Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

3/13/25

سلام کرنا | السلام علیکم کہنا | اسلام کا فلسفہ اسلام | اسلامی معاشرتی آداب | to say Assalam o Alaikum

سلام: اسلامی معاشرت کا بنیادی ادب

اسلامی تعلیمات میں معاشرتی آداب کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، کیونکہ یہ معاشرتی ہم آہنگی اور محبت کے فروغ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان آداب میں سے سب سے اہم "سلام" ہے، جو نہ صرف ایک دعائیہ کلمہ اور ایک دوسرے کو دعا دینے کا نام نہیں ہے بلکہ اسلامی اخوت اور محبت کی علامت بھی ہے۔ سلام صرف ایک رسمی جملہ نہیں بلکہ ایک مکمل اسلامی تعلیم ہے جو باہمی خیرخواہی، عزت و احترام، اور محبت کو فروغ دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو معاشرے میں محبت اور باہمی اعتماد کو بڑھاتا ہے۔ جب دو افراد ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں تو وہ درحقیقت ایک دوسرے کے لیے امن، سلامتی اور رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشرت میں سلام کو اختیار کرنا ایک بنیادی ادب اور اخلاقی فریضہ ہے، جو مسلمانوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط اور خوشگوار بناتا ہے۔

سلام کی اہمیت

          سلام کی اہمیت کو قرآن مجید  میں کچھ اس انداز میں اجاگر کیا گیا ہے کہ مسلمان کے دل میں اس کی اہمیت اور قدر و منزلت پختہ ہو جاتی ہے ذیل میں کچھ پہلووں کا جائزہ لیا گیا ہے :

جنت میں سلام کی فضا اور ماحول

          وہ جنت جس کا ایمان والوں کو وعدہ کیا گیا ہے اور قرآن مجید میں جا بجا اس کی تعریفیں کی گئی ہیں ، باغات کا تذکرہ ہے اور ایسے باغات کہ جن کے نیچے نہریں بہتی رہتی ہیں یعنی وہ ہمیشہ سر سبز و شادب رہتے ہیں کبھی ان پر خزاں نہیں آتی ان باغات میں ہر قسم کے میوہ جات اور پھل ہیں جو جنتی خواہش کریں گے انہیں بغیر کسی تاخیر کے میسر ہوگا ،ہر قسم کے خوش رنگ پہناوے ، کھانے پینے کے لیے غذائیں اور مشروبات میسر ہوں گے، جنت میں سکون اور راحت ہو گی، رہنے کے لیے عالی شان محل اور گھر ہوں گے ، ایسی جنت میں لوگوں کا آپس میں رویہ اور معاملات کیسے ہوں گے اس سے متعلق قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:

دَعْوٰىهُمْ فِیْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَ تَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا سَلٰمٌۚ-وَ اٰخِرُ دَعْوٰىهُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (سورۃ یونس:10)

ان کی دعا اس میں یہ ہوگی کہ اے اللہ ! تو پاک ہے اورجنت میں ان کی ملاقات کا پہلا بول ’’سلام‘‘ ہوگا اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہے کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا وَّ لَا تَاْثِیْمًا۔اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا (سورۃ الواقعہ:25,26)

اس میں نہ سُنیں گے کوئی بیکار بات نہ گنہگاری ہاں یہ کہنا ہوگا سلام سلام

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًاؕ (سورۃ مریم:62)

وہ (جنت میں) کوئی بے ہودہ