وحیِ
الٰہی اور عقلیت پرستی
عصرِ
حاضر میں انسانی فکر ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں عقل کو علم کا واحد سرچشمہ، اور
وحی کو محض انسانی تخیل یا تاریخی روایت سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جدید فلسفہ،
سائنسی ترقی، اور مادیت پر مبنی فکر نے انسان کے اندر یہ گمان پیدا کیا کہ وہ محض
عقل کی بنیاد پر حقیقتِ کائنات کو سمجھ سکتا ہے۔ مگر جب ہم عقل کے اپنے دائرے میں
اترتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود اپنی حدود سے آگاہ نہیں، اور ہر بار کسی نہ
کسی مقام پر ٹھہر جاتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں وحیِ الٰہی انسان کو وہاں روشنی
عطا کرتی ہے جہاں عقل کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔ زیرِ نظر مقالہ اسی حقیقت کو واضح
کرتا ہے کہ عقل ایک عظیم نعمت ضرور ہے مگر مکمل علم کا ذریعہ نہیں، اور وحی ہی وہ
الہامی روشنی ہے جو انسان کو حقیقتِ مطلقہ تک رسائی دیتی ہے۔
میں
نے اپنے مقالہ کو تین پہلووں میں تقسیم کیا ہے :
۱۔عقل
پرستی کی تاریخی و فکری بنیادیں
۲۔عقل
کی ناتمامی پر سائنسی و فلسفیانہ دلائل
۳۔
قرآن میں عقل پرستی کی تردید اور وحی کی برتری
وحی کا واضح موقف ہے ::::
اگر وحی ناقص ہو اور عقل تام ہو تو کبھی بھی وحی عقل کے حق میں دلائل نہ دیتی اور
نہ انسان کو عقل کےاستعمال کرنے کی ترغیب دیتی ، بار بار انسان کو افلا
تعقلون ، افلا یعلمون ، افلا یتذکرون ، افلا یتدبرون کہہ کر نہ جھنجھوڑتی، ، ، وحی عقل کے استعمال
پر زور دیتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی ایک سپریم پاور ہے اور اپنے اندر ایک
مکمل اعتماد رکھتی ہے کہ عقل ناقص ہے اور وحی تام ہے۔
(۱۔عقل
پرستی کی تاریخی و فکری بنیادیں ) تاریخِ
انسانی میں عقل پرستی کا آغاز یونانی فلسفہ سے ہوا
· سقراط (Socrates)
— 470 تا 399 قبلِ مسیح
· افلاطون(Plato)
— 427 تا 347 قبلِ مسیح
· ارسطو(Aristotle)
— 384 تا 322 قبلِ مسیح
مگر اس نے اپنے عروج کو یورپ کی روشن خیالی (Enlightenment) کے دور میں پایا، جہاں انسان نے کہا: “میں سوچتا ہوں، اس لیے میں
ہوں!” یہ اعلان دراصل وحی کے مقابل عقل کو “مطلق اتھارٹی” بنانے کا اعلان تھا۔
یونانی
فلاسفرز کے بعد ابتدائے اسلام میں مشرکین کے جملے اور اعتراضات بھی بتاتے ہیں:
وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي
الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ
إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءنَا عَلَى
أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ
(الزخرف: 23) “ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راہ
پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں
بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ
يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ
(یونس: 39) “بلکہ انہوں
نے جھٹلایا اس چیز کو جسے وہ اپنے علم سے گھیر نہ سکے۔
(۲۔عقل
کی ناتمامی پر سائنسی و فلسفیانہ دلائل)
لیکن جدید سائنس — جسے
عقل کی سب سے بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے — آج خود یہ اعتراف کر چکی ہے کہ انسانی
عقل محدود، متعصب اور ناقص ہے۔ سائنس بتاتی ہے کہ ہمارا دماغ حقیقت کو مکمل طور پر
perceive نہیں کر سکتا، ہم صرف “جزوی حقیقت” دیکھتے ہیں، اور باقی کو فرضیات
(Assumptions) سے پُر کرتے ہیں۔
انسانی
عقل کو ہمیشہ سے علم و حقیقت تک رسائی کا اعلیٰ ذریعہ سمجھا گیا ہے، مگر جدید سائنس،
فلسفۂ منطق اور نیورولوجی نے خود اس مفروضے کی اساس کو متزلزل کر دیا ہے۔ عقل اپنی
ساخت کے لحاظ سے محدود، حیاتیاتی اور خطاپر مبنی مظہر ہے۔ یہ صرف محسوسات سے ماخوذ
معلومات پر انحصار کرتی ہے اور ما بعد الطبیعی حقائق تک رسائی نہیں رکھتی۔ اس حصے میں
عقل کی ناتمامی کو جدید سائنسی تحقیقات اور عقلی دلائل کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے
علامہ
ابن خلدون کہتے ہیں کہ مغلوب قوم ہمیشہ غالب قوم کی نقالی کرتی ہےاور اس کو معتبر
سمجھتی ہے، ان کے اس اصول کے مطابق اس دور پر فتن میں بے شمار ، سکالرز (بغیر مذہبی تفریق کے) اہل مغرب کی علم و دانش اور فہم و فراست کے گیت گاتے ہیں
اور انہیں کے فہم کو اپناتے ہوئے اسلام کے متفقہ عقائد کی تاویل کرنے کی کوشش کرتے
ہیں ، جن میں سر سید جیسے نام بھی شامل ہیں اور یقینا امت مسلمہ ان کی ان تاویلات
کو مسترد کر چکی ہے۔
اس وجہ سے میں عقل کی کمزوری پر انہیں کے
گھر سے چند ایک دلائل ذکر کروں گا، شاید کہ گھر کی گواہی کو زیادہ معتبر سمجھا
جائے، ورنہ وحی تو روز ازل سے ہی یہ اعلان کر رہی ہے کہ عقل ناتمام ہے اور وحی
الہی ہی اصل علم و شعور کا سرچشمہ ہے۔
1. عقل ایک حیاتیاتی عمل — کمال سے عاری
عقل دماغ کا ایک حیاتیاتی
(neural-biological)
عمل ہے، جو صرف مادی معلومات (material data) پر کام کرتا ہے۔ چونکہ
دماغ خود نامیاتی ساخت رکھتا ہے، اس لیے اس کے نتائج بھی حیاتیاتی حدود کے اندر قید
ہیں۔
🧠 Christof Koch 2018 (The Feeling of
Life Itself )
“Consciousness
is a biological property, not an all-knowing entity.”
یعنی عقل حقیقتِ مطلق کا ادراک
نہیں کر سکتی، بلکہ صرف جاندار وجود کے تجربات کی عکاسی ہے۔ یہ
اس امر کا سائنسی ثبوت ہے کہ عقل کائنات کی کلی (total) حقیقت کا احاطہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
2. عقل کا ماخذ حواس ہیں — اور حواس محدود
عقل کا پورا سرمایہ حواسِ
خمسہ سے آتا ہے، اور حواس کی محدودیت بدیہی و سائنسی حقیقت ہے۔
👁
آنکھ صرف 400–700 نینو میٹر کے درمیان روشنی دیکھ سکتی ہے۔
👂
کان صرف 20Hz–20kHz
کی آواز سن سکتے ہیں۔
🧬
دماغ ان محدود احساسات سے آگے کسی حقیقت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
Bear,
Connors & Paradiso (2016), Neuroscience: Exploring the Brain, 4th ed.
یہ وہ نکتہ ہے جہاں عقل کا
محدود ہونا فطری (natural)
اور سائنسی دونوں حیثیتوں سے ثابت ہوتا ہے۔
3. انسانی عقل کے اندر “Biases” اور “Errors” کا فطری وجود
سائنس نے تسلیم کیا ہے کہ
انسانی عقل معروضی (objective)
نہیں۔ بلکہ وہ تعصب، احساسات، اور سابقہ تجربات سے
متاثر ہوتی ہے۔
📖
Kahneman (2011) لکھتے ہیں:
“Human
reasoning is not a machine of truth but a mechanism of justification.”
یعنی انسان عقل کو سچائی تک
پہنچنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
یہ Biases (جیسے Confirmation Bias, Anchoring,
Framing Effect) یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عقل خود اپنی خطا کو پہچاننے
سے قاصر ہے۔
4. “Quantum
Uncertainty” — حقیقت کا ادراک مشاہدے سے بدل جاتا ہے
سائنس کے مطابق، مشاہدہ خود
حقیقت کو تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ اصول Heisenberg
کے “Uncertainty Principle” سے ظاہر ہوتا ہے۔
Heisenberg ہیوجن برگ(1927):
“The
more precisely we measure one property, the less precisely we can know the
other.”
یہ اصول ثابت کرتا ہے کہ عقل
اور تجربہ کسی شے کی حقیقتِ مطلقہ تک رسائی نہیں رکھتے
یعنی یہ اصول بتاتا ہے کہ
کسی ذرّے (particle)
کی دو چیزوں — مثلاً: مقام (position) اور حرکت یا رفتار (momentum) — کو ایک ساتھ بالکل درست طریقے سے نہیں ناپا جا سکتا۔ یعنی اگر
ہم کسی ذرّے کا مقام بہت درست معلوم کر لیں، تو اس کی رفتار کے بارے میں ہمارا علم
اتنا ہی غیر یقینی ہو جائے گا، اور اگر رفتار بالکل ٹھیک معلوم کر لیں تو مقام کے
بارے میں یقین نہیں رہے گا۔
5. “Gödel’s
Incompleteness Theorem” — منطق کی اپنی بنیاد غیر کامل
اگر عقل کا سب سے مضبوط آلہ
"منطق" ہے، تو منطق خود اپنی حدود میں قید ہے۔
🧮
Gödel (1931) نے ثابت کیا کہ:
“No
consistent system of logic can prove all truths within itself.”
یعنی کوئی عقلی نظام اپنی
حدود سے باہر نہیں نکل سکتا۔
کُرٹ گوڈل (Kurt
Gödel) نامی ریاضی دان نے 1931ء میں یہ نظریہ پیش
کیا۔ اس نے بتایا کہ اگر کوئی منطقی یا ریاضیاتی نظام (system
of logic or mathematics) مکمل اور درست اصولوں پر قائم بھی ہو، تب
بھی اس نظام کے اندر کچھ ایسے جملے یا حقائق ضرور موجود ہوں گے جو سچ تو ہوں گے،
مگر اُنہیں اسی نظام کے اصولوں سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی: ہر منطقی نظام
محدود ہے۔ کوئی بھی نظام اپنی ذات سے باہر کے سچ کو نہیں سمجھ سکتا۔ ہر نظام کو کسی
اعلیٰ سطح کے ماخذ (higher source)
کی ضرورت رہتی ہے تاکہ وہ اپنے اندر کے خلا کو پُر کر سکے۔
6. Evolutionary
Biology — عقل “حق” نہیں، صرف “مفاد” کے مطابق سوچتی
ہے
سائنس کے مطابق انسانی دماغ
ارتقاء کے نتیجے میں بنا۔ اس کا مقصد حقیقت کا ادراک نہیں بلکہ بقا (Survival) ہے۔
📘
Deacon (1997), The Symbolic Species:
“Human
cognition evolved to ensure survival, not to discover absolute truths.”
یعنی عقل کے فیصلے "درست"
ہونے کی ضمانت نہیں دیتے، صرف "کارآمد" ہونے کی دیتے ہیں۔
یہ وحی کی طرف ایک اور اشارہ
ہے کہ اگر عقل بقاء کے لیے بنی ہے، تو حقیقت بتانے کے لیے وحی ضروری ہے۔
7. Memory Error
— علم کا بنیادی ذریعہ ناقابلِ اعتماد
نیورولوجی کے مطابق انسانی
حافظہ “ریکارڈنگ” نہیں، بلکہ “تخلیق” کرتا ہے۔ ہر
بار یاد کرنے پر دماغ حقیقت کو تھوڑا سا بدل دیتا ہے۔
📘 Loftus (2005),
Learning & Memory:
“Memory
is reconstructive; it is not a replay of reality.”
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان
اپنے تجربات کی درست تعبیر بھی برقرار نہیں رکھ سکتا —تو وحی کے بغیر “حقیقت” تک رسائی
کیسے ممکن ہو؟
8. شعور (Consciousness) کا سائنسی معمہ
سائنس اب تک یہ نہیں بتا سکی
کہ شعور کہاں سے آتا ہے۔ یہ خود عقل کی سب سے بڑی شکست ہے۔
Koch
(2018(
“We
do not know how consciousness arises from the physical brain.”
یعنی عقل اپنے ہی وجود کی
اصل نہیں جانتی، تو کائنات کی اصل کو کیا جانے؟
(۳۔
قرآن میں عقل پرستی کی تردید اور وحی کی برتری)
عقل کے مقابل وحی کی برتری
— قرآن مجید سے استدلال
قرآنِ
کریم نے عقل کی اہمیت ضرور بیان کی، مگر اسے مطلق نہیں مانا۔ وہ اسے *تفکر* اور *تدبر*
کا ذریعہ تو قرار دیتا ہے، مگر علمِ کامل کا نہیں۔
وحی
کا مفہوم اور اس کی معرفتی حیثیت
قرآن مجید میں وحی کو علمِ یقینی اور ہدایتِ کامل کا سرچشمہ قرار دیا گیا:
"وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ
وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ"
(النساء: 113) "اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی، اور تمہیں وہ سکھایا جو
تم نہ جانتے تھے۔" یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسان کی عقل بذاتِ خود حقیقتِ مطلقہ
تک رسائی نہیں رکھتی، بلکہ وہ وحی سے رہنمائی کی محتاج ہے۔ اسلامی فلسفۂ علم (Epistemology
of Revelation) کے مطابق، وحی علم کا الٰہی ماخذ (Divine
Source) ہے، جبکہ عقل ایک بشری آلہ (Human
Instrument) ہے۔ وحی انسان کو وہ معارف عطا کرتی ہے جو تجربے،
مشاہدے یا قیاس سے بالاتر ہیں، مثلاً ما بعد الطبیعیات (Metaphysics)، آخرت، اخلاقِ مطلق، اور الوہیت۔
1. علم کی محدودیت کا اعلان:
“وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا”
(الإسراء: 85) “اور تمہیں علم میں سے بہت تھوڑا دیا گیا ہے۔” یہ آیت انسان کے ہر علمی
و سائنسی غرور کو چیلنج کرتی ہے
2. ظن اور گمان کی بے ثباتی:
“إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي
مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا” (النجم: 28) “وہ گمان کے
پیچھے چلتے ہیں، اور گمان ہرگز حقیقت کا بدل نہیں۔” یہ عقل کی Epistemological
Failure ہے — یعنی عقل کے نتائج “ظن” سے آگے نہیں بڑھتے۔
3. وحی بطور “نور” — عقل بطور “آئینہ”
“قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّـٰهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ”
(المائدہ: 15) “تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور اور واضح کتاب آ گئی ہے۔” عقل خود
نور نہیں، بلکہ وہ نورِ وحی سے منور ہوتی ہے۔ وحی وہ قوت ہے جو عقل کی بصارت کو روشنی
عطا کرتی ہے۔
4. وحی کے بغیر عقل کی بے بسی:
“وَلَوْلَا فَضْلُ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنتُم
مِّنَ الْخَاسِرِينَ” (البقرہ: 64) “اگر اللہ کا فضل اور اس
کی رحمت نہ ہوتی، تو تم خسارے میں رہ جاتے۔” یعنی وحی کے بغیر عقل “خسرانِ حقیقت” میں
مبتلا ہو جاتی ہے۔
v
تمام
سائنسی و فلسفیانہ تجزیات سے واضح ہے کہ:
عقل ادراکِ محدود رکھتی ہے
تعصب، تجربہ، اور احساسات
سے متاثر ہوتی ہے
مادی دائرے سے باہر نہیں جا
سکتی
منطق اور علم دونوں اپنے اندر
نامکمل ہیں
لہٰذا وحی وہ واحد ذریعۂ علم ہے جو عقل کی ناتمامی
کو مکمل اور انسانی علم کو ما بعد الطبیعی حقیقت سے جوڑتی ہے۔ “عقل کا کام راستہ دکھانا
ہے، منزل نہیں بنانا۔ منزل صرف وحی بتاتی ہے — اور یہی اس کی فوقیت کا راز ہے۔”
نتیجہ:
سائنس، منطق، اور فلسفہ — تینوں اس حقیقت پر متفق
ہیں کہ عقل **ناتمام** ہے: * اس کے وسائل محدود ہیں، * اس کے فیصلے متغیر ہیں، * اس
کی بنیاد ظن و قیاس ہے، * اور اس کا دائرہ محسوسات تک محدود ہے۔ جبکہ وحی، جو علمِ
الٰہی کا ظہور ہے، وہ عقل کو روشنی عطا کرتی ہے۔ عقل روشنی کو سمجھ سکتی ہے، مگر پیدا
نہیں کر سکتی۔ > **عقل چراغ ہے، مگر روشنی نہیں؛ > روشنی صرف وحی سے ملتی ہے۔
سائنس کی آج تک کی تمام
تر کھوج ، تجربات ، مشاہدات کوئی بھی وحی
کی کسی بات کا رد نہیں کر سکے ، بلکہ جب بھی سائنس کا کوئی متفقہ اصول اور تجربہ
شدہ مشاہدہ سامنے آیا اس نے وہی نتیجہ نکالا جو وحی نے پہلے بتایا تھا۔ (یہ ایک
الگ سے موضوع ہے جس پر کئی مقالاہ جات پیش کیے جا سکتے ہیں اور یقینا کیے جا چکے
ہیں)
محترم حاضرینِ کرام!
انسانی عقل، یقیناً خالق کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اسی کے ذریعے انسان نے زمین کے راز
کھولے، فضا میں اڑا، اور ایٹم کے دل تک پہنچا۔ مگر عقل کے تمام تر کارناموں کے
باوجود وہ “حقیقتِ مطلقہ” تک نہیں پہنچ سکی۔ کیونکہ عقل کا دائرہ مشاہدے اور تجربے
تک محدود ہے، اور جہاں مشاہدہ ختم ہوتا ہے، وہاں سے وحی کی روشنی شروع ہوتی ہے۔ آج
کا انسان، جس نے سائنس کے ذریعے مادّی ترقی کی معراج چھو لی ہے، وہ اپنی عقل کے
سہارے خدا، روح، اور آخرت جیسے حقائق کو پرکھنے چلا ہے۔ لیکن جب وہ ان حقائق کو لیبارٹری
کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، تو وحی کے بجائے خود اپنی عقل کی محدودیت میں
قید ہو جاتا ہے۔ قرآن نے اسی حقیقت کو بڑے بلیغ انداز میں واضح کیا:
وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (الإسراء: 85)
“تمہیں علم میں سے بہت تھوڑا ہی دیا گیا ہے۔” یہ آیت گویا انسان کو یاد دلاتی ہے
کہ تمہارے علم کے افق محدود ہیں۔
تحقیق و تدوین : محمد سہیل عارف معینیؔ ( پی ایچ ڈی سکالر یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور)