...
....
وظائف
مختلف وظائف کے لیے کلک کریں
دار المطالعہ
اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں
گوشہءِ غزل
بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں
7/22/24
7/21/24
فلسفہ شہادت امام حسینؓ | پیغام کربلا | انسانی بنیادی حقوق
ارشاد باری تعالی ہے : وَقُلْنَا
اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ
وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ ۔۔ زمین
میں چلے جاو اور ایک مقررہ مدت تک رہنا بھی ہے اور ساز و سامان بھی ہے یعنی جینے
کا حق یعنی سیاست کا حق یعنی آزادی کا حق اور معاشی حق ہے جو کہ حضرت انسان کی اس
دنیا میں آمد کے ساتھ ہی اللہ تعالی نے اعلان کر دیا تھا کہ جینا بھی اور دنیا کے
مال سے برتنا بھی ہے۔۔۔ یہ بنیادی حقوق ہیں ۔ ۔۔ سیاسی آزادی
، معاشی آزادی ، سیاسی عدل و انصاف ، معاشی عدل و انصاف ہی اللہ تعالی کا نظام ہے۔۔
فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ
مِّنِّىْ هُدًى فَمَنْ تَبِــعَ هُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا
هُـمْ يَحْزَنُـوْنَ۔ کامیابی کی ضمانت اور
گارنٹی صرف اسی طریقہ کار میں ہے جو میں دنیا میں میں بھیجوں گا جو میرا بتایا ہوا
طریقہ ہے وہی کامیابی کا طریقہ ہے اور وہی لوگ بے خوف و خطر ہوں گے جو میرے نظام
کو لے کر چلیں گے۔ (جناب فاروق اعظم کا تذکرہ ننگی ریت پر سونا بغیر سکیوڑٹی گارڈز
اور لمبی لمبی گاڑیوں کی قطاروں کے بغیر سفر کرتے تھے۔کیا اس وقت ان کے دشمن نہ
تھے کیا ان سے نفرت کرنے والے نہ تھے ، موجود تھے لیکن جناب فاروق پر امن کیوں تھے
؟ وجہ یہ تھی کہ انہوں نے نظام الہی اور عدل و انصاف کو اپنایا تھا ، لوگوں کو ان
کے حقوق دیے تھے ، یہی وجہ تھی کہ وہ پر امن تھے اور سکون سے سویا کرتے تھے۔)
جب انبیائے کرام علیھم
السلام اللہ تعالی کی وحدانیت کا ذکر کرتے تھے، اعلان کرتے تھے تو قوم کے وڈیرے
اور سرمایہ دار ہی کیوں پیغمبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور غریب ہی کیوں پیغمبر
کے اردگرد اکٹھے ہوتے تھے ؟؟؟؟؟؟
پیغام توحید صرف اللہ کے
سامنے جھکنا نہیں تھا بلکہ باطل کے سامنے ڈٹ جانا اور حقوق العباد (سیاسی اور
معاشی )کی بحالی تھا،اعلان توحید صرف عقائد کی اصلاح نہیں تھا بلکہ نظام
الہی کا احیا اور اعلاء کلمۃ اللہ تھا،یعنی نظام خداوندی کا اعلا
اور احیا تھا۔ آئیے قرآن مجید میں انبیائے کرام علیھم السلام کی بات کرتے
ہیں:
حضرت نوح علیہ السلام
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُـوْحًا
اِلٰى قَوْمِهٓ ٖ اِنِّـىْ لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ (25)
فَقَالَ الْمَلَاُ الَّـذِيْنَ
كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا نَرَاكَ اِلَّا بَشَـرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ
اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّـذِيْنَ هُـمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِىَ الرَّاْىِۚ
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٓ
حضرت ہود علیہ السلام
وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُـمْ هُوْدًا
قَالَ الْمَلَاُ الَّـذِيْنَ
كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٓ
حضرت صالح علیہ السلام
وَاِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُـمْ صَالِحًا
ۗ
قَالَ الْمَلَاُ الَّـذِيْنَ
اسْتَكْـبَـرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّـذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ
مِنْـهُـمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صَالِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ
قَالَ الَّـذِيْنَ
اسْتَكْـبَـرُوٓا اِنَّا بِالَّـذِىٓ اٰمَنْتُـمْ بِهٖ كَافِرُوْنَ
حضرت شعیب علیہ السلام
وَاِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُـمْ شُعَيْبًا
فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْـزَانَ
وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَآءَهُـمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ بَعْدَ
اِصْلَاحِهَا ۚ(تاجر برادری اور بزنس کمیونٹی کو چیلنج
کیا)
قَالَ الْمَلَاُ الَّـذِيْنَ
اسْتَكْـبَـرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا
مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَـآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِىْ مِلَّتِنَا ۚ
حضرت موسی علیہ السلام
ثُـمَّ بَعَثْنَا مِنْ
بَعْدِهِـمْ مُّوْسٰى بِاٰيَاتِنَـآ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهٖ
وَقَالَ مُوْسٰى يَا فِرْعَوْنُ
اِنِّـىْ رَسُولٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِيْنَ (104)
حَقِيْقٌ عَلٰٓى اَنْ لَّآ
اَقُوْلَ عَلَى اللّـٰهِ اِلَّا الْحَقَّ ۚ قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَيِّنَةٍ مِّنْ
رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِىَ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ (105)
سارے پیغمبر ظلم و ستم ،
استحصالی ، اور تفریقی معاشرے اور پورے نظام کے خلاف اعلان جنگ کرتے تھے اور یہی
حق کی منشا دعوت و تبلیغ کی تکمیل اور اتمام ہے یہی اصل اعلان توحید باری تعالی ہے
اور آج بھی کربلا ہمیں یہی بتاتی ہے کہ سنو مدینہ میں رہنا اور لوگوں کے بیچ میں
عزت و شان کے ساتھ رہنا کتنا مرغوب تھا اور آسان تھا لیکن امام عالی مقام نے سکون
کی بجائے حق کی خاطر بے سکونی کو پسند کیا ، لوگ ہاتھ چوم کر عزت افزائی کریں اس
بات کو آپ نے ہاتھ کٹوانے اور سر کٹوانے پر قربان کر دیا۔گھر بیٹھے بٹھائے ہزاروں
درہم و دینار اکاونٹ میں آجائیں امام کو یہ پسند نہ تھا امام کو کربلا کی تپتی
دھوپ میں بھوکا اور پیاسا رہنا اچھا لگا یہی حسینیت ہے یہی پیغام کربلا ہے۔(حق
کی خاطر انا کو قربان کرنا ، نفس کو قربان کرنا ، سکون کو قربان کرنا ۔)
یزید کو بھی معلوم تھا کہ
اگر اسلام کی دعوت اور نظام کو رسول کے انداز میں پیش کیا گیا تو یہ ظلم اور بربریت
کا نظام اس کے لپیٹے میں آئےگا اس لیے اسے خطرہ جناب عبد اللہ بن عباسؓ اور
عبداللہ بن عمرؓ سے نہیں تھا نہ ان کو بیعت پر مجبور کیا اگر بیعت پر مجبور کیا تو
امام عالی مقام ؓکو یا عبد اللہ بن زبیرؓ کیوں کہ اسے یا امام پاک سے خطرہ تھا یا عبد
اللہ بن زبیر سے ۔۔۔ کیوں کہ یہی ہستیاں
نظام الہی اور حق و باطل کے درمیان ڈٹ جانے والی تھیں اور یہی حضرات نظام الہی کے
احیا اور کلمۃ اللہ کے اعلا کا موقف رکھتے تھے۔
· ایک سیاسی لیڈر کا بیان تھا کہ مولویوں کا
سیاست سے کیا لینا دینا مولوی مسجدیں سنبھالیں بس ۔ (افسوس تو یہ ہے کہ مسجدیں بھی
مولویوں کو سنبھالنے نہیں دیتے) خیر کیوں مولوی خطرہ ہوتے ہیں اس لیے کہ دین اسلام
کی حقیقی تشریح ایک سیاست سے آشنا ، سیرت الرسول ، سیرت ابی بکر ، سیرت فاروق
اعظم ، سیرت عثمان غنی ، اور سیرت حیدر کرار اور سیرت امام عالی مقام کو سمجھنے
والا اور اس کا اثر رکھنے والا مولوی ہی کر سکتاہے
آئیں اب سمجھیں ہمیں کیا
کرنا ہے کیا ہم حکومت وقت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ، کیا بغاوت کر دیں اس استحصالی
نظام کے خلاف کہ جہاں ایک طرف 8 لاکھ
تنخواہ لینے والا گاڑی میں تیل مفت کا جلائے ، گھر میں بجلی مفت استعمال کرے ، کیچن
میں گیس فری کی استعمال کرے ، اور دوسری طرف ایک بیچارہ جس کی ماہانہ آمدن 20
ہزار ہے وہ ان عیاش پرستوں کے بجلی کے بل بھی دے اور پیٹرول کا خرچہ بھی برداشت
کرے کیوں کیا یہ یزیدیت نہیں کیا یہ غریب کے وہ حقوق جو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی
اس کے رب نے طے کر دیے تھے پر ڈاکہ نہیں ہے۔ باخدا کبھی بھی مفت کی بجلی استعمال
کرنے والا نہیں چاہے گا کہ یہ رعایت کبھی ختم ہو ، مفت کا پیٹرول استعمال کرنے
والا کبھی نہیں چاہے گا کہ اسے اپنی جیب سے پیٹرول ڈلوانا پڑے ۔ ۔ ۔ آج ضرورت ہے فکر حسین
اور فکر کربلا کو سمجھنے کی اور دنیا میں نافذ کرنے کی۔
ہمیں کیا کرنا ہے ؟ کیا
جتھا بنا کر اسلام آباد پر چڑھائی کر دیں ؟؟؟؟؟ نہیں ۔۔۔ ایسا نہیں کیوں ؟؟؟؟ آئیں
یہ بھی سمجھیں ۔۔۔۔ ہم کرتے کیا ہیں کبھی کوئی گروہ اسلام آباد جا رہا ہے اوار
کبھی کوئی ، جب ایک پارٹی حکومت میں ہوتی ہے تو دوسری اس کو ظالم کہہ رہی ہوتی ہے
اور جب وہ حکومت میں ہوتی ہے تو پہلے والی اس کو ظالم کہہ رہی ہوتی ہے ۔۔۔۔ یہ سب
ایک ٹوکرے کے بھانڈے ہیں یہ سب ایک چھپڑ کے ڈڈو ہیں۔ سنو ہمیں پہلے خود اپنی فکر کی
اصلاح کرنی ہے اپنے کردار کی اصلاح کرنا ہے پہلے حسین کی سیرت کو اپنا لباس بنانا
ہو گا ، ہمیں اپنی اصلاح کرنا ہے ، چھوڑو اسلام آباد کو اپنے محلے کی اصلاح کریں
محلے کو چھوڑیں پہلے اپنی گلی کی فکر کریں ، گلی کو چھوڑی اپنے گھر کی اصلاح کریں
اور اپنے گھر کو چھوڑیں پہلے اپنے گریبان کو پکڑیں اور اپنے گریباں میں جھانکیں کہ
ہم کہاں تک حسینی ہیں اور کہاں تک حسین کی فکر ہمارے قلب و جگر میں اتری ہے ، سب
سے پہلے میں اپنی ذات کے کان پکڑوں اپنی انا اور نفس کے گلے میں پٹا ڈالوں پہلے
اپنی آپ کو سچا اور پکا حسینی بناوں یقین مانیں میں ممبر کو گواہ بنا کر کہتا ہوں
جب آپ حسینی بن جائیں گے ، جب آپ کی شکل میں حسین نظر آئیں گے جب آپ کے کردار
میں حسینی کردار نظر آنے لگے گا تو اسلام آباد جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔۔ آئیے
حسینی بنیں اور کوشش کریں ہماری زبان ہی نہیں، ہمارا کردار بھی یا حسین ، وا حسین کرے ہماری ہر ہر حرکت
ہماری ہر ہر ادا بول کر کہے کہ حسینی آرہا ہے حسینی آ رہا ہے۔
7/1/24
احکام خلع Ahkam-e-Khula | Divorce by Wife Via Court
احکام خلع کی تفصیل
1)
خلع کا معنی و مفہوم:
لغوی معنی خلع لفظ خَلَعَ سے مأخوذ ہے اور کلامِ عرب میں
خلع کا معنی نزعٌ ہے یعنی اتارنا اور ایک چیز کو دوسری چیز سے نکالنا
