Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

4/5/25

The Structure and Values of Family in Muslim Society مسلم معاشرے میں خاندان کی ساخت اور اقدار

مسلم معاشرے میں خاندان کی ساخت اور اقدار

خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جو کسی بھی اچھے یا برے معاشرے کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے. انسانی زندگی پیدائش سے موت تک سیکھنے کے ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ جینیات, عقل ،تعلیم و تربیت ،رسوم و رواج ،عقائد ،غور و فکر ماحول اور معاشرہ یہ تمام وہ عناصر ہیں جو انسانی عقل کی نشونما اور شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں جن سے انسان کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ کیسا انسان ہے۔ انسان اپنی سوچ کا عکس ہوتا ہے جیسی سوچ ہوتی ہے ویسے رویے ہوتے ہیں اور جیسے رویے ہوتے ہیں ویسے عمل ہوتے ہیں۔ انسان کی سوچ بنتی کیسے ہے اور اسے تبدیل کیسے کیا جاسکتا ؟ زندگی کی ہر سحر کچھ سکھا کر اور ہر ڈھلتا سورج انسان کو کوئی نہ کوئی تجربہ دے کر جاتا ہے۔ اچھی تعلیم اور تربیت ہی انسانی سوچ کو تبدیل کر سکتی ہےجو انسان کو نہ صرف شعور دیتی ہے بلکہ انسانی عقل کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے ۔ انسان بہتر طریقے سے سوچنے اور چیزوں سمجھنے لگتا ہے اور اس سے اہم بات تسلیم کرنا ہیں اور جس انسان نے تسلیم کرنا سیکھا گویا وہی کامیاب انسان ہے انسانی تاریخ نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ ہر دور میں انسان کی پہلی فوقیت امن رہی ہے کیونکہ امن ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے انسانی اور معاشرتی ترقی ممکن ہے ۔معاشرے کی ترقی میں امن کا یقینا بہت بڑا کردار ہے لیکن اس سے بھی بڑا کردار میرا اور آپکا ہے ۔ ہم سب کا اور ہمارے خاندانوں کا ہے کہ جن پر یہ ذمہ داری آتی ہے کہ امن کو برقرار رکھنے اس کے تحفظ اور فروغ میں اپنا کردار ادا کریں ۔

امن کا سفر ایک فرد سے اور اس کے کنبہ سے شروع ہوتا ہے جس کے لیے تعلیم و تربیت اور شعور کا ہونا بہت لازمی ہیں ارسطو کا قول ہے کہ تم مجھے ایک تعلیم یافتہ ماں دو میں تمہیں ایک تعلیم یافتہ قوم دوں گا یہاں تعلیم سے مراد حقیقی سمجھ آگاہی اور شعور ہے کسی بھی چیز کو صرف جان لینا کافی نہیں بلکہ اس کی تحقیق لازمی ہے اور اس کی گہرائی انسان تب ہی جان سکتا ہے جب وہ اسے وقت اور توجہ دے امن کا یہ سفر سب سے پہلے ہمارے گھر سے شروع ہوتا ہے جب ہم اپنے بچے کو صحیح تربیت معیاری تعلیم اور چیزوں کو جاننے آگاہی شعور اور ان کو ایک سیٹ کرنے کی صلاحیت اپنے بچے میں پیدا کرتے ہیں تو وہ بچہ باسانی خیرو شر میں فرق کر سکتا ہے اپنے بچوں کو بری عادات، معاشرتی برائیوں سے بچنے میں مدد کرنی چاہئے۔ اپنے بچوں کو وقت دینا اور ان کی سرگرمیوں کو دیکھنا والدین کا فرض ہے ہمارے معاشرے میں اکثر والدین بچوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو معاف کر دیتے ہیں بعض اوقات بچہ اگر کوئی بڑی غلطی کر بھی لے تو والدین بجائے اس کو روکنے ٹوکنے کے ان پرپردہ ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ بری راہ اختیار کرتا ہے اور چھوٹی چھوٹی غلطیاں اسے غلطیاں نہیں لگتی ہیں اور بعد میں وہی غلطیاں گناہوں میں تبدیل ہو جاتی ہے جن کے نتائج پورے معاشرے کو بھگتنے پڑتے ہیں۔

بہترین معاشرہ بہترین خاندانی نظام پر منحصر ہوتا ہے۔ اور بہترین خاندان افراد کی بنیادی ذمہ داریوں ادائیگی کے سبب تشکیل پاتا ہے۔ ہم بیک وقت کسی بھی خاندان میں مختلف حیثیتوں کے مالک ہوتےہیں۔ ہم اولاد، بہن بھائی، والدین اور ایسے ہی کئی رشتوں میں خاندان سے منسلک ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر حیثیت میں اپنی ذمہ داری بطریق احسن نبھائیں۔ والدین پر لازم ہے کہ جدید تقاضوں کی روشنی میں اولاد کی تربیت کریں۔ انھیں بہترین تعلیمی سہولیات دیں۔ اسی طرح بچوں پر لازم ہے کہ وہ والدین کی رہنمائی سے استفادہ کریں اور ایک مثالی معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ معاشرے کی تشکیل میں ہر فرد کی حیثیت اہم ہے۔ ہر ایک شخص معاشرے کی اچھی یا بری تشکیل پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اسی لیئے ہر فرد کو اہمیت حاصل ہے۔ اقبال اس پر یوں گویا ہوئے ہیں:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

خاندان کی ابتدا مَرد اور عورت کی شادی سے ہوتی ہے، پھر ان کی اولاد کے ساتھ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا رہتا ہے۔ یوں تو خاندان کو اپنی ساخت کے اعتبار سے کئی اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کی دو اقسام زیادہ مقبول اور اہم ہیں۔ ایک قسم ’’انفرادی خاندان‘‘کہلاتی ہے، جو میاں بیوی اور اُن کی اولاد پر مشتمل ہے۔ دوسری قسم ’’مشترکہ خاندان‘‘ ہے، جہاں کم از کم دو یا اس سے زیادہ نسلیں مل کر رہ رہی ہوں۔

خاندان کا ایک بڑا مفہوم قبیلہ تھا جو کہ ایک دوسرے کی مدد وتعاون کی اساس پرقائم ہو۔چاہے وہ مدد وتعاون ظلم پر ہی ہو ، توجب اسلام آیا تویہ سب غلط اشیاء کومٹا کرعدل وانصاف کرتے ہوئےہرحقدارکواسکاحقلےکردیاحتیدودھپیتےبچےکوبھیاسکاحقدلایا،حتیکہساقطہونےوالےبچہکوبھییہحقدیاکہاساسکیقدرکیجاۓاوراسپرنمازجنازہپڑہیجائے۔

اورآج کے موجودہ دورمیں یورپ کے خاندان کودیکھنے اوراس پرنظر دوڑانے والا اسے بالکل ٹوٹا پھوٹا اورجدا جدا ہوا چکے دیکھے گا والدین کوکسی قسم کوئ حق نہيں کہ وہ اولاد پرکنٹرول کرسکیں نہ توفکری اورنہ ہی خلقی اعتبار سے ۔یورپ میں بیٹے کویہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے اورجو چاہے کرتا پھرے اسے کو‏ئ روکنے والا نہیں ، اوربیٹی کوبھی یہ آزادی ہے کہ وہ جہاں اورجس کے ساتھ مرضی بیٹھے اورآزادی اورحقوق کی ادائیگي کے نام سے جس کے ساتھ سوتی رہے اورراتیں بسرکرتی پھرے توپھرنتیجہ کیا ہوگا ؟

بکھرے خاندان ، شادی کے بغیر پیداشدہ بچے ، اورماں باپ کا خیال رکھنے والا کو‏ئ نہیں اورنہ ان کا کوئ غمخوار ہے ، کسی عقلمند نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ :

"اگرآپ ان لوگوں کی حقیقت کا جاننا چاہتے ہيں توآپ جیلوں اورہسپتالوں اوربوڑھے لوگوں کے گھروں میں جا کر دیکھے ، اولاد اپنے والدین کوصرف تہواروں اور کسی خاص فنگشنوں میں ہی ملتے ہیں اوروہیں ان کی ایک دوسرے سے پہچان ہوتی ہے" ۔

توشاھد یہ ہے کہ غیرمسلموں کے ہاں خاندان ایک تباہ حالی کی حیثیت رکھتا تھا جب اسلام آیاتو اس نے خاندان کواکٹھااوراسے استوار کرنے کا بہت زيادہ خیال رکھتے ہوۓاسہراسچيزسےحفاظتکیجواسکےلیےنقصاندہاوراذیتکاباعثبنسکے۔

اورخاندان کوایک دوسرے کے ساتھ ملانے کی حفاظت کرتے ہوۓاسکےہرفردکواسکیزندگیمیںاہمکرداربھیدیاجسےاداکرکےایکاچھاخاندانبنسکتاہے۔

خاندان کی ساخت

 

والدین کا کردار

والدین سے حسن سلوک کو اسلام نے اپنی اساسی تعلیم قرار دیا ہے۔ اور ان کے ساتھ مطلوبہ سلوک بیان کرنے کے لئے ’’احسان‘‘ کی جامع اصطلاح استعمال کی جس کے معانی کمال درجہ کا حسن سلوک ہے۔ہر مرد اور عورت پر اپنے ماں باپ کے حقوق ادا کرنا فرض ہے۔ والدین کے حقوق کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتاہے۔

وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًاO وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاO[1]

’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اف‘‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کروo اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجزو انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔‘‘

والدین کی خدمت و اطاعت اور تعظیم و تکریم عمر کے ہر حصے میں واجب ہے بوڑھے ہوں یا جوان، لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت سے ہے کہ اس عمر میں جاکر ماں باپ بھی بعض مرتبہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور عقل و فہم بھی جواب دینے لگتی ہے اور انہیں طرح طرح کی بیماریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں۔ وہ خدمت کے محتاج ہوجاتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات بھی کچھ ایسے ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لئے قرآن حکیم میں والدین کی دلجوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت (یعنی بچپن کا زمانہ) یاد دلایا کہ کسی وقت تم بھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بے عقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے ان سابق احسان کا بدلہ ادا کرو۔

جس طرح قرآن حکیم میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اسی طرح کئی احادیثِ مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا : اس کی ناک غبار آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل و رسوا ہو)۔ کسی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ حضور نے فرمایا کہ جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے والدین کی خدمت کرنے کو جہاد سے افضل قرار دیا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں شریک جہاد ہونے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا، آپ نے اس سے دریافت کیا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا فَفِيْھَا فَجَاِھد یعنی بس اب تم ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو یعنی ان کی خدمت سے ہی جہاد کا ثواب مل جائے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کو کبیرہ گناہ قرار دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کوئی شخص اپنے والدین پر بھی لعنت کر سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

يَسُبُّ الرَّجُلُ أبَا الرَّجُلِ فَيَسُبَّ أبَاهُ، وَيَسُبُّ أمُّهُ فَيَسُبُّ أمُّهُ.

’’کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا یہ اور کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دیے اور وہ (بدلے میں) اس کی ماں کو گالی دے (تو یہ اپنے والدین پر لعنت کے مترادف ہے)۔‘‘

اسی طرح آپ ﷺ نے والدین کے انتقال کے بعد بھی نیک اعمال کا ایصال ثواب اور ان کے دوستوں سے حسنِ سلوک کی صورت میں ان سے حسن سلوک جاری رکھنے کی تعلیم دی۔

بہن بھائیوں کا کردار

بہن بھائیوں کا تعلق ان رشتہ داروں سے ہے جن کے متعلق صلہ رحمی کا حکم شریعت میں دیا گیا ہے؛ جیسے کہ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے: (اللہ تعالی نے فرمایا: میں رحمن ہوں، اور [رشتہ داری کیلیے عربی لفظ]رحم کو میں نے اپنے نام سے کشید کیا ہے، چنانچہ جو شخص رحم [رشتہ داری کو] جوڑے گا میں اسے جوڑ دوں گا اور جو اسے توڑے گا میں اسے جڑ سے توڑ دوں گا) ۔رسول اللہﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (جس شخص کو اچھا لگتا ہے کہ اسے لمبی عمر دی جائے اور اس کا رزق فراخ کر دیا جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔) دیگر مسلمانوں کے ساتھ بہن بھائیوں اور والدین کے مشترکہ حقوق جن میں والدین اور بہن بھائیوں کو واضح ترجیح حاصل ہے ان میں یہ بھی شامل ہے کہ : جب بھی آپ ان سے ملیں تو انہیں سلام کہیں، جب آپ کو دعوت دیں تو ان کی دعوت قبول کریں، جب چھینک لے کر الحمدللہ کہیں تو اس کا جواب دیں، وہ بیمار ہوں تو ان کی تیمار داری کریں، اگر فوت ہو جائیں تو ان کے جنازے میں شرکت کریں، اگر وہ آپ پر قسم ڈال دیں تو ان کی قسم کو پورا کریں، جب آپ سے مشورہ طلب کریں تو انہیں صحیح مشورہ دیں، ان کی عدم موجودگی میں ان کے حقوق کی حفاظت کریں، آپ ان کے لیے بھی وہی پسند کریں جو آپ اپنے لیے پسند کرتے ہیں، اسی طرح جو اپنے لیے اچھا نہیں سمجھتے دوسروں کے لیے بھی اچھا مت سمجھیں۔ ان تمام امور سے متعلق صحیح احادیث موجود ہیں۔اسی طرح بہن بھائیوں اور والدین میں سے کسی کو بھی عملی یا قولی کسی بھی قسم کی اذیت نہ پہنچائیں؛ اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر تمام مسلمان محفوظ ہوں)۔اسی طرح ایک اور لمبی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اچھے اعمال  کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (اگر تم [کسی کا بھلا کرنے کی ] استطاعت نہیں رکھتے تو پھر لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھو؛ کیونکہ یہ تمہارے لیے اپنی جان پر صدقہ ہے۔)

میاں بیوی کا کردار

واضح رہے کہ میاں بیوی کا رشتہ قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے حسن اخلاق سے نبھایا جائے تو یہ رشتہ کامیاب رہتا ہے ،ضابطہ کی روسے جہاں بہت ساری ذمہ داریاں بیوی پر عائد نہیں ہوتیں وہیں شوہر بھی بہت سے معاملات میں بری الذمہ ہوجاتا ہے ۔  لیکن دوسری طرف حسن معاشرت کا تقاضا اور بیوی کی سعادت ونیک بختی اس میں ہے کہ وہ شوہر اور اس کے والدین کی خدمت بجالائے نیزاگر کبھی شوہر کسی خدمت کا حکم دے تو اس صورت میں بیوی پر اس کی تعمیل واجب ہوجاتی ہے۔شوہرکی خدمت ،تابعداری اوراطاعت کے سلسلہ میں رسول اللہﷺ کے بے شمارارشادات موجودہیں،چناں چہ ایک حدیث میں ہے:

''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اگرمیں کسی کویہ حکم کرتاکہ وہ کسی (غیراللہ)کوسجدہ کرے تومیں یقیناًعورت کوحکم کرتاکہ وہ اپنے خاوندکرسجدہ کرے۔"

صاحب مظاہرحق اس کے ذیل میں لکھتے ہیں:

''مطلب یہ ہے کہ رب معبودکے علاوہ اورکسی کوسجدہ کرنادرست نہیں ہے اگرکسی غیراللہ کوسجدہ کرنادرست ہوتاتومیں عورت کوحکم دیتاکہ وہ اپنے خاوندکوسجدہ کرے،کیوں کہ بیوی پراس کے خاوندکے بہت زیادہ حقوق ہیں،جن کی ادائیگی کرسے وہ عاجزہے،گویااس ارشادگرامی میں اس بات کی اہمیت وتاکیدکوبیان کیاگیاہے کہ بیوی پراپنے شوہرکی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہے۔"

نیزشوہروں کوبھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ حسن سلوک کی تاکیدکی گئی ہے،چنانچہ ایک روایت میں ہے:

"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں بہترین شخص وہ ہے جواپنے اہل(بیوی،بچوں،اقرباء اورخدمت گاروں)کے حق میں بہترین ہو،اورمیں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں۔"

اس مسئلہ میں اعتدال کی ضرورت ہے،نہ یہ  کہ تمام ذمہ داریاں بیوی پرڈال دی جائیں اورنہ یہ کہ بیوی اپنے ضرورت مندشوہریاساس،سسرکی خدمت سے بھی دامن کش ہوجائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اورحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہماکے نکاح کے بعد کام کی تقسیم اس طرح فرمائی تھی کہ باہرکاکام اورذمہ داریاں حضرت علی رضی اللہ عنہ انجام دیں گے اورگھریلوکام کاج اورذمہ داریاں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکے سپردہوں گی۔جب سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی اس ذمہ داری سے مستثنیٰ نہیں تودوسری خواتین کے لیے کیوں کراس کی گنجائش ہوسکتی ہے؟

اسی طرح شادی کے بعد میاں بیوی دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے، ا س کے بغیر پرسکون زندگی کاحصول محال ہے، شریعتِ مطہرہ  میں میاں بیوی کے باہمی حقوق کو  بہت اہمیت  کے ساتھ  بیان  کیا گیا ہے اور  دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کے بہت تاکید کی گئی ہے۔



