Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

7/1/24

احکام خلع Ahkam-e-Khula | Divorce by Wife Via Court

احکام خلع کی تفصیل 

                 1)        خلع کا معنی و مفہوم:

لغوی معنی خلع لفظ خَلَعَ سے مأخوذ ہے اور کلامِ عرب میں خلع کا معنی نزعٌ ہے یعنی اتارنا اور ایک چیز کو دوسری چیز سے نکالنا 

لغت میں خلع کا لفظ میاں بیو ی کے درمیان علیحدگی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے  جیسے کہتے ہیں :  خَالَعَتِ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا مُخَالَعَةً عورت نے اپنے خاوند سے خلع لیا ، یعنی جب عورت خاوند کو اپنی آزادی کے لیے فدیہ پیش کرے اور وہ فدیہ لے کر اسے طلاق دے دے ۔ در حقیقت اس معنی ٰ میں خلع زوجین کے درمیان جدائی بیان کرنے کے لیے ایک لطیف استعارے کے طور پر لایا گیا ہے ۔

اصطلاحی مفہوم:

فقہا نے خلع کے شرعی مفہوم کو واضح کرنے کے لیے اس کی متعدد تعریفات کی ہیں جوا یک دوسرے سے قدرے مختلف ہیں ، جس کی بڑی وجہ اُن کے ہاں خلع کی حقیقت و ماہیت میں اختلاف ہے کہ آیا خلع طلاق ہے یا فسخِ نکاح۔

خلع فقہائے احناف کی نظر میں : ابن ہمام ؒ خلع کی اس تعریف کو راجح قرار دیتے ہیں۔

اِزَالَةُ مِلْكِ النكاحِ بِبدلٍ، بِلَفْظِ الخلع.معاوضہ لے کر لفظ خلع کے ذریعے رشتۂ زوجیت کو ختم کرنا۔

ابن نجیمؒ نے درج ذیل تعریف کو اختیار کیا ہے ۔ رشتۂ زوجیت کو لفظ خلع یا اس کے ہم معنی کسی اور لفظ کے ذریعے ختم کرنا جو بیوی کے قبول کرنے پر موقوف ہو۔

مالکیہ کے ہاں خلع کی تعریف: خلع سے مراد وہ طلاق ہے جو معاوضہ پر ہو یا خلع کے لفظ کے ساتھ۔

فقہ شافعی میں خلع کی تعریف: زوجین کے درمیان لفظ طلاق یا خلع کے ذریعے تفریق جو ایسے معاوضے کے بدلے میں ہو جو مقصود(مالی قدروقیمت رکھتا) ہو اور خاوند کی طرف لوٹتا ہو۔

خلع حنابلہ کے نزدیک: خاوند کا مخصوص الفاظ کے ذریعے اپنی بیوی سے معاوضہ لے کر جدا ہونا، خواہ یہ معاوضہ بیوی سے لے یا اس کے علاوہ کسی اور سے۔

خلع کی حکمت: خلع کے ذریعے در حقیقت اسلام میں عورت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ جب وہ خاوند سے اس کی دینی حالت، شکل و صورت، رویہ  اور طرزِ عمل ، بڑھاپے، کمزوری یا کسی اور فطری سبب کی بنا پر متنفر ہو جائے تو وہ خلع کے ذریعے خاوند سے الگ ہو سکتی ہے ۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ طلاق اور خلع چونکہ اسلام کے مقاصدِ نکاح کے خلاف ہیں ، اس لیے شریعت میں ان کی اجازت ایک ناپسندیدہ ضرورت اور آخری حل کے طور پر دی گئی ہے ۔ چنانچہ معمولی یا چھوٹی موٹی باتوں پر طلاق دینا یا خلع لینا شریعت کی نظر میں کوئی پسندیدہ عمل نہیں ، اس سے نہ صرف خاندانی اکائی بکھر جاتی ہے بلکہ بچوں کی پرورش بھی شدید متاثر ہوتی ہے اس لیے کہ اس کے نتیجے میں انہیں والدین میں سے کسی ایک کی شفقت سے محروم ہونا پڑتا ہے  یہی وجہ ہے کہ طلاق کو ابغض الحلال قرار دیا گیا اور بلاوجہ اور بلاعذر خلع طلب کرنے والی خاتون کے لیے احادیث مبارکہ میں شدید وعید اور تنبیہ آئی ہے ۔ سنن ابی داود ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ اور دیگر اصحاب سنن نے حضرت ثوبان ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس عورت نے بھی بغیر سبب کے اپنے شوہر سے طلاق طلب کی تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔‘‘

خلع کی اقسام : خلع کی دو اقسام ہیں ۔ ۱۔ خلع بعوض    ۲۔ خلع بغیر عوض

خلع بعوض: اس سے مراد وہ خلع ہے جس میں زوجین ایک دوسرے سے اس شرط پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں کہ بیوی خاوند کو خلع کے بدلے میں معاوضہ ادا کرے گی ۔ یہ خلع اسی وقت درست ہو گا جب یہ بیوی کی رضا مندی سے انجام پائے اور بیوی کے قبول کرتے ہی خلع کے تمام احکام خود بخود نافذ ہو جائیں گے ۔

خلع بغیر عوض:  اگر خاوند خلع دیتے وقت معاوضہ کا ذکر نہ کرے اور بیوی سے صرف اتنا کہے کہ میں نے تمہیں خلع دیا ، تو یہ خلع بغیر عوض کہلائے گا ۔ خلع بعوض کے برعکس یہاں خاوند کی نیت کا اعتبار ہو گا ۔ اگر خاوند نے خلع کے لفظ ادا کرتے ہوئے طلاق کی نیت کی تو طلاق واقع ہو جائے گی ورنہ نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خلع طلاق کے لیے کنایہ کے طور پر استعمال ہوا ہے اور کنائی الفاظ سے طلاق اس وقت واقع ہوتی ہے جب خاوند نے طلاق کی نیت کی ہو۔

خلع کی مشروعیت : خلع کی مشروعیت قرآن مجید کی سورہ بقرہ کی آیت ۲۲۹ سے ثابت ہے  فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖؕ ۔۔۔ ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے ) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں ۔

خلع سے متعلق احادیث : خلع سے متعلق جو احادیث روایت ہوئی ہیں ان میں زیادہ تر جلیل القدر صحابی حضرت ثابت بن قیس ؓ اور ان کی بیوی کے واقعہ خلع کے بارے میں ہیں جو متعدد روایات میں مختلف الفاظ سے منقول ہے۔ اسلام میں یہ نہ صرف اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا بلکہ خلع کے باب میں اسے بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ صحیح بخاری میں یہ واقعہ اس طرح منقول ہے :

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتی ہیں : اے اللہ کے رسول ! میں ثابت بن قیس کے دین و اخلاق پر کوئی نکتہ چینی نہیں کرتی ، البتہ میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں، یہ سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا وہ باغ (جو اس نے تمہیں بطور مہر کے دیا تھا) اسے انہیں واپس کرتی ہو؟ اس عورت نے عرض کیا : جی ہاں! رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثابت بن قیسؓ سے فرمایا : کہ باغ واپس لے لو اور اسے ایک طلاق دے دو۔سنن نسائی اور سنن ابی داود میں یہ واقعہ مختلف الفاظ سے منقول ہے ۔

خلع کا جواز: خلع کے جواز پر تمام فقہا بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا اتفاق ہے ۔البتہ خلع کس بنیاد پر اور کس حالت میں جائز ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔

خلع کے ارکان و شرائط: خلع کے درج ذیل پانچ ارکان ہیں

۱۔ صیغہ ۲۔ موجِب (یعنی ایجاب کرنے والا۔خاوند) ۳۔ قابل (قبول کرنے والا) ۴۔ عوض ۵۔ مُعَوَّض۔

 

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive