
قابلِ ذکرہے۔
اعتراض کا جائزہ اور جواب: ((رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ کتاب کی اتباع اور
اقتدا سے سختی سے منع کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم کی ہو بہو پیروی کرو گے،
حتیٰ کہ اگر وہ بجو کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھسو گے۔ لوگوں نے
کہا: یا رسول اللہ ! آپ کی مراد یہود ونصار یٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا: تو اور کس سے
ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ ایسے اعمال سے بچتے رہے جن سے یہود و نصاریٰ سے
مشابہت پیدا ہوتی ہے ۔ صحابہ کرامؓ نے ہمیشہ اس بات کی حوصلہ شکنی کی کہ لوگ قرآن
کی موجودگی میں اہلِ کتاب کی روایات کو آگے بیان کریں۔ حضرت عمر فاروقؓ کو علم ہوا
کہ ایک شخص کتابِ دانیال دوسروں کو نقل کرواتا ہے تو آپؓ نے اس کو بلایا اس کی
پٹائی کی اور حکم دیا کہ جو کچھ اس نے لکھا ہے اس کو مٹا دے اور وعدہ کرے کہ آئندہ
نہ تو وہ اس کتاب کو پڑھے گا اور نہ ہی کسی کو پڑھائے گا اور پھر حضرت عمر فارووقؓ
نے یہود و نصاریٰ کی کتب کے نقل کرنے کی ممانعت کے سبب کے طور پر خود اپنا واقعہ بیان
کیاکہ ایک موقع پر جب انھوں نے یہی عمل کیا تھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے اس پر شدید غصے اور ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ اس لیے مستشرقین کے اس اعتراض میں کوئی حقیقت
نہیں ہے کہ احادیث کا مأخذ بائیل اور اسرائیلی روایات ہیں ۔
کتابت حدیث ، احادیث مبارکہ
ضائع ہوئیں ، یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فرمان محمد ﷺ ہے: مستشرقین
کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کی کتابت سے منع کردیا
تھا، اس لیے دورِ اوّل کے علما نے علمِ حدیث کی حفاظت میں سستی اور لاپرواہی سے
کام لیا جس کے نتیجہ میں احادیث یا تو ضائع ہوگئیں یا پھران میں اس طرح کا اشتباہ
پیدا ہوگیا ہے کہ پور ے یقین کے ساتھ کہنا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان
ہے ، ممکن نہیں ہے۔مستشرق الفرڈگیوم (Alfred
Guillaume) لکھتا ہے کہ یہ
ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حدیث کے بعض مجموعے اموی دورکے بعد جا کر مدون ہوئے۔
(17) مشہور مستشرق میکڈونلڈ (Macdonold) لکھتا ہے کہ بعض محدّثین کا صرف زبانی حفظ
پر اعتماد کرنا اور اُن لوگوں کو بدعتی قرار دینا جو کتابتِ حدیث کے قائل تھے، یہ
طرزِ عمل بالآخر سنّت کے ضائع ہونے کا سبب بنا۔
اعتراض کا جائزہ اور جواب:
((مسلمانوں نے حدیث طیبہ کی حفاظت کے لیے صرف تدوین حدیث کے طریقے پر ہی اکتفا نہیں
کیا بلکہ انہوں نے اس کار خیر کے لیے متعدد ایسے طریقے اپنائے ہیں جن کی مستشرقین
کو ہوا بھی نہیں لگی۔ مستشرقین کے ساتھ مباحثے میں ضروری نہیں کہ ہم ہمیشہ اسی
محاذ پر ان کا مقابلہ کریں جس محاذ کو وہ خود منتخب کریں۔ اگر تدوین کے بغیر دینی
پیغام کی حفاظت کا کوئی طریقہ مستشرقین کے ہاں مروج نہیں تو یہ ان کا قصور ہے ، ہم
ان کی اس کوتاہی کی وجہ سے امت مسلمہ کی ان خصوصیات کو کیوں نظرانداز کردیں جو اس
ملت کا طرۂ امتیاز ہیں؟‘‘ (35) عربوں کے بے مثل حافظے کے ساتھ ساتھ ان کو اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو والہانہ محبت تھی، اس کی بنا پر انھوں نے آپ
کے اقوال کو اپنے دل و دماغ میں پوری طرح محفوظ کرلیا ۔ ’’حدیثِ تقریری ‘‘ اور
سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت میں مفہوم کی یکسانیت کے باوجود الفاظ کا
مختلف ہوجانا عین ممکن ہے لیکن جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کا
معاملہ ہے، اگرچہ ان کی روایت میں محدثین نے صحابہ کرامؓ کے لیے روایت بالمعنی کے
جواز کو تسلیم کیا ہے، کیونکہ وہ رسولِ خدا کے براہِ راست مخاطب ہونے کی وجہ سے
مرادِ رسول کو پوری طرح سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود صحابہ کرامؓ جس لفظی صحت کے
ساتھ ان اقوال کو محفوظ رکھتے تھےوہ بھی بے مثل ہے اس حوالے سے چند ایک واقعات
بیان کیے جاتے ہیں جو کہ اسلامی تاریخ میں عین حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں۔
کتابتِ حدیث کی ممانعت والی روایات منسوخ ہیں، کیونکہ ان
روایات کا سیاق و سباق ، تاریخی پس منظر اور دیگر شواہداس مؤقف کی تائید کرتے ہیں
اور پھر صحابہ کرامؓ کی کثیر تعدادکا کتابتِ حدیث کی طرف عملی رجحان ان احادیث کے
مفہوم کو متعین کرنے میں ہمارے لیے حجت ہے۔))
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You