[1]۔ الاسراء: 23-24

 

Share:

اسلامی معاشرے میں خاندان اور جینڈر کا کردار The Role of Family and Gender in Islamic Society


اسلامی معاشرے میں خاندان اور جینڈر کا کردار

اسلام ایک مکمل دین ہی نہیں بلکہ ضابطہ حیات بھی ہے۔معاشرے میں رہن سہن کے لیے انسان تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسی لیے انسانوں کے ساتھ رہنے کا نظام بنایا گیا ہے جو صدیوں سے رائج ہے۔

اس نظام کے تحت انسان کسی معاشرے میں رہنے کے لیے معاشرے میں تعلقات استوار کرتا ہے۔ اپنا گھر بناتا ہے اور پھر اس کا منتظم بن کر اس کے نظام کو احسن طریقے سے چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس نظام کو خاندان کہا جاتا ہے۔ اس میں کسی بھی انسان کے قریبی اور خونی رشتے دار شامل ہوسکتے ہیں۔اسلام ہماری زندگی کو صرف نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد اور دعوت و تبلیغ تک ہی محدود نہیں رکھتا بل کہ یہ ہمیں اُس راستے پر گام زن ہونے کی ہدایت دیتا ہے جس پر انسانیت کے سب سے عظیم محسن نبی کریمتھے، جن کی مبارک زندگی ساری انسانیت کے لیے نمونہ اور اسوہ ہے۔

نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ کا روشن اور مثالی پہلو یہی ہے کہ انہوں نے صرف نماز و روزہ کی تلقین نہیں کی بل کہ شخصی، خانگی، خاندانی اور انسانی حقوق کے متعلق سب سے بڑھ کر پیغام دیا، کام کیا اور اپنے صحابہ﷢ کو اس کی تلقین فرمائی۔ اسلام نے نیکی کا جو جامع تصور دیا ہے، اس میں بھی خدمت خلق، حقوق انسانیت، اقرباء پروری، رہن سہن اور معاشرت، ایک لازمی حصہ ہے۔

خاندان، درج ذیل افراد سے تشکیل پاتا ہے: شوہر، بیوی، اولاد، والدین اور دیگر رشتے دار۔اسلام نے ان تمام کے حقوق کی تفصیل بیان کی ہیں، ان کی ادائی کی تاکید کی ہے اور ان کی پامالی سے ڈرایا ہے۔ اسلام خاندان کا وسیع ترین تصور رکھتا ہے۔ ایک مسلم خاندان میں صرف میاں، بیوی اور بچے ہی شامل نہیں ہوتے بل کہ دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، چچی، پھوپھیاں، ماموں، خالہ وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔

اسلام ایسے خاندان کا ایک تصور پیش کرتا ہے جو حقوق و فرائض اور خلوص و محبت، ایثار و قربانی کے اعلیٰ ترین قلبی احساسات اور جذبات کی مضبوط ڈوریوں سے بندھا ہوا ہو۔ اسلام خاندان سے بننے والے معاشرے کے جملہ معاملات کی اساس اخلاق کو بناتا ہے۔

اسلام کے نزدیک معاشرے کا بنیادی ادارہ خاندان ہے جس کی بہتری، بھلائی اور ابتری اور بربادی پر معاشرے کی حالت کا انحصار ہوتا ہے۔ اسلام نے خاندان کی طرف خصوصی توجہ دی ہے تاکہ اس ادارے کو مضبوط بنایا جائے اور ایک مضبوط، صالح اور فلاحی معاشرے کا قیام وجود میں آئے جو انفرادی و اجتماعی حقوق و فرائض کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے۔ اسلام خاندان کی بنیاد پاکیزہ اور مستحکم رکھنے کا حکم دیتا ہے۔

اسلام دین فطرت ہے۔ چنانچہ اسلامی خاندانی اصولوں، قوانین و ضوابط اور اقدار میں اس بات کو قطعی فراموش نہیں کیا گیا کہ بحیثیت انسان اس کی فطری خواہشات اور ضروریات کیا ہیں، کیوں کہ انسان کو اﷲ تعالیٰ نے تخلیق کیا ہے چناں چہ وہی جانتا ہے کہ اس کے لیے اس کی فطرت، جبلت اور ضرورت کے مطابق کیا چیز ہو سکتی ہے۔ انسان کے اندر پایا جانے والا صنفی میلان انسانی بقاء اور نسل انسانی کے فروغ کے لیے انتہائی ضروری ہے اور اس صنفی میلان کے حوالے سے وہ بااختیار ہے کہ ایسے طریقے اختیار کرے جو خاندان کے استحکام کا باعث ہوں یا انتشار کا موجب ہوں۔

اسلام فرد کو اہمیت دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ خاندان اور خاندانوں کے باہمی اشتراک سے پیدا ہونے والے قبیلے اور برادری سے تشکیل پانے والی اقوام یا امت کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ معاشرے کے ہر دائرے کے حقوق کا تحفظ اور فرائض کا تعین کرتا ہے، یوں اسلامی معاشرے میں ہر اکائی کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہوتی ہے۔

انسانی زندگی فرد سے شروع ہو کر لہر در لہر پھیلتی چلی جاتی ہے ایک دائرے سے دوسرا پیدا ہوتا ہے اور بالآخر اسلام کا دائرہ یا امت مسلمہ کا دائرہ سب دائروں پر محیط ہو جاتا ہے جس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے: فرد، گھر، معاشرہ اور امت مسلمہ۔ خاندان یا کنبے کا مفہوم اگرچہ کافی وسیع معنوں میں استعمال ہوسکتا ہے یہاں تک کہ اس میں گھر کے خادمین وغیرہ بھی شامل ہوسکتے ہیں لیکن بنیادی طور پر کنبہ میاں بیوی اور اولاد پر مشتمل ہوتا ہے، یہی مفہوم ساری دنیا میں لیا جاتا ہے۔ اس لیے خانگی زندگی پر جب بحث کی جاتی ہے تو اس کے اراکین شوہر، بیوی اور اولاد ہی سمجھتے جاتے ہیں۔

اسلامی نقطہ نظر سے خاندان کے مقاصد بہت بلند اور اہم ہیں،۔ ہر مسلمان کو نیکی کی ابتداء اپنے گھر سے کرنے کی ہدایت ہے اور اہل خانہ کو قرآن میں بھی ’’اہل‘‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔

اسلام نے نکاح کو خاندان کی بنیاد بنایا ہے۔ اسلام نے بدکاری کو حرام اور نکاح کو پسندیدہ قرار دیا ہے کیوں کہ اسلام ایک خاندان کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنا چاہتا ہے۔ اسلام کی رُو سے خاندان کی مضبوط بنیاد نکاح کے ذریعے پڑتی ہے۔ چناں چہ وہ اس بنیاد کو خالصتاً خلوص، محبت، پاکیزگی، دیانت داری اور مضبوط معاہدے سے مزین کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اسلام کسی بھی ایسے فکر و عمل کی اجازت نہیں دیتا جس سے کسی فرد یا اجتماع کا مفاد متاثر ہوتا ہو۔ اسلام کا مزاج عادلانہ روایات پر قائم ہے جو کسی بھی معاشرے کی بقاء کے لیے لازم و ملزوم ہے۔

زوجین کا کردار

خاندان کی تعمیر میں زوجین کی ہم آہنگی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک مکمل معاشرے کے قیام کا آغاز گھر سے ہوتا ہے جو خاندان سے تشکیل پاتا ہے۔ خاندان کی تعمیر و اِستحکام زوجین کے مابین محبت و مودت، اُلفت و رحمت اور ایثار بھرے تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

وَمِنْ اٰیٰـتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَo[1]

"اور یہ (بھی) اس کی نشانیوںمیں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں"۔

باہمی ہم آہنگی سے رشتہ داروں، دوستوں اور دیگر افراد کی ازدواجی زندگی میں مداخلت کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اور میاں بیوی اپنے تنازعات اور اختلافات کو خود تک محدود رکھتے ہوئے خود ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں ایک دوسرے کو تنقید و مذمت کا نشانہ بنائے بغیر مسائل حل ہو جاتے ہیں اور محبت و چاہت، سکون اور طمانیت کے باعث ازدواجی زندگی مزید خوبصورت اور شاندار ہو جاتی ہے۔ معاشی مسائل اور اُمور کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔اس طرح وہ اپنی معاشی ضروریات اور صورت حال سے آگاہ رہتے ہوئے دوسروں کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ جاتے ہیں۔

خاندان کی تعمیر و اِستحکام کے لیے میاں بیوی دونوں قربانیاں دیتے ہیں مگر ان قربانیوں کی صورتیں جداگانہ اور نوعیت مختلف ہوتی ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے کام کی تعریف و توصیف کرتے ہیں اور اسے سراہتے ہیں جس سے نہ صرف ازدواجی زندگی میں محبت بڑھتی ہے بلکہ خاندان کی بنیادیں بھی مستحکم ہوتی ہیں۔

صنفی کردار اور خاندان

اسلام کے مطابق مرد اور عورت کو اللہ نے الگ الگ سماجی کردار ادا کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ دونوں اصناف سماجی حیثیت کے لحاظ سے یقیناً برابر ہیں، لیکن ان کے جسم، نفسیات اور معاشرتی کردار اور ذمے داریوں میں فرق ہے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے تکمیل کنندہ (complementary) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حیاتیاتی لحاظ سے بھی اور معاشرتی لحاظ سے بھی۔ مرد عورت کے بغیر نامکمل ہے اور عورت مرد کے بغیر۔ اللہ نے ان کے درمیان حیاتیاتی فرق پیدا کیا ہے، اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ ان دونوں سے الگ الگ حیاتیاتی کردار اور ذمے داریاں بھی متوقع ہیں۔نہ مرد اکیلے بچے پیدا کرسکتا ہے اور نہ بچوں کی پیدائش میں وہ کردار ادا کرسکتا ہے جو عورت کے لیے مخصوص ہے۔ اسی سے خود بخود سماجی فرق واقع ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی پرورش میں بھی بعض کردار ایک عورت ہی ادا کرسکتی ہے، مرد ادا نہیں کرسکتا۔ ماں کی کوکھ سے پیدا ہونے کی وجہ سے اور اس کا دودھ پینے کی وجہ سے جو اُنس اور قربت بچے ماں کے تئیں محسوس کرتے ہیں، وہ باپ سے نہیں کرتے۔

