Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

3/8/25

عفو و درگزر | ایک دوسرے کو معاف کرنا | اللہ تعالی قیامت کے دن صلح کرائے گا


 

باہمی درگزر کرنے کی صفت

ایک دوسرے کو معاف کرنے کے فضائل

"وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ" (اور چاہیے کہ وہ معاف کریں اور درگزر کریں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے؟) (سورۃ النور: 22)

﴿وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ﴾ (سورۃ الشوری:40)

(اور برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے، لیکن جو معاف کر دے اور اصلاح کرے، تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ بے شک، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا)

برائی کو بھلائی سے دفع کرو

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾ (سورۃ حم السجدۃ:34)(اور نیکی اور برائی برابر نہیں ہو سکتے، برائی کو ایسے طریقے سے دور کرو جو بہترین ہو، تب تم دیکھو گے کہ جس سے تمہاری دشمنی تھی وہ گویا تمہارا قریبی دوست بن جائے گا)

غصے کو پی جانا اور معاف کرنا جنت میں لے جانے والا عمل ہے

 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾(سورۃ آل عمران: 134) (جو لوگ خوشحالی اور تنگدستی میں خرچ کرتے ہیں، غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے)

قیامت کے دن معاف کرنے والے کو عزت دی جائے گی

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "مَن كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنْفِذَهُ، دَعَاهُ اللَّهُ عَلَى رُءُوسِ الخَلَائِقِ يَوْمَ القِيَامَةِ، حَتَّى يُخَيِّرَهُ اللَّهُ مِنَ الحُورِ العِينِ مَا شَاءَ" (جس نے غصے کو پی لیا حالانکہ وہ بدلہ لینے پر قادر تھا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے تمام مخلوق کے سامنے بلائے گا اور جنت کی حوروں میں سے جس کا وہ چاہے انتخاب کرنے کی اجازت دے گا) (ابو داؤد: 4777، ترمذی: 2021)

معاف کرنے والے پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے

 نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "ارْحَمُوا تُرْحَمُوا وَاغْفِرُوا يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ" (رحم کرو، تم پر رحم کیا جائے گا، معاف کرو، تمہیں معاف کر دیا جائے گا) (مسند احمد: 7001)

سب سے بڑی فضیلت: قیامت کے دن خصوصی اعلان

 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "يُنادِي مُنادٍ يومَ القيامةِ: لِيَقُمْ مَنْ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، فَلَا يَقُومُ إِلَّا مَنْ عَفَا" (قیامت کے دن ایک منادی کرنے والا پکارے گا: وہ لوگ کھڑے ہو جائیں جن کا اجر اللہ کے ذمے ہے، اور صرف وہی لوگ کھڑے ہوں گے جنہوں نے معاف کیا تھا) (طبرانی: 11544)

اللہ تعالی عزت بڑھا دیتا ہے

"ما نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِن مالٍ، وَما زادَ اللَّهُ عَبْدًا بعَفْوٍ إلَّا عِزًّا، وَما تَواضَعَ أحَدٌ لِلَّهِ إلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ"📖 صحیح مسلم (2588)

"صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا، اور جو بندہ معاف کرتا ہے اللہ اسے عزت عطا فرماتا ہے، اور جو اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اسے بلند فرما دیتا ہے۔"

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "وما زادَ اللهُ عبدًا بعفوٍ إلا عِزًّا" (جو بندہ معاف کرتا ہے، اللہ اس کی عزت میں اضافہ فرما دیتا ہے) (مسلم: 2588)

جنت میں گھر کی ضمانت

"أنا زَعِيمٌ ببيتٍ في رَبَضِ الجنَّةِ لِمَن تَرَكَ المِراءَ وإنْ كان مُحِقًّا، وبِبَيتٍ في وسَطِ الجنَّةِ لِمَن تَرَكَ الكذِبَ وإنْ كانَ مازِحًا، وبِبَيتٍ في أعْلَى الجنَّةِ لِمَن حَسُنَ خُلُقُهُ." 📖 سنن أبي داود (4800)

"میں جنت کے نچلے حصے میں ایک گھر کا ضامن ہوں، اس شخص کے لیے جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے، اور جنت کے درمیان میں ایک گھر کا ضامن ہوں، اس شخص کے لیے جو مذاق میں بھی جھوٹ چھوڑ دے، اور جنت کے اعلیٰ درجے میں ایک گھر کا ضامن ہوں، اس شخص کے لیے جو اپنے اخلاق کو اچھا بنائے۔"

اہل طائف کے لیے نبی کریم ﷺ نے دعا کی

"اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ"📖 (صحیح البخاری: 3477، صحیح مسلم: 1792)

(اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے، کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے)                          

فتح مکہ کے دن جب آپ ﷺ کو اختیار ملا

کہ اپنے دشمنوں سے بدلہ لیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: "اذْهَبُوا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ" (جاؤ، تم سب آزاد ہو)

جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ ظلم کیا اور بعد میں معافی مانگی تو انہوں نے کہا: ﴿لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ﴾ (آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے) (سورۃ یوسف: 92)

نبی کریم ﷺ کو قتل کرنے آیا لیکن آپ ﷺ نے معاف کر دیا

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَاتَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَارِبَ خَصَفَةَ بِنَخْلٍ، فَرَأَوْا مِنَ الْمُسْلِمِينَ غُرَّةً، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ غَوْرَثُ بْنُ الْحَارِثِ حَتَّى قَامَ عَلَى رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسَّيْفِ، فَقَالَ: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قَالَ: «اللَّهُ» قَالَ: فَسَقَطَ السَّيْفُ مِنْ يَدِهِ، فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: «مَنْ يَمْنَعُكَ؟» قَالَ: كُنْ خَيْرَ آخِذٍ، قَالَ: «تَشْهَدُ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟» قَالَ: أُعَاهِدُكَ عَلَى أَنْ لَا أُقَاتِلَكَ، وَلَا أَكُونُ مَعَ قَوْمٍ يُقَاتِلُونَكَ، قَالَ: فَخَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبِيلَهُ فَجَاءَ إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالَ: جِئْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ خَيْرِ النَّاسِ (مستدرک للحاکم :4322)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے کھجوروں کے جھنڈ سے بنے کچھاروں میں جنگ کی ، ان لوگوں نے مسلمانوں کو نا تجربہ کار سمجھا ، ان میں غوث بن الحارث نامی ایک آدمی آ کر رسول اللہ ﷺ کے سرہانے کھڑا ہو گیا اور تلوار سونت کر بولا : تجھے مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ ۔ تو اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر گئی ۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ تلوار پکڑ لی اور فرمایا : تجھے مجھ سے کون بچائے گا ؟ اس نے کہا : آپ اچھا پکڑنے والے ہو جائیں ، حضور ﷺ نے فرمایا : تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک اللہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اس نے کہا : میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ نہ تو میں خود آپ کے خلاف لڑوں گا اور نہ آپ کے کسی مخالف کی مدد کروں گا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو چھوڑ دیا ۔ وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا : میں اس شخص کے پاس سے آ رہا ہوں جو تمام لوگوں سے اچھا ہے

اللہ تعالی قیامت کے دن صلح کرا دے گا

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ إِذْ رَأَيْنَاهُ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ ثَنَايَاهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَا أَضْحَكَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ قَالَ: " رَجُلَانِ مِنْ أُمَّتِي جَثَيَا بَيْنَ يَدَيْ رَبِّ الْعِزَّةِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَبِّ خُذْ لِي مَظْلِمَتِي مِنْ أَخِي، فَقَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلطَّالِبِ: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِأَخِيكِ وَلَمْ يَبْقَ مِنْ حَسَنَاتِهِ شَيْءٌ؟ قَالَ: يَا رَبِّ فَلْيَحْمِلْ مِنْ أَوْزَارِي " قَالَ: وَفَاضَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبُكَاءِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ ذَاكَ الْيَوْمَ عَظِيمٌ يَحْتَاجُ النَّاسُ أَنْ يُحْمَلَ عَنْهُمْ مِنْ أَوْزَارِهِمْ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِلطَّالِبِ: " ارْفَعْ بَصَرَكَ فَانْظُرْ فِي الْجِنَّانِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: يَا رَبِّ أَرَى مَدَائِنَ مِنْ ذَهَبٍ وَقُصُورًا مِنْ ذَهَبً مُكَلَّلَةً بِالُّلؤْلُؤِ لِأَيِّ نَبِيٍّ هَذَا أَوْ لِأَيِّ صِدِّيقٍ هَذَا أَوْ لِأَيِّ شَهِيدٍ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا لِمَنْ أَعْطَى الثَّمَنَ، قَالَ: يَا رَبِّ وَمَنْ يَمْلِكُ ذَلِكَ؟ قَالَ: أَنْتَ تَمْلِكُهُ، قَالَ: بِمَاذَا؟ قَالَ: بِعَفْوِكَ عَنْ أَخِيكَ، قَالَ: يَا رَبِّ فَإِنِّي قَدْ عَفَوْتُ عَنْهُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَخُذْ بِيَدِ أَخِيكَ فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ " فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: «اتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُصْلِحُ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ (مستدرک للحاکم:8718)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے ، ہم نے آپ ﷺ کو دیکھا آپ ہنس رہے تھے ، حتی کہ آپ کے دانت مبارک ظاہر ہوئے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں ، آپ کے ہنسنے کی وجہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے دو آدمی ہیں جو کہ اپنے رب کے سامنے پاؤں کی انگلیوں کے بل کھڑے ہوں گے ، ان میں سے ایک کہے گا : اے میرے رب ! میرے بھائی سے میرے ظلم کا بدلہ لے ، اللہ تبارک و تعالیٰ اس طالب سے فرمائے گا : تو اپنے بھائی کے ساتھ اب کیا کرنا چاہتا ہے ، جبکہ اس کی تو اب کوئی نیکی باقی نہیں بچی ہے ، وہ کہے گا : اے میرے رب ! میرے گناہ اس کے اوپر ڈال دیئے جائیں ، یہ فرما کر حضور ﷺ رو پڑے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ، پھر فرمایا : وہ دن بہت عظیم ہے ، اس دن لوگ اس بات کے محتاج ہوں گے کہ ان کے بوجھ ان سے ہلکے کئے جائیں ، اللہ تعالیٰ طالب سے فرمائے گا : اپنی نگاہ اٹھاؤ اور جنت میں دیکھو ، وہ آدمی اپنا سر اٹھائے گا اور دیکھ کر بولے گا : یا اللہ میں سونے کے شہر اور سونے کے بنے ہوئے محلات دیکھ رہا ہوں ، وہ محلات کس نبی کے ہیں ؟ یا یہ کس صدیق کے ہیں ؟ یا یہ کسی شہید کے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : یہ اس کے لئے ہے جس نے ثمن خرچ کیا ، وہ کہے گا : یا اللہ اس کا کون مالک ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تم بھی اس کے مالک بن سکتے ہو ، وہ پوچھے گا : یا اللہ وہ کیسے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اپنے بھائی کو معاف کر کے ، وہ کہے گا : یا اللہ میں نے اس کو معاف کر دیا ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اپنے بھائی کے ہاتھ کو پکڑ کر اس کو جنت میں لے جاؤ ، اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اپنے درمیان صلح رکھو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان صلح چاہتا ہے

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive