کون سمجھے گا یہاں
درد ہمارے سارے
آؤ طیبہ کو چلیں
درد کے مارے سارے
ہم فقیروں کو جہاں
بھی تیری خوشبو آئی
بس وہیں بیٹھ گئے
جھولی پسارے سارے
کیا کہوں اے میرے
لجپال کہ جی جانتا ہے
کیسے فرقت میں شب و
روز گزارے سارے
اک نظر گنبدِ خضریٰ
پہ پڑی اور یکسر
بھولتے ہی گئے دنیا
کے نظارے سارے
پیشِ نظارہ ہو جب
حسنِ اتم کا سورج
پھر نظر آتے نہیں
چاند ستارے سارے
میری آنکھوں کو یوں
از بر ہے مدینہ سارا
جیسے حفاظ کو ہوں یاد
سپارے سارے
ہم نے اصحاب سے حسانؔ
یہ کہنا سیکھا
تجھ پہ قربان ہوں ہم
اور ہمارے سارے
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You