اگر آج دین کے کسی بھی
معاملے میں کوئی شخص اپنی پرسیپشن اور انڈرسٹینڈنگز بیان کر رہا ہوتا ہے تو اس کے
پیش نظر چند باتیں ہوتی ہیں :
· دوسروں کی منجی ضرور ٹھوکنی ہے
· جو میں کہہ رہا ہوں وہی درست ہے
· جو دوسرے بیان کر رہے ہیں وہ غلط ہے
· جب تک دوسروں کو برا بھلا نہ کہہ لوں شاید
میری تبلیغ مکمل نہیں ہو گی
· لوگ بس میری ہی رائے کو قبول کریں اور
ترجیح دیں
· منفی سوچ جیسے دوسروں کو برا بھلا کہنے سے
شہرت ملے گی
· لوگوں پر طنز اور حقارت نہ کر لوں من کو
ٹھنڈ اور سکون نہیں ملے گا
آج اگر یہ پہلو مبلغین
اور واعظین اور سکالرز کے رویے سے ختم ہو
جائیں تو یقیناً بہت سے مذہبی جھگڑے اور معاملات حل ہو جائیں۔
ہونا
کیا چاہیے:
· اپنی تفہیم اور ادراک کو بیان کرنا چاہیے
· دوسروں کی رائے کا احترام کرنا چاہیے
· دوسروں کو رائے دینے کا پورا موقع دینا
چاہیے
· ممکن ہے جو دوسروں کا نکتہ نظر ہے وہ وہ
درست ہو اس لیے اپن نظریے اور تفہیم پر نظر ثانی کرنا چاہیے
· اگر دوسرے کی رائے بہتر ہو تو اس کو قبول
کرنا
· خود کو بھی دوسروں جیسا انسان سمجھنا چاہیے
اور اپنی ذات میں بھی غلطی کے امکانات کی گنجائش رکھنی چاہیے (یعنی یہ خیال رکھنا
کہ ہو سکتا ہے میں ہی غلط ہوں مجھ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے آخر میں بھی انسان ہوں)
· اگر دوسرا کوئی شخص اپنی پرسیپشن اور
انڈرسٹینڈنگ کے پیش نظر کسی نا کسی دلیل پر قائم ہے تو اس کے سامنے (مخصوص مسئلہ
یا آیت وحدیث کے ) مختلف پہلو رکھیں جو
آپ سمجھ رہے ہیں وہ بیان کریں (ممکن ہے : آپ کی پرسیپشن درست اور اولی ہوں ، اس
کی پرسیپشن بہتر و اولی ہوں)
اگر
یہ نکات سکالرز ، مبلغین اور واعظین کے رویے میں آ جائیں تو مزا ہی آ جائے۔
لیکن
ہمیں تو اپنی دکان داری کی فکر ہے ، دوسروں کو دوزخ میں ڈال کر باہر سے بڑی ساری
کنڈی اور تالہ لگانے کی فکر ہے،
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You