لغت میں خلع کا لفظ میاں بیو ی کے درمیان علیحدگی کے لیے
بھی استعمال ہوتا ہے جیسے کہتے ہیں : خَالَعَتِ
الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا مُخَالَعَةً عورت
نے اپنے خاوند سے خلع لیا ، یعنی جب عورت خاوند کو اپنی آزادی کے لیے فدیہ پیش
کرے اور وہ فدیہ لے کر اسے طلاق دے دے ۔ در حقیقت اس معنی ٰ میں خلع زوجین کے
درمیان جدائی بیان کرنے کے لیے ایک لطیف استعارے کے طور پر لایا گیا ہے ۔
اصطلاحی مفہوم:
فقہا نے خلع کے شرعی مفہوم کو واضح کرنے کے لیے اس کی متعدد
تعریفات کی ہیں جوا یک دوسرے سے قدرے مختلف ہیں ، جس کی بڑی وجہ اُن کے ہاں خلع کی
حقیقت و ماہیت میں اختلاف ہے کہ آیا خلع طلاق ہے یا فسخِ نکاح۔
خلع فقہائے احناف کی نظر میں : ابن ہمام ؒ خلع کی اس تعریف کو راجح قرار دیتے ہیں۔
اِزَالَةُ
مِلْكِ النكاحِ بِبدلٍ، بِلَفْظِ الخلع.معاوضہ لے کر لفظ خلع کے ذریعے رشتۂ زوجیت کو ختم کرنا۔
ابن نجیمؒ نے درج ذیل تعریف کو اختیار کیا ہے ۔ رشتۂ زوجیت
کو لفظ خلع یا اس کے ہم معنی کسی اور لفظ کے ذریعے ختم کرنا جو بیوی کے قبول کرنے
پر موقوف ہو۔
مالکیہ کے ہاں خلع کی تعریف: خلع سے مراد وہ طلاق ہے جو معاوضہ پر ہو یا خلع کے لفظ کے
ساتھ۔
فقہ شافعی میں خلع کی تعریف: زوجین کے درمیان لفظ طلاق یا خلع کے ذریعے تفریق جو ایسے
معاوضے کے بدلے میں ہو جو مقصود(مالی قدروقیمت رکھتا) ہو اور خاوند کی طرف لوٹتا
ہو۔
خلع حنابلہ کے نزدیک: خاوند کا مخصوص الفاظ کے ذریعے اپنی بیوی سے معاوضہ لے کر
جدا ہونا، خواہ یہ معاوضہ بیوی سے لے یا اس کے علاوہ کسی اور سے۔
خلع کی حکمت: خلع کے ذریعے در حقیقت اسلام میں عورت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ جب وہ خاوند
سے اس کی دینی حالت، شکل و صورت، رویہ اور
طرزِ عمل ، بڑھاپے، کمزوری یا کسی اور فطری سبب کی بنا پر متنفر ہو جائے تو وہ خلع
کے ذریعے خاوند سے الگ ہو سکتی ہے ۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ طلاق اور خلع چونکہ اسلام کے
مقاصدِ نکاح کے خلاف ہیں ، اس لیے شریعت میں ان کی اجازت ایک ناپسندیدہ ضرورت اور
آخری حل کے طور پر دی گئی ہے ۔ چنانچہ معمولی یا چھوٹی موٹی باتوں پر طلاق دینا
یا خلع لینا شریعت کی نظر میں کوئی پسندیدہ عمل نہیں ، اس سے نہ صرف خاندانی اکائی
بکھر جاتی ہے بلکہ بچوں کی پرورش بھی شدید متاثر ہوتی ہے اس لیے کہ اس کے نتیجے
میں انہیں والدین میں سے کسی ایک کی شفقت سے محروم ہونا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ طلاق کو ابغض الحلال قرار دیا
گیا اور بلاوجہ اور بلاعذر خلع طلب کرنے والی خاتون کے لیے احادیث مبارکہ میں شدید
وعید اور تنبیہ آئی ہے ۔ سنن ابی داود ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ اور دیگر اصحاب
سنن نے حضرت ثوبان ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس عورت نے
بھی بغیر سبب کے اپنے شوہر سے طلاق طلب کی تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔‘‘
خلع
کی اقسام : خلع کی دو اقسام ہیں ۔ ۱۔ خلع بعوض
۲۔ خلع بغیر عوض
خلع بعوض: اس سے مراد وہ خلع ہے جس میں زوجین ایک دوسرے سے اس شرط پر علیحدگی اختیار
کرتے ہیں کہ بیوی خاوند کو خلع کے بدلے میں معاوضہ ادا کرے گی ۔ یہ خلع اسی وقت
درست ہو گا جب یہ بیوی کی رضا مندی سے انجام پائے اور بیوی کے قبول کرتے ہی خلع کے
تمام احکام خود بخود نافذ ہو جائیں گے ۔
خلع بغیر عوض: اگر خاوند خلع
دیتے وقت معاوضہ کا ذکر نہ کرے اور بیوی سے صرف اتنا کہے کہ میں نے تمہیں خلع دیا
، تو یہ خلع بغیر عوض کہلائے گا ۔ خلع بعوض کے برعکس یہاں خاوند کی نیت کا اعتبار
ہو گا ۔ اگر خاوند نے خلع کے لفظ ادا کرتے ہوئے طلاق کی نیت کی تو طلاق واقع ہو
جائے گی ورنہ نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خلع طلاق کے لیے کنایہ کے طور پر استعمال
ہوا ہے اور کنائی الفاظ سے طلاق اس وقت واقع ہوتی ہے جب خاوند نے طلاق کی نیت کی
ہو۔
خلع کی مشروعیت : خلع کی مشروعیت قرآن مجید کی سورہ بقرہ کی آیت ۲۲۹ سے
ثابت ہے فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا
جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖؕ ۔۔۔ ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدوں کو
قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے ) رہائی پانے کے بدلے میں
کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں ۔
خلع سے متعلق احادیث : خلع سے متعلق جو احادیث روایت ہوئی ہیں ان میں زیادہ تر
جلیل القدر صحابی حضرت ثابت بن قیس ؓ اور ان کی بیوی کے واقعہ خلع کے بارے میں ہیں
جو متعدد روایات میں مختلف الفاظ سے منقول ہے۔ اسلام میں یہ نہ صرف اپنی نوعیت کا
پہلا واقعہ تھا بلکہ خلع کے باب میں اسے بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ صحیح بخاری میں
یہ واقعہ اس طرح منقول ہے :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت
ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتی ہیں
: اے اللہ کے رسول ! میں ثابت بن قیس کے دین و اخلاق پر کوئی نکتہ چینی نہیں کرتی
، البتہ میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں، یہ سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا:
کیا وہ باغ (جو اس نے تمہیں بطور مہر کے دیا تھا) اسے انہیں واپس کرتی ہو؟ اس عورت
نے عرض کیا : جی ہاں! رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثابت بن قیسؓ سے فرمایا : کہ باغ واپس
لے لو اور اسے ایک طلاق دے دو۔سنن نسائی اور سنن ابی داود میں یہ واقعہ مختلف
الفاظ سے منقول ہے ۔
خلع کا جواز: خلع کے جواز
پر تمام فقہا بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا اتفاق ہے ۔البتہ خلع کس بنیاد پر اور کس
حالت میں جائز ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔
خلع
کے ارکان و شرائط: خلع کے درج ذیل
پانچ ارکان ہیں
۱۔
صیغہ ۲۔ موجِب (یعنی ایجاب کرنے والا۔خاوند) ۳۔ قابل (قبول کرنے والا) ۴۔ عوض ۵۔
مُعَوَّض۔
منقبت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ | ہر ایک شرف میں اعلی ہے عثمان غنی عثمان غنی
ہر ایک شرف میں اعلی ہے عثمان غنی عثمان غنی
یکتا دونوروں والا ہے عثمان غنی عثمان غنی
یہ پیارے خدا کا پیارا ہے یہ بزم نبی کا تارا ہے
اسلام کا نور اجالا ہے عثمان غنی عثمان غنی
کامل عثمان حیا میں ہے اکمل یہ جو دوسخا میں ہے
عظمت کا خاص حوالہ ہے عثمان غنی عثمان غنی
مخدوم ہے سب مخدوموں کا سالار ہے سب مظلوموں کا
ساجد کا والی و مولا ہے عثمان غنی عثمان غنی