Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

11/11/24

اصلاح اعمال کا نبوی طریقہ | اصلاح کا نبوی طریق

اصلاح کا نبوی طریق

ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ و سلم نے رات کو نگرانی شروع فرمائی کہ صحابہ عمل کیسے کرتے ہیں؟ دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اتنی آہستہ آواز میں تلاوت کر رہے ہیں کہ کوئی کان لگا کر سنے تو بمشکل سننے میں آئے۔ آقا مدنی صلی الله علیہ وسلم آگے بڑھے، تو حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ اتنی زور سے تلاوت کر رہے تھے کہ سارا محلہ ان کی آواز سے گونج رہاتھا، صبح کو جب مسجد نبوی میں حاضر ہوئے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! آپ اتنی آہستہ آواز سے قرآن پاک کیوں پڑھ رہے تھے کہ کان لگا کر بھی بمشکل سنائی دیتا تھا؟ عرض کیا یا رسول الله! میں تو اسے سنا رہا تھا، جو نہ بہرہ ہے، نہ مجھ سے غائب ہے، ہر وقت حاضر وناظر اور سننے والا ہے، تو مجھے شور مچانے کی کیا ضرورت تھی!؟ جب حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ سے پوچھا کہ اے عمر! آپ اتنا چلا چلا کر کیوں پڑھ رہے تھے؟ عرض کیا: ”یا رسول الله، اوقظ الوسنان وأطرد الشیطان“ کہ میں اس لیے زور سے پڑھ رہا تھا کہ شیطان بھاگ جائے اور سوتے ہوئے جاگ جائیں کہ تم بھی قرآن شریف پڑھوا اور نماز ادا کرو۔

فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا"، وَقَالَ لِعُمَرَ:" اخْفِضْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًاپیارے آقا صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! آپ آواز ذرہ اونچا کریں او راے عمر! آپ آواز ذرہ، دھیمی کریں، تاکہ اعتدال پیدا ہو جائے۔ (سنن ابی داود:1329)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ کچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا «السام عليكم.» (تمہیں موت آئے) عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں اس کا مفہوم سمجھ گئی اور میں نے ان کا جواب دیا کہ «وعليكم السام واللعنة.» (یعنی تمہیں موت آئے اور لعنت ہو) بیان کیا کہ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ٹھہرو، اے عائشہ! اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی اور ملائمت کو پسند کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے سنا نہیں انہوں نے کیا کہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس کا جواب دے دیا تھا کہ «وعليكم» (اور تمہیں بھی)۔(صحیح بخاری: 6024)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک اعرابی کھڑا ہو کر مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ تو لوگ اس پر جھپٹنے لگے۔ (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا بھرا ہوا ڈول یا کچھ کم بھرا ہوا ڈول بہا دو۔ کیونکہ تم نرمی کے لیے بھیجے گئے ہو، سختی کے لیے نہیں۔ (صحیح بخاری:220)

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔(مَا بَالُ أَقْوَامٍ) لوگوں کا کیا حال ہے جو نماز میں اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہایت سختی سے روکا۔ یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اس حرکت سے باز آ جائیں ورنہ ان کی بینائی اچک لی جائے گی۔ (صحیح بخاری:750)

اصول یہی  ہیں کہ جس صورت میں غلطی کرنے والے یا اسے دیکھ کر متاثر ہونے والوں کی خیرخواہی زیادہ ہو اور جو صورت قرینِ حکمت ہو، اُسے اختیار کیا جائے، اور نفس کی آمیزش، دوسرے کی تحقیر یا اپنی بڑائی وغیرہ کے فاسد جذبات سے  پاک ہوکر خلوصِ دل سے اصلاح کی کوشش کی جائے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک دوسرے سے حسد نہ کرو(لَا تَحَاسَدُوا)، ایک دوسرے کے لیے دھوکے سے قیمتیں نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے اور اللہ کے بندے بن جاؤ جو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ مسلمان (دوسرے) مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے(وَلَا يَخْذُلُهُ)، ۔ تقویٰ یہاں ہے۔" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کیا، (پھر فرمایا): "کسی آدمی کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے،ہر مسلمان پر (دوسرے) مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہیں۔" (صحیح مسلم: 6541)

نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : فتنہ سویا ہوا ہوتا ہے اُس پر اللہ پاک کی لعنت ہو جو اس کو بیدار کرے (جامع صغیر: 5975)(آپ اس بحث سے اصلاح چاہتے ہیں یا فتنہ چاہتے ہیں ۔ اگر تو اصلاح چاہتے ہیں تو اس کا انداز بھی اپنائیں اور اگر آپ کے طریق اصلاح سے لوگوں میں فتنہ و فساد پھیل رہا ہے تو یقینا آپ کے انداز اصلاح میں کچھ خرابی ہے)

(کسی بھی بندہ مومن کی عزت اچھالنا  کتنا برا ہے : ابن ماجہ : 3932)

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ , قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ , وَيَقُولُ:" مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ , مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ , وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ , لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ , نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا". عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے: ”تو کتنا عمدہ ہے، تیری خوشبو کتنی اچھی ہے، تو کتنا بڑے رتبہ والا ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، مومن کی حرمت (یعنی مومن کے جان و مال کی حرمت) اللہ تعالیٰ کے نزدیک تجھ سے بھی زیادہ ہے، اس لیے ہمیں مومن کے ساتھ حسن ظن ہی رکھنا چاہیئے“۔

رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ (صحیح مسلم:177)

تم میں سے جوشخص منکر (ناقابل قبول کام) دیکھے اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے اوراگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے (اسے برا سمجھے اور اس کے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔

اصلاح کے تین درجات بیان کیے گئے ہیں : ہاتھ کے ساتھ ، زبان کے ساتھ ، دل میں تصور کرنا

اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ (سورۃ النحل:125)

اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو ،بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔

تین اصول  اس آیہ مقدسہ میں بیان کیے گئے ہیں :  حکمت ، وعظ حسنہ ، احسن مجادلہ

اگر آپ  خود کو اتنا پاک صاف اور راہ راست پر کہتے ہو تو اس طرح تو پر کوئی کہتا ہے میں ٹھیک ہوں میں ٹھیک ہوں ، اللہ جانتا ہے کون کتنا متقی ہے اس لیے جب کسی کی اصلاح کریں تو تمام پہلووں کا جائزہ لیں  اور اصلاح کے عمل کو جاری رکھیں ورنہ تم بھی اس دنیا میں جاری ہنگامے کا حصہ ہیں ، یعنی اپنی انا  کی تسکین ، اور شہرت کے لیے کر رہے ہیں

اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَؕ-اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْۚ-فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى(سورۃ النجم:32)

وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں مگر اتنا کہ گناہ کے پاس گئے اور رک گئے بےشک تمہارے رب کی مغفرت وسیع ہے وہ تمہیں خوب جانتا ہے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں حمل تھے تو آپ اپنی جانوں کو ستھرا نہ بتاؤ وہ خوب جانتا ہے جو پرہیزگار ہیں

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive