مذہب
کو کیوں مانوں؟ جن اخلاقیات کا تعین معاشرے نے کر دیا ہے میں ان کا پابند ہوں، اب
مجھے مذہب کی کیا ضرورت ہے؟
اس کے جواب میں دعوی یہ ہے کہ ! اس وقت کائناتِ انسانی کی اخلاقیات مذہب کی عطا کردہ ہیں
۔ آپ لوگ جن معاشرتی اخلاقیات کی بات کرتے ہیں وہ سب مذہب کی عنائیت ہیں۔ (یہ
سوال کہ کس مذہب کی عطا کردہ ہیں اور کون سا مذہب مانیں یہ سوال الگ ہے جو کہ بین
المذاہب کے عنوان سے زیرِ بحث آتا ہے۔)اخلاقیات کے مباحث ہر مذہب میں موجود ہیں یہ اس دعوی کی
دلیل ہے۔
To Read this Article in English Click Here
اب اس کے رد میں یہ سوال آسکتا ہے کہ یہ اخلاقی ارتقاءانسانی
ذہنی ارتقا ءکا شاخسانہ ہے (تو یہاں جواباً یہ سوال آئے گا کہ اگر ذہنی ارتقاء کی
بدولت اخلاقی ارتقاء وقوع پذیر ہوا ہے تو اس کائنات میں لاکھوں اور مخلوقات موجود
ہیں اور لاکھوں سالوں سے موجود ہیں ان میں ایسی کوئی پیش رفت کیوں نہیں ہوئی؟ جس
طرح ان مخلوقات کا بود و باش آج سے لاکھوں سال یا جب سے وہ وجود میں آئی ہیں،
تھا آج بھی اسی طرح ہے مثلاشیر کا شکار کرنا ، لگڑ بگڑ کا اس سے شکار چھیننا ،
گدھ کا مردار پر آنا اور ایک دوسرے سے لڑ بھڑ کر گوشت نوچنا ، مزید دوسرے چھوٹے
جانوروں کا آنا اور پھر ایک دوسرے کو کاٹنے کو آنا اور خود وہ کھانے کی کوشش
کرنا ، یہ سب شروع سے چلا آرہا ہے اس میں کوئی اخلاقی پیش رفت نہیں آئی۔بنیادی
طور پر انسان کی فطرت میں بھی یہ معاملات موجود ہیں وہ بھی جانوروں کی طرح کا ایک
جاندار ہے لیکن اس میں مذہب نے انسان کو سکھایا ہے کہ کسی کا مال جان کسی دوسرے کے
لیے جائز نہیں ہے وہ اسی کا ہے جو اس کا مالک ہے اور اگر کوئی دوسرا اس کی اجازت
کے بغیر لے گا تو یہ جرم ہو گا۔یہی بات انسانی عقل نے اپنا لی اب اگر کوئی یہ کہے
کہ چوری کرنا جرم ہے یہ عقل کا تقاضا ہے تو اس کی بات اس وقت تک نہیں مانی جائے گی
جب تک کسی ایسے معاشرے کی مثال نہ لائے جس معاشرے کا مذہب سے دور دور تک کوئی
واسطہ نہ ہو، اور وہاں کے تمام تر اخلاقی
معاملات عقل کے پروردہ ہوں۔
To Read this Article in English Click Here
التزامی
سوال کہ جس کا تعلق عقل اور منطق سے ہے نہ کہ کسی مذہب سے۔۔۔۔
یہ معاشرتی اخلاقیات کس معاشرے نے سیٹ کی ہیں ؟ (وہ معاشرہ
جس پر مذہب کی چھاپ ہے ، جس معاشرے میں 99.99 فی صد لوگ مذہب کو مانتے ہیں اور
مذہب کی پیروی کرتے ہیں اُس معاشرے کی ترتیب دی گئی معاشرتی اخلاقیات کی آپ بات
کرتے ہیں؟ )کیا آپ کی عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جس معاشرے میں 99.99 فی صد لوگ کسی
نا کسی مذہب کو مانتے ہوں وہاں کی اخلاقیات مذہب سے الگ عقل کی اختراع ہوں
گی؟
عقل
یہ کہتی ہے کہ: جس معاشرے میں جس طبقے کی اکثریت ہو گی وہاں کے
اخلاقی اصول انہیں کے مطابق ہوں گے ، یہ بات ا س وقت اس دنیا کے تمام انسانی
معاشرے ثابت کرتے ہیں۔
مذہب کو نہ ماننے والوں کا یہ دعوی کہ چوری کرنا ، زنا کرنا
، کسی کو گالی دینا ، کسی کو بر ابھلا کہنا، کسی کو تھپڑ مارنا ، کسی کو قتل
کرنا یہ سب عقل نے بذات خود غلط قرار دیے
ہیں، ثابت شدہ نہیں ہے پہلے اس کو ثابت کریں۔
مذہب کو نا پسند کرنا اور مذہب کی مخالفت کرنا یہ شیطانی وسوسہ اور خیال ہے ۔تمام
تر اخلاقی تعلیمات مذہب کی عطا کردہ ہیں۔
جو یہ دعوی کریں کہ اخلاقی تعلیمات اور اصول و ضوابط عقل کے
پروردہ ہیں ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہےاور بغیر دلیل کے دعوی کوئی حیثیت
نہیں رکھتا۔(یہ عقلی اصول ہے)
مذہب کو کیوں مانوں ؟اس لیے کہ مذہب (اپنے تعلیم کردہ تمام
تر تصورات کی بدولت)انسان کی اخلاقیات کو مرتب کرتا ہے اور انسان کو بے راہ روی سے
بچاتا ہے۔
To Read this Article in English Click Here
دوسرا
پہلو کہ مذہب کو کیوں مانوں؟
بالفرض یہ مان لیا جائے کہ ایک شخص یہ
دعوی کرے کہ میں مذہب کے بغیر بھی اخلاقی لحاظ سے مکمل ہوں اس انساین معاشرے میں
مجھے کسی سے کوئی تکلیف نہیں اور کسی کو مجھ سے کوئی تکلیف نہیں لہذا پر امن طور
پر میں زندگی بسر کر رہا ہوں (اگرچہ یہ دعوی کہ میں اخلاقی لحاظ سے مکمل ہوں اور
یہ سب میری عقل کے بدولت ہے سراسر غلط ہے کیوں کہ جب اس نے اس دنیا میں آنکھ
کھولی تھی تو اس کو کچھ معلوم نہ تھا کہ غلط کیا ہے اور صحیح کیا ہے ، (اس بات سے
کوئی انکاری نہیں)پھر اس نے اس معاشرے میں آنکھ کھولی جس میں مذہب کہہ رہا تھا کہ
چوری کرنا ، زنا کرنا ، قتل کرنا ، گالی دینا سب غلط کام ہیں دوسروں کی مدد کرنا ،
کام آنا ، دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اچھے کام ہیں یہ سب اس نے سیکھا اور یہ
اچھائی اور برائی کے زاویے سیکھنے کے بعد اس نے یہ دعوی کردیا کہ یہ میری عقل نے
مجھے بتایا ہے سراسر بددیانتی اور علمی و تربیتی سرقہ ہے جہاں سے جو سیکھا اس کو
اس طرف لوٹانا چاہیے اور اس کا اقرار کرنا چاہیے۔)بہر حال مان لیا اس کی عقل نے یہ
اس کی تربیت کی اور وہ اس پر عمل کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ وہ آخرت اور اس دنیا کے
بعد دوسری (آخرت کی )زندگی کا انکاری ہے۔
اس
ملحد شخص کے برعکس ایسا شخص جو مذہب کا حامل ہے وہ بھی اس جیسی تمام تر خصوصیات کا
حامل ہے اور تمام تر اچھائیاں جو یہ ملحد اپنا بیٹھا ہے وہ مذہب کا حامل بھی اپنا
چکا ہے، اس پر مزید یہ کہ حاملِ مذہب شخص آخرت کو بھی مانتا ہے، جب کہ ملحد نہیں
مانتا ، یہاں پر دو موقف ہیں ایک ملحد کا کہ آخرت نہیں ہے دوسرا مذہبی کا
کہ آخرت ہے۔ پہلی صورت میں دونوں برابر ہوئے کہ دونوں اچھی زندگی گزار
گئے جبکہ دوسری صورت میں حاملِ مذہب فائدے میں رہے گا کیوں کہ وہ مانتا ہے جبکہ
ملحد نہیں مانتا تو اس لحاظ سے ملحد نقصان میں اور مذہبی شخص فائدہ میں رہا ، عقل
کا تقاضا یہی ہے کہ وہ راستہ اپنانا چاہیے جس میں ہر صورت فائدہ ہو یا زیادہ فائدہ
ہو۔ یہ بات بھی طے ہے کہ جب ملحدین سے یہ سوال کیا جائے کہ آپ آخرت کو کیوں نہیں
مانتے تو جواب آتا ہے کہ عقل اس کو نہیں مانتی ، جب یہ کہا جائے کہ اگر یہ آخرت
کی زندگی سائنس اور عقلی دلائل ثابت کر دیں تو ؟ اس کے جواب میں جملہ آتا ہے کہ
پھر ہم مان لیں گے۔ تو یاد رہے کہ یہی عقل ہے کہ کچھ عرصہ پہلےبعض معاملات کا تصور
بھی نہیں کر سکتی تھی لیکن آج سائنس نے انہیں حقیقت ثابت کر دیا ہے۔ اگر اس دور کےملحدین کی زندگی کے بعد آخرت کی
زندگی (یہ ایک تصور مثال کے طور پر زیرِ بحث لایا گیا ہے جس کا ملحدین انکار کرتے
ہیں)کو آنے والے وقت نے ثابت کر دیا تو ان کا کیا بنے گا ؟اور اگر یہ ان کا
دعوی ہو کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا تو یہ دعوی بذات خود عقل تسلیم نہیں کرتی
کیوں کہ اس کی کوئی عقلی دلیل نہیں ہے۔بے شمار ایسے معاملات ہیں کہ ہم سے پہلے لوگ
اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن آج وہ ثابت ہو چکے ہیں۔ اسی طرح آج ہم جس
کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہو سکتا ہے آنے والا وقت اس کو ثابت کر دے۔
·
اس بحث کا لازمی نتیجہ یہی نکلے گا کہ بہر صورت زیادہ فائدے
میں وہی شخص ہے جو مذہب کو مانتا ہے۔
تحریر: محمد سہیل عارف معینیؔ
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You