ایمان کی حقیقت اور حلاوت
(دل کو دنیا کی رغبت سے پاک کرنا اور سب کچھ
اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے لیے کرنا)
وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللهَ
وَرَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ
مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا (سورۃ الاحزاب:29)
وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی
حُبِّهٖ مِسْکِيْنًا وَّ یَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيْدُ مِنْکُمْ
جَزَآء وَّلَا شُکُوْرًا (سورۃ الدھر: 8،9)
اَلْاَخِلَّآء یَوْمَئِذٍ م بَعْضُهُمْ
لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ (سورۃ الزخرف:67)
یعنی متقین کی دوستیاں
سلامت رہیں گی کیوں کہ وہ جب بھی کسی سے دوستی کرتے ہیں تو صرف اللہ تعالی کے لیے
اس لیے اللہ پاک ان کی دوستیاں قیامت کے دن وائم رکھے گا۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ
عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" ثَلَاثٌ
مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ
أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ
إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ
يُقْذَفَ فِي النَّارِ".
ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ
سے ناقل ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین
خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ
کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ
کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس
لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔
امام
نووی فرماتے ہیں :
اہل علم نے ایمان کی مٹھاس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ:
·
بندے کو نیکی کے کام بجا لانے میں مزہ آئے
·
اللہ اور رسول کی خوشنودی کے لئے مشقتیں برداشت کرے
·
دنیوی اشیاء پر اللہ اور رسول کی رضا کو ترجیح دے
·
اپنے رب اور پیغمبر کی اطاعت کر کے اور ان کی مخالفت سے بچ
کر ان سے محبت کا اظہار کرے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ
النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ رَجُلًا زَارَ أَخًا
لَهُ فِي قَرْيَةٍ أُخْرَى، فَأَرْصَدَ اللَّهُ لَهُ عَلَى مَدْرَجَتِهِ مَلَكًا،
فَلَمَّا أَتَى عَلَيْهِ، قَالَ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: أُرِيدُ أَخًا لِي فِي
هَذِهِ الْقَرْيَةِ، قَالَ: هَلْ لَكَ عَلَيْهِ مِنْ نِعْمَةٍ تَرُبُّهَا؟ قَالَ:
لَا، غَيْرَ أَنِّي أَحْبَبْتُهُ فِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: فَإِنِّي
رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكَ بِأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَبَّكَ كَمَا أَحْبَبْتَهُ
فِيهِ ". (صحیح مسلم:2567)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی: ا"ایک
شخص اپنے بھائی سے ملنے کے لیے گیا جو دوسری بستی میں تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے
راستے پر ایک فرشتے کو اس کی نگرانی (یا انتظار) کے لیے مقرر فرما دیا۔ جب وہ شخص
اس (فرشتے) کے سامنے آیا تو اس نے کہا: کہاں جانا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں اپنے ایک
بھائی کے پاس جانا چاہتا ہوں جو اس بستی میں ہے۔ اس نے پوچھا: کیا تمہارا اس پر
کوئی احسان ہے جسے مکمل کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، بس مجھے اس کے ساتھ صرف
اللہ عزوجل کی خاطر محبت ہے۔ اس نے کہا: تو میں اللہ ہی کی طرف سے تمہارے پاس بھیجا
جانے والا قاصد ہوں کہ اللہ کو بھی تمہارے ساتھ اسی طرح محبت ہے جس طرح اس کی خاطر
تم نے اس (بھائی) سے محبت کی ہے۔
عَزَفَتْ
نَفْسِي عَنِ الدُّنْيَا، فَأَسْهَرْتُ لَيْلِي، وَأَظْمَأْتُ نَهَارِي.
وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى عَرْشِ رَبِّي بَارِزًا. وَكَأَنيِّ أَنْظُرُ إِلَى
أَهْلِ الْجَنَّةِ يَتَزَاوَرُونَ فِيهَا. وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ
النَّارِ يَتَضَاغَوْنَ فِيهَا. فَقاَلَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ: يَا حَارِثَةُ!
عَرَفْتَ فَالْزَمْ۔(مصنف ابن ابی شیبہ: کتاب الایمان)
ترجمہ:
دنیا میرے دل سے نکل گئی ہے راتوں کو عبادت کے لیے جاگتا ہوں اور دن بھر روضہ
رکھتا ہوں، اور گویا اب اللہ پاک کے عرش کو اپنی آنکھوں سے ظاہر دیکھتا ہوں ، اہل
جنت کو جنت میں دیکھتا ہوں ، اہل دوزخ کو دوزخ میں دیکھتا ہوں فرمایا تو حقیقت کو
پا لیا اس کو لازم پکڑ اور برقرار رکھ۔
الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ
اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ
قُعُوْدًا وَّ عَلٰى
جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ
خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ
الْاَرْضِۚ-رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ
هٰذَا بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ فَقِنَا
عَذَابَ النَّارِ(سورۃ اٰل عمرٰن:191)
وَ اصْبِرْ
نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ
وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ-تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ
لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ
كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا (سورۃ الکھف:28)
اور
اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے
اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگی کا سنگار(زینت)چاہو
گے اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی
خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا۔ (یعنی ان لوگوں کا سب کچھ اللہ
کے لیے ہوتا ہے ، ان کا اٹھنا بیٹحنا ، چلنا پھرنا ، سونا جاگنا ، لوگوں سے دوستی
اور ملاقاتیں سب اللہ کے لیے ہوتے ہیں )
نکتہ:مطلب
یہ کہ دل دو میں سے ایک کا ہی مرکز بنے
گا یا دنیا کا یا اللہ و رسول کی محبت اور یاد کا ۔ دنیا ہے تو اللہ کی یاد مانند
پڑ جائے گی اور اگر اللہ اور رسول کی محبت ہے تو دنیا کی فکر اور محبت دل میں جگہ
نہں پکڑ پائے گی۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You