 بچوں کے باپ سے تعلق اور محبت کی نوعیت اور ماں سے تعلق کی نوعیت میں واضح فرق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان فطرت نے صرف جسمانی فرق نہیں رکھے بلکہ مزاج اور نفسیات کے بھی واضح فرق رکھے ہیں۔ عام طور پر ایک مرد، عورت سے زیادہ جسمانی طاقت رکھتا ہے۔ عام طور پر شیر خوار لڑکے بھی ٹرک اور کار کے کھلونے اٹھاتے ہیں اور شیرخوار لڑکیاں، گڑیاں اٹھاتی ہیں۔ اسکول میں لڑکے کچھ اور مضامین میں اچھے ہوتے ہیں اور لڑکیاں کچھ دوسرے مضامین میں۔ ان کے دماغ واضح طور پر ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ یہ سب حقائق اس بات کی دلیل ہیں کہ مردوں اور عورتوں میں معاشرتی کردار کے اعتبار سے بھی فرق ہے۔جدید فیمی نسٹ تصور میں اور اسلام میں اصل فرق یہی ہے کہ اسلام کے نزدیک ’’خاندان ایک بڑی انسانی ضرورت ہے اور اس ادارے کا تحفظ ہونا چاہیے۔ خاندان کے اس ادارے کے تحفظ کا فطری طریقہ یہی ہے کہ مرد اور عور ت اپنے فطری دائروں میں اپنے اپنے کردار ادا کریں۔ دونوں کے کردار چونکہ الگ الگ ہیں، اس لیے اس حوالے سے انصاف کے تقاضوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہوگا۔ کچھ خصوصی مراعات عورت کو اس کردار کی وجہ سے حاصل ہوں گی تو کچھ اضافی اختیارات مرد کو اس کے کردار کی وجہ سے۔ ماں کے حقوق باپ سے زیادہ ہیں۔ بیوی کو خصوصی معاشی مراعات حاصل ہیں۔ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کی پرورش کا زیادہ ثواب ہے۔ دوسری طرف مرد کو قوام کی حیثیت میں بعض اضافی اختیارات حاصل ہیں۔ اس فرق کا مقصد یہ ہے کہ دونوں اصناف اپنے اپنے دائروں میں اپنے تمدنی فرائض بہتر انجام دے سکیں اور اس کے نتیجے میں ایک خوش حال خاندان اور ایک خوش حال معاشرہ وجود میں آسکے‘‘۔ اسلام میں صنفی عدل کے تصور کو سمجھنے کے لیے ان بنیادی تصورات کو سمجھنا ضروری ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو خاندان کے سلسلے میں اسلام کے وژن میں اور جدید فیمنسٹ وژن میں پایا جاتا ہے۔

چونکہ اسلام کے نزدیک خاندان، معاشرے اور تمدن کی بنیادی ضرورت ہے، اس لیے اس ضرورت کی تکمیل کے لیے اس نے مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض میں بعض فرق رکھے ہیں۔ پیدایش و رضاعت کی اہم تمدنی ضرورت کی تکمیل کے لیے عورت کو پْرمشقت مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ فرق کسی معاشرے کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ فطری ہے۔ بچوں کی یہ ضرورت ہے اور ان کا حق ہے کہ ان کی پرورش ماں کے شفیق آنچل کے زیر سایہ ہو۔ ماں سے جو قربت وہ محسوس کرتے ہیں اور جس طرح اس کا اثر قبول کرتے ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ ان کی شخصیت ساز ی میں وہ اہم کردار ادا کرے۔ خاندان کی اہم اکائی اور ادارے کا نظم و انتظام بھی وقت اور توجہ چاہتا ہے۔ ان سب ضرورتوں کی تکمیل کا کام اسلام نے عورت کے سپرد کیا ہے۔

ان کاموں میں اور اس کی جسمانی و نفسیاتی خصوصیات میں گہری مطابقت ہے۔ یہ مطابقت سماجی اور تاریخی عوامل کی پیدا کردہ نہیں ہے، بلکہ فطرت کی پیدا کردہ ہے۔ چنانچہ اسلام نے ان فرائض کی انجام دہی کے لیے عورت کو معاشی ذمے داریوں سے فارغ رکھا ہے۔ خاندان کی کفالت شوہر کے ذمے ہے۔ بیوی اگر مال دار ہو تب بھی اس کی کفالت شوہر ہی کے ذمے ہے۔ مالی ضروریات کی تکمیل کے علاوہ بیوی کا تحفظ اور اس کی دل جوئی بھی شوہر کی ذمے داری ہے۔ قوّام کی حیثیت سے اس کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ خاندان کی تمام ذمے داری قبول کرے اور اسے ادا کرے۔ اسلام نے عورت کو معاشی مصروفیت سے منع نہیں کیا، بلکہ اپنی بنیادی ذمے داری ادا کرتے ہوئے اور شریعت کے حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے، وہ معاشی مصروفیت بھی اختیار کرسکتی ہے، لیکن یہ اس کی بنیادی ذمے داری نہیں ہے۔ اس طرح اسلام کی خاندانی اسکیم میں معاشرے اور تمدن کی اہم ضروریات کا لحاظ بھی ہے اور مرد، عورت اور بچوں کے ساتھ مکمل انصاف بھی۔

صنف کی بنیاد پر یہ تقسیمِ کار، مغرب زدہ خواتین کو اس لیے کھٹکتی ہے کہ فیمی نسٹ تصورات کی ایک اہم بنیاد نسوانی شخصیت اور نسوانی کردار کا استخفاف ہے۔ ان کے نزدیک ہوائی جہاز میں مسافروں کی خدمت اور دفاتر استقبالیہ پر مہمانوں کی دل جوئی تو قابل احترام مصروفیت ہے، لیکن نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور خاندان جیسے بنیادی ادارے کا نظم و انصرام کوئی بڑا حقیر کام ہے۔ ان تصورات نے عورت کے تشخص، اس کے جذبات و نفسیات اور اس کے کردار کی قدر و منزلت کو اتنا گھٹا دیا کہ عورت اپنے عورت پن پر شرمندگی محسوس کرنے لگی۔ اسلام نے عورت ہی کو نہیں اس کے نسوانی وجود کو عزت و احترام بخشا ہے۔ اسلام میں عورت کو سماج میں قدر ومنزلت حاصل کرنے کے لیے مرد بننا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا خاندان کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے کہ اسلام کا نہایت معتدل نقطۂ نظر عام کیا جائے۔

خاندان میں مرد کا کردار

خاندانی نظام کو مضبوط اور مستحکم بنانے میں مرد اور عورت دونوں کا کردار ہوتا ہے۔ لیکن مرد کا کردار بنسبت عورت کے زیادہ ہے۔ مرد بحیثیت ولی اور کفیل اپنی ذمہ داریاں نبھاتا ہے۔ توعورت گھریلو ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی اچھی پرورش کرتی ہے۔ اور خاندان کے استحکام اور انتظام میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ مرد کی ذمہ داری اگرچہ فکرِ معاش ہے۔ لیکن ایک خاندان کی بنیاد اور مضبوطی میں اس کا بھی حصہ شامل ہوتا ہے۔

 دیکھا جائے تو مرد و زن کی تفریق سے قطع نظر معاشرے میں رہنے اور بسنے والا ہر فرد اپنے کردار کے ساتھ معاشرے کا ایک اہم ستون ہے۔ خواہ وہ باپ ہو، بھائی، شوہر یا پھر بیٹا۔ لڑکی کی طرح لڑکا بھی ایک متوازن شخصیت بننے کے لیے تربیت کا محتاج ہے۔

 اگر لڑکی بحیثیت، ماں، بیوی اور بیٹی اہم کردار کی حامل ہے۔ تو مرد کا کردار بھی بحیثیت باپ، بھائی، شوہر اور بیٹاخاندان کی مضبوطی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ دونوں مل کر ایک صحت مند خاندان اور معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ بچوں کے لیے پہلی درسگاہ ماں کی گود کو قرار دیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ باپ بھی اس تربیت گاہ کا ایک اہم ستون ہے۔

بچے کی تربیت کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ گھر کا ماحول سازگار ہو۔ جس کی ذمہ داری مرد اور عورت دونوں پر ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ 

 مرد درخت ہے

عورت بیل

بیل کی بقا کے لئے درخت کا وجود

اتنا ہی ناگزیر ہے

جتنی روشنی اور آب

جو بیل

درخت کے سہارے سے محروم رہتی ہے

زمین پر پھیل کر چرندوں کی خوراک بن جاتی ہے۔ 

 ہمارے معاشرے میں ماں کے مقام و مرتبہ پر تو بات کی جاتی ہے۔ اس کا احساس اجاگر کیا جاتا ہے۔ لیکن باپ کے مقام کو کبھی کبھار نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

مرد کا کردار بحیثیت باپ

باپ اس شجرِ سایہ دار کی مانند ہوتا ہے۔ جو زمانے کی گرم سرد ہوائیں سہہ کر اپنیاولاد کو پھل اور سایہ مہیا کرتا ہے۔ اور قبل از پیدائش سے بلوغت تک بچے کی بنیادی ضروریاتِ زندگی یعنی خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور علاج کی فراہمی کا اہتمام کرتا ہے۔ بچوں کے ساتھ اچھا سلوک ایک باپ کا فرض ہے۔ جو بچے باپ کی ڈانٹ ڈپٹ یا مار کی وجہ سے بچپن میں ڈرے سہمے رہتے ہیں۔ وہ جوان ہونے پر باپ کے باغی بن کر اس کی ناقدری پراتر آتے ہیں۔ اس لئے لازم ہے کہ ایک باپ اپنے بچوں کے ساتھ پیار ومحبت اور شفقت ومہربانی کا سلوک کرے۔

مرد پر بحیثیتباپ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بیٹے کے بالغ ہونے تک اوربیٹی کی شادی تک تمام جملہ ضروریات زندگی مہیا کرے۔

مرد کا کردار بحیثیت بھائی

کہتے ہیں کہ رشتوں میں سب سے طویل اور مضبوط رشتہ جو پیدائش سے لیکر زندگی کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔ وہ بہن اور بھائی کا ہے۔ بہن اور بھائی کا تعلق خاندان کے دیگر افراد اور سماجی رابطوں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ زندگی کے مختلف مراحل سے اکٹھے گزرتے ہیں۔ بڑے بھائی کا درجہ باپ کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ بڑے بھائی عموما نگہداشت کرنے والے کا کردار اپنا لیتے ہیں۔ اور یہ تسلسل بلوغت اور بعض اوقات بہن بھائیوں کی شادی تک برقرر رہتا ہے۔ بحیثیت بھائی مرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بہنوں کے ساتھ محبت بھرا سلوک کرے۔ انہیں تحفظ فراہم کرے۔

مرد کا کردار بحیثیت بیٹا

بحیثیت بیٹا مرد کے لئے ضروری ہے کہ والدین کا احترام کرے۔ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرے۔ اپنے ساتھ ساتھ بیوی کے والدین کا احترام بھی اس پر لازم ہے۔ بیوی کو بھی اپنے والدین کے عزت و احترام کی تاکید کرے۔ جو لڑکے شادی کے بعد والدین خصوصا والدہ سے لاپروائی برتتے ہیں۔ اور بیوی کی رائے کو ہر بات میں اہمیت دیتے ہیں۔ اس گھر میں ساس بہو کے جھگڑے ہوتے ہیں۔

بیٹے کے لئے دونوں رشتوں میں توازن برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے۔ بیٹے کی ذمہ داری یہ بھی ہے۔ کہ کسی ناچاقی کی صورت میں وہ فریقین کو سمجھائے۔ اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہونے دے۔

مرد کا کردار بحیثیت شوہر

شوہر اوربیوی کا رشتہ انسانی رشتوں میں سب سے نازک اور اہم ہوتا ہے۔ اور دیگر رشتوں کی بنیاد بھی۔ شادی کے بعد شوہراوربیوی کو اس رشتہ کی پائیداری کے لئے بہت محنت اور سمجھوتہ درکار ہوتا ہے۔  اگرچہ ایک نئی شادی شدہ عورت کے لئے شوہر کے خاندان کے رسم و رواج اور طریقوں سے مطابقت پیدا کرنا آسان نہیں۔ اور اسے نئے ماحول میں خود کو ڈھالنے میں کچھ حد تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف مرد کو رشتوں میں توازن قائم رکھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

لیکن بحیثیت شوہر ایک مرد کا فرض ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کی تمام ضروریات کا خیال رکھے۔ بیوی کی ضرویات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ، کاموں میں اس کا ہاتھ بٹائے۔ اس سے بیوی کے دل میں اس کی محبت اور قدر بڑھے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں جو ایک مرد کا کردار ہے۔ اور اس کے جو فرائض ہیں۔ وہ انہیں خوش اسلوبی سے ادا کرے۔ تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ معاشرہ خوشگوار اور محبت بھرا ہوگا۔

الغرض مرد بیٹا ہے تو دل کا سکون، بھائی ہے تو محافظ، شوہر ہے تو بہترین ساتھی، باپ ہے تو سراپا شفقت۔

بقول علامہ اقبال ۔۔

اک زندہ حقيقت مرے سينے ميں ہے مستور

کيا سمجھے گا وہ جس کی رگوں ميں ہے لہو سرد 

نے پردہ، نہ تعليم، نئی ہو کہ پرانی

نسوانيت زن کا نگہباں ہے فقط مرد 

جس قوم نے اس زندہ حقيقت کو نہ پايا

اس قوم کا خورشيد بہت جلد ہوا زرد 

خاندان کی ساخت میں عورت کی قدر

اسلام نے عورت کوماں ، بیٹی اوربہن کے روپ میں عزت دی۔

ماں کے روپ میں اسے عزت دی اس کے بارہ میں نبیﷺ کاکچھ اس طرح فرمان ہے :

"ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبیﷺ کے پاس ایک شخص آ کرکہنے لگا :اے اللہ تعالی کے رسول ﷺ میرے حسن سلوک کا سب سے زيادہ کون مستحق ہے ؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمايا ، تیری ماں ۔اس نے کہا اس کے بعد پھر کون ؟نبی ﷺ فرمانے لگے : تیری ماںاس نے کہا اس کے بعد پھر کون ؟نبی ﷺ فرمانے لگے : تیری ماں ۔اس نے کہا کہ اس کے بعد پھر کون ؟نبی ﷺ نے فرمایا : پھر تیرا باپ "۔

بیٹی کے روپ میں اسلام نے اسے کچھ اس طرح عزت دی :

"ابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرت ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس کی بھی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ، یا پھر دوبیٹیاں یا دوبہنیں ہوں اوروہ ان کی اچھی تربیت کی اوران کے معاملات میں اللہ تعالی سے ڈرتا رہا وہ جنت میں جائے گا"۔

بیوی کے روپ میں اسلام نے عورت کو کچھ اس طرح عزت سے نوازا :

"عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :تم میں سب سے بہتر اوراچھا وہ شخص ہے جواپنے گھروالوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے ، اورمیں اپنے گھروالوں کے ساتھ تم سب میں سے بہتر برتاؤ کرتا ہوں "۔

اسلام نے عورت کو وراثت وغیرہ سے اس کا حق دیا اور بہت معاملات میں اسے مردوں کی طرح حق دلوایا :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :عورتیں مردوں کی طرح ہی ہیں ۔

اسلام نے بیوی کے بارہ میں وصیت کی اورعورت کوخاوند کے اختیار میں بھی آزادی دی اوراس پرتربیت اولاد کی مسؤلیت کا ایک بڑا حصہ رکھا ۔

والدین کا کردار

اسلام نے ماں اورباپ پراولاد کی تربیت کے بارہ میں بہت بڑی مسؤلیت اورذمہ داری رکھی ہے۔عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبیﷺکویہ فرماتے ہوئےسنا :

ألا کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ فالأمیر الذی علی الناس راع،وہو مسؤول عن رعیتہ والرجل راع علی أہل بیتہ وہو مسؤل عنہم والمرأۃ راعیۃ علی بیت بعلہا وولدہ وہی مسؤلۃ عنہم والعبد راع علی مال سیدہ وہو مسؤل عنہ ألا فکلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ[2]

"تم میں سے ہرایک راعی ( سربراہ ) ہے اورہرایک سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا ، امیرراعی ہے وہ اپنے ماتحتوں کے بارہ میں جواب دہ ہے ، اورآدمی آپنے گھر والوں پرسربراہ ہے وہ ان کے متعلق جواب دہ ہوگا ، عورت خاوند کے گھرپرراعیہ ہے اسے اس کے بارہ میں سوال ہوگا ، اور غلام اپنے مالک کے مال کا راعی ہے اسے اس کے بارہ میں سوال ہوگا ، عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں کہ میں نے یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا"۔

اسلام نے والدین کے ادب واحترام اوران کے فوتگی تک اطاعت کرنے اوران کا خیال اوران کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے :اللہ سبحانہ وتعالی کا اسی سلسلہ میں کچھ اس طرح فرمان ہے :

"اورآپ کے رب نے صاف صاف یہ حکم دے رکھا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کرنا اورماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ، اگرتمہارے موجودگی میں ان میں سے ایک یا وہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں توان کے آگے اف تک نہ کہنا ، اورنہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سےبات چیت کرنا"۔[3]  

اسلام نے خاندان کی عزت وعفت اورپاکيزگی و نسب کی حفاظت کرتے ہوۓشادیکرنےپرابھاراہےاورمردوعورتکےدرمیاناختلاطاورمیلجولکومنعکیاہے۔

اورخاندان کے ہرفرد کواس کا ایک اہم کردار دیا ماں باپ کے ذمہ اولاد کی تربیت اوراولاد کے ذمہ والدین کی سمع و اطاعت ، کرنے کا حکم دیا ۔اوروالدین کے حقوق کو محبت و تعظيم کے ساتھ محفوظ کیا اوراس کی سب سے بڑي دلیل وہ خاندانی تماسک اورمیل جول ہے جس کی شہادت ہر ایک حتی کہ دشمن بھی دیتے ہیں۔



[1]۔ الروم: 30

[2]۔ البخاری،صحیح بخاری،کتاب العتق،باب کراہیۃ التطاول علی الرقیق وقولہ عبدی أو أمتی:۲۵۵۴۔

[3]۔ الاسراء: 23


Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive