تمہیداً
گفت گو میں قرآن و حدیث اور صحابہ کرام کا اجماع شامل ہے جس کی مثالیں اور وضاحت
ذیل میں درج کی جا رہی ہے:
آیہ مقدسہ:
مَا
كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ
وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا(40)
ترجمہ:
نہیں ہیں محمد (خاتم
النبین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم)
تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اور
اللہ ہر چیزکو خوب جاننے والا ہے۔
1:
حضرت ابراہیم بن محمد رضی اللہ عنہ : عَنِ
ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ
عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (سنن ابن ماجہ 1511)
علامہ البانی نے درست قرار دیا ہے۔ ان الفاظ سے تقویت ملتی ہے اس حدیث کو۔لِابْنِ
أَبِي أَوْفَى: رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ ابْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ:" مَاتَ صَغِيرًا، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَكُونَ بَعْدَ
مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُهُ، وَلَكِنْ لَا
نَبِيَّ بَعْدَهُ". (صحیح بخاری :6194)
2: حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ : عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ،
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ
كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ
(جامع ترمذی:3686)
3: حضرت
علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا: عَنْ
مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا، فَقَالَ:
أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ، قَالَ:" أَلَا تَرْضَى أَنْ
تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ
بَعْدِي"(صحیح بخاری:4416)
اسلامی
آئین یعنی قرآن و سنت کا موقف: واضح ہے کسی قسم کا ابہام و تشکیک کا کوئی عنصر
نہیں ہے۔مسیلمہ کذاب، طلیحہ بن خویلد، اسود عنسی وغیرہ نے نبوت کا دعوی کیا لیکن قرآنی
آیات ، رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کے
اجماع سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی کسی صورت میں بھی نہیں
ہو سکتانہ تسلیم کیا جا سکتا ہے ۔
مرزا قادیانی کے جھوٹے دعوی نبوت کے بعد پیر
سید مہر علی شاہ گولڑوی سید ابوالحسنات شاہ قادری، مولانا سید محمد یوسف بنوری،
آغا شورش کاشمیری، سید عطا اللہ شاہ بخاری مولانا مفتی محمود، مولانا
عبدالستارخان نیازی، ضیاء الامت حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری سیمت متعدد
قابل قدر بزرگوں نے ہر میدان میں انکا تعاقب کیا۔
قرار داد مقاصد
اور اسلامی قانون سازی
قرارداد مقاصد جو کہ دستور پاکستان کا دیباچہ ہے
اس میں واضح طور پر تحریر ہے کہ حاکمیت صرف اللہ تعالی کی ہو گی۔ دستور کے آرٹیکل
(۱) کے
مطابق یہ ایک اسلامی مملکت ہو گی جبکہ آرٹیکل(۲) میں درج ہے کہ یہاں کا
کوئی قانون قرآن وسنت سے متصادم نہیں ہو گا۔ اس طرح دستور کی شق (1)227کے تحت
پارلیمنٹ کواختیار نہیں کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی کر سکے بلکہ وہ
قوانین جو قرآن وسنت کے خلاف ہیں انکی فوری اصلاح کی ہدایت کی گئی ہے۔ قرار داد پاکستان کی
مخالفت میں عموما لبرلز اور سوشلز ، ملحد اور قادیانی بہت بولتے ہیں اوراسکی مخالفت
میں قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947کی تقریر کا حوالہ پیش کرتے ہیں کہ قائد نے فرمایا تھا کہ
ریاست کا مذہب سے کیا تعلق ہوتا ہے (حالانکہ وہ ایک خاص ماحول اور سیاق و سباق میں
دیا گیا بیان تھا) جبکہ اس موقف کی تردید ان کے اپنے ہی بے شمار اقتباسات اور
تقاریر سے ہوتی ہے جنہیں پاکستانی دیسی لبرلز اگنور کر دیتے ہیں ۔ قائد اعظم کےپاکستانی دستور کے حوالے سے موقف کو پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
1953ءکی آئنی کوششیں اور باقاعدہ تحریک کا آغاز
1953ء میں تمام دینی جماعتیں تین مطالبات پیش کر
چکی تھیں۔ظفر اللہ خاں سے وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لیا جائے *مرزائیوں کو غیر
مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور سول وفوج کے کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو ہٹایا
جائے۔یہ تین مطالبات ملک کی مذہبی قیادت نے کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختمِ نبوت کے
مشترکہ پلیٹ فارم سے اہل اقتدار کو پیش کئے ۔مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے مسترد
کردئیے گئے ،مطالبات کی منظوری کے لئے پرامن تحریک چلی، تحریک مقدس تحفظ ختمِ نبوت
کو ریاستی طاقت سے کچل دیا گیا۔مال روڈ سمیت لاہور ،ملتان،کراچی ، سیالکوٹ،گوجرانوالہ
،ساہیوال اور دیگر شہروں میں دس ہزار فرزندانِ اسلام کے سینے گو لیوں سے چھلنی کر
دئیے گئے۔
متفق
علیہ معاملہ
ستمبر 1974 ء کے بعد مرزا قادیانی اور اُس کے
ماننے والوں کو مسلمان کہنا جرم قرار دیا گیا اور اس آئینی قرار دادِ اقلیت پر اُس
رکن اسمبلی نے بھی دستخط کئے تھے جس نے 1973 ء کے آئین کی تشکیل کے وقت اختلاف
کرتے ہوئے اس پر دستخط نہیں کئے تھے گویا یہ قرار دادِ اقلیت 1973 ء کے آئین سے
بھی زیادہ متفق علیہ ہے ۔
آئین
میں شامل الفاظ کا مختصر تعارف
1 : مختصر
عنوان اور آغاز نفاذ (۱) یہ ایکٹ آئین ( ترمیم دوم) ایکٹ 1974 ء کہلائے گا۔ ( ۲) یہ
فی الفور نافذ العمل ہوگا ۔
2 : آئین کی دفعہ 106 میں ترمیم :اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے آئین میں جِسے بعدازیں آئین کہا جائے گا،((دفعہ 106 کی شق (3))
میں لفظ فرقوں کے بعد الفاظ اور قوسین ’’اور قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کے
اشخاص (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں)‘‘درج کئے جائیں گے۔
3 : آئین کی دفعہ 260 میں ترمیم (آئین کا آرٹیکل
260 جو مسلم و غیرمسلم کی تعریف کرتا ہے) :آئین کی دفعہ 260 میں شق نمبر2 کے بعد
حسب ذیل نئی شق درج کی جائے گی ،یعنی ’’شق نمبر 3 : جو شخص محمد صلی اللہ علیہ
وسلم ،جو آخری نبی ہیں،کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں
رکھتا یا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مفہوم میں یا کسی قسم کا نبی ہونے
کا دعویٰ کرتا ہے یا جو کسی ایسے مدعی کونبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے ،وہ آئین یا
قانون کے اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہے ۔‘‘
1. Short title and commencement
(1) This
act may be called the Constitution (Second Amendment) Act, 1974.
(2) It
shall come into force at once.
2. Amendment of Article 106 of the Constitution.
In the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan hereinafter
referred to as the Constitution, in Article 106, in clause (3), after the words
"communities" the words and brackets "and persons of Quadiani
group or the Lahori group (who call themselves 'Ahmadis')" shall be
inserted.
3. Amendment of Article 260 of the Constitution.
In the Constitution, in Article 260, after clause (2) the following new clause
shall be added, namely—
(3) A person who does
not believe in the absolute and unqualified finality of The Prophethood of
MUHAMMAD (Peace be upon him), the last of the Prophets or claims to be a
Prophet, in any sense of the word or of any description whatsoever, after
MUHAMMAD (Peace be upon him), or recognizes such a claimant as a Prophet or
religious reformer, is not a Muslim for the purposes of the Constitution or
law.
اس بل کا مقصد اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے آئین میں اس طرح ترمیم کرنا ہے تاکہ ہر وہ شخص جو محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں
رکھتا یا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا جو کسی
ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے ،اسے غیر مسلم قرار دیا جائے۔
30جون 1974کو انہوں
نے پارلیمنٹ قرارداد پیش کی جس میں قادیانیوں کے عقائد کے پیش نظر انکو غیر مسلم
قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس تحریک پر بحث کے دوران اس بات کی اجازت دی گئی کہ
ارکان پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ ایک آزاد ریاست کے
آزاد شہری ہونے کے ناطے قادیانیوں کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف بیان
کرنے کا مکمل مو قع فراہم کیا گیا۔ 13دن تک سوال وجواب، بحث و مباحثہ جرح وتنقید
کا سلسلہ جاری رہا۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل یحیح بختیار نے قادیانیوں کے سربراہ
مرزا ناصر پر جرح کی اور سوال وجواب پر مشتمل کی گئی گفتگو ں پر مشتمل طویل سیشن ہوئے۔
22اگست 1974کو اس بحث کو قانونی شکل دینے کے لیے ایک کمیٹی بنی جس کے معزز ارکان میں
مولانا شاہ احمد نورانی، مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، چوہدری ظہور الہی، مسٹر
غلام فاروق اور سردار مولا بخش سومرو اور وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ اس کمیٹی
کے رکن تھے۔ 7ستمبر 1974 کو پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے متفقہ طور پر انکو غیر
مسلم قرار دیتے ہوئے دستور کی دفعہ260 اور دفعہ 160 میں ترمیم منظور کی۔
امتناع
قادیانت ایکٹ
26اپریل1984 اس وقت کی
وفاقی حکومت نے امتناع قادیانیت ارڈی نینس جاری کیا۔ جس میں انہیں اسلامی شعائر کا
استعمال نہ کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی ایک نئی دفعہ298 کا تعزیرات پاکستان میں
اضافہ کیا گیا جس کی رو سے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور اپنی تبلیغ کے ذریعے
مسلمانوں کی توہین کرنے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا۔
Here are some of the
restrictions placed on Ahmadis by Section 298:
• They cannot call themselves
Muslim
• They cannot refer to their
religious beliefs as Islam
• They cannot preach or propagate their religious
beliefs
• They cannot invite others to accept Ahmadi teachings
• They cannot insult the
religious feelings of Muslims
The punishment for
violating these provisions is imprisonment for up to three years and a fine.
قادیانیوں نے اس آرڈی
نینس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر دیا۔ 15جولائی 1984 سے 12اگست 1984 تک اس کی سماعت بلا تعطل
جاری رہی۔ قادیانیوں کی پیٹیشن نے اس آرڈینینس کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا گیا
تھا۔ 12 اکتوبر 1984کو وفاقی شرعی عدالت نے اس پٹیشن کو خارج کر دیا۔ چیف جسٹس
جسٹس فخر عالم نے فیصلہ تحریر کیا۔جبکہ جسٹس چوہدری محمد صدیق، جسٹس مولانا ملک
غلام علی جسٹس مولانا عبدالقدوس قاسمی نے تائیدی دستخط کیے۔ اس فیصلہ کے خلاف سپریم
کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں اپیل کی گئی۔ جس کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے لکھا
کہ قادیانیوں کو مروجہ جمہوری اور قانونی طریقہ کار کے مطابق اقلیت قرار دیا گیا
ہے۔ نیز یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ قادیانی ملک میں تخریبی سرگرمیوں میں
ملوث ہیں اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لہذا یہ قانو ن انسانی
حقوق کے خلاف کے نہیں بلکہ آئین پاکستان کے عین مطابق ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس محمد
افضل ضلحہ نے تحریر کیا جبکہ ڈاکٹرنسیم حسن شاہ، جسٹس شفیع الرحمن، جسٹس پیر محمد
کرم شاہ الازہری اور جسٹس تقی عثمانی نے تائید کی ۔ جبکہ جسٹس پیر محمد کرم شاہ
الازہری اور جسٹس مولانا تقی عثمانی نے الگ سے بھی فیصلہ تحریر کیا
(SC-167...PLD1988)
مختلف
عدالتوں کے ریمارکس اور فیصلے
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس رفیق تارڑ نے 1987 میں،
بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس امیر المک مینگل نے 1988 میں، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس
خلیل الرحمن نے 1992میں، جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے ہی جسٹس میاں نذیراختر نے 1992میں
قادیانیوں کے خلاف کیے جانے والے دستوری اقدامات کو قانون کے عین مطابق قرار دیا
۔بعد ازاں سپریم کورٹ کے ایک فل بینچ نے 1993میں الگ مفصل فیصلہ تحریر کیا جو کہ
اس ضمن میں حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بینچ میں جسٹس عبدالقدیر چوہدری جسٹس
ولی محمد خان، جسٹس محمد افضل لون اور جسٹس سلیم اختر شامل تھے۔ (1993-S.C.M.R1718) اس میں فل بینچ
نے قرار دیا کہ ایک اقلیت کی جانب سے مسلمانوں کے شعائر کا استعمال فتنہ و فساد کا
موجب بن سکتا ہے، ملک میں امن و امان کامسئلہ پیدا ہو سکتا ہے اور لوگوں کی جان و
مال خطرے میں پڑ سکتی ہے اس لیے انسانی حقوق کے تحفظ اور دستور پاکستان کے بنیادی
نکات عمل کرنے کی خاطر قادیانیوں کو اس طرح کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔اسی
فیصلے میں قادیانیوں کو unscrupulous
and fraudulent non-muslim کے الفاظ سے
نوازہ گیا۔
اقوام
متحدہ سے رجوع
1988 میں قادیانیوں نے اقوام متحدہ کے انسانی
حقوق کے کمشن کی طرف رجوع کیا اور درخواست کی کہ پاکستان میں انکے انسانی حقوق سلب
کیے جا رہے ہیں لہذا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جرم میں پاکستان کے خلاف اقتصادی
پابندیاں عائد کی جائیں حکومت پاکستان نے جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کو جینوا
میں اس کمشن کے اجلاس میں پاکستانی موقف بیان کرنے کے لیے بھیجا ۔انہوں نے قانون
،آئین اور بین الاقوامی قوانیں کی روشنی میں قادیانیوں کے الزامات کا جواب دیا۔
اس قانونی جنگ کا نتیجہ 30اگست1988کو سامنے آیا جب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے
کمشن نے بھی قادیانیوں کی درخواست کومسترد کر دیا اور حکومت پاکستان کے موقف کو
درست تسلیم کیا۔
پاکستان
میں حاصل حقوق کا جائزہ
حقیقت یہ ہے کہ قادیانی
اس ملک کی اقلیت ہیں انکو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو دیگر اقیلیتوں کو حاصل ہیں۔یہ
لوگ ملک میں کسی بھی جگہ ملازمت کر سکتے ہیں ، بڑے بڑے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں،
اسمبلی ہال میں ان کے لیے نشست مخصوص ہے جہاں وہ اپنا موقف اور آواز بلند کر سکتے
ہیں،جایئدادکی خریدو فروخت کر سکتے ہیں ۔پاکستان کے کئی بڑے ادارے انکی ملکیت ہیں
۔کاروبار کر سکتے ہیں۔ بطور شہری پاکستان میں بغیر کسی رکاوٹ کے سفر کر سکتے ہیں۔
مذہبی حوالے سے اپنی مرضی کے مطابق عبادت کر سکتے ہیں۔
آرٹیکل 19 اور 20 کو پیش کیا جاتا ہے کہ آزادی
رائے اور مذہبی آزادی ہے
19 Freedom of speech, etc.
Every citizen shall have
the right to freedom of speech and expression, and there shall be freedom of
the press, subject to any reasonable restrictions imposed by law in the
interest of the glory of Islam or the integrity, security or defence of
Pakistan or any part thereof, friendly relations with foreign States, public
order, decency or morality, or in relation to contempt of court, 34[commission of] 34 or incitement to an
offence.
20 Freedom to profess religion and to
manage religious institutions. Subject to law, public order and morality: (a) every citizen
shall have the right to profess, practice and propagate his religion; and (b) every
religious denomination and every sect thereof shall have the right to
establish, maintain and manage its religious institutions.
ہمیں
(بطور مسلمان )قادیانیوں پرہی اعتراض کیوں
ہے؟
کبھی کسی نے عیسائیوں ، یہودیوں ، ہندووں ، سکھوں پر کسی
قسم کا اعتراض نہیں کیا، ان کے مذہبی معاملات میں کبھی اعتراض نہیں کیا ، اپنی اپنی
مذہبی کتب کو جس طرح چاہیں بدلیں ان کا ترجمہ و تشریح کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں
، لیکن ان کے ساتھ یہ معاملہ کیوں ہے ؟ اس میں کچھ نکات ہیں:
• خود کو
اقلیت نہیں سمجھتے بلکہ آئین پاکستان کی صورت میں خود پر حملہ اور ظلم شمار کرتے
ہیں۔
• اسلامی
شعار کا استعمال کرتے ہیں۔
• قرآن مجید ، کلمہ ، عربی اور اسلامی ٹیکسٹ
اور لٹریچر وغیرہ جو ہمارا ہے یعنی
مسلمانوں کا ہے اس کو استعمال کرتے ہیں ۔ تو جو نصاب ہمارا ہے اس کا ترجمہ و تشرح
و تفسیر بھی ویسے ہی ہو گی جیسے مسلمان کرتے ہیں ان کے معانی و مفاہیم کا تعین
اسلامی اقدار کے مطابق ہو گا، (دفعہ 7 بی کے مطابق قرآن مجید کا ترجمہ مسلمانوں
کے عقائد کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔)۔مبارک ثانی کیس کی بحث میں‘‘ دین میں جبر نہیں
ہے اور کسی بھی مذہب کو اپنے اعتقادات کی ترویج کی اجازت ہے۔ لیکن اس بارے میں
• آئین کے آرٹیکل 20 کی تشریح اور
'امتناع قادیانیت ایکٹ 1984' کے بارے میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ
موجود ہے۔یعنی قادیانی اپنے عقائد کی تشہیر و ترویج اور تبلیغ و اشاعت قطعاًً نہیں
کر سکتے اس حوالے سے آئین پاکستان واضح ہے۔
• سپریم کورٹ امتناع قادیانیت ایکٹ 1984 میں
قرار دے چکی ہے کہ قادیانیوں کو اپنی چار دیواری کے اندر عبادت کرنے کا حق حاصل ہے
لیکن انہیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ شعار اسلام کو اپناتے ہوئے اپنے مذہب کی ترویج
کرسکیں۔
• اسلام
آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا بھی فیصلہ ہے کہ احمدیوں کو ایسی
چیز کی اجازت نہیں دی جاسکتی جس کے ذریعے وہ خود کو مسلمان ظاہر کر سکیں۔
سوشل
میڈیا کے حوالے سے تدریس
کوئی قادیانی (ربوی یا لاہوری) سوشل میڈیا (واٹس
ایپ، فیس بک، ٹوئیٹر ، انسٹٓ گرام وغیرہ )پر اپنے مذہب کی کوئی ممنوعہ کتاب یا اس
کا کوئی اقتباس یا گستاخانہ یا دل آزار مواد پر مبنی اس کا کوئی صفحہ یا پیرا شیئر نہیں کر سکتا۔ خلاف ورزی کی صورت میں ملزم کے
خلاف نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) میں تعزیرات
پاکستان کی متعلقہ دفعتا 298 بی اور 298 سی کے علاوہ الیکٹرانک سائبر کرائم کی روک
تھام (PECA) ایکٹ 2016 دفعہ 11 کے تحت مقدمہ درج ہو گا اور ناقابل ضمانت
مقدمہ درج ہو گا۔اگر ایسا مواد حضور نبی کریم یا قرآن مجید سے متعلقہ ہو تو یہ نبی
کریم ﷺ اور قرآن مجید کی بے حرمتی کرنے کے مترادف ہے اور اس کے مرتکب کے خلاف تعزیرات
پاکستان کی دفعہ 295 بی اور سی کے تحت
مقدمہ درج ہو گا۔
مزید یہ کہ ہم اس
مواد کو وہی سوشل میڈیا ٹیم کو رپورٹ بھی کریں تا کہ کم از کم ہمیں وہ مواد دوبارہ
دیکھنے کو نہ ملے ، مزید یہ کہ ان سائٹس کے سینسر ہوتے ہیں جو کہ آپ کی اکٹیویٹی
کو واچ کر رہے ہوتے ہیں آپ جب ان پوسٹوں کو رپورٹ کریں گے یا اگنور کریں گے تو
آپ کو دوبارہ یہ مواد ریفر نہیں کریں گے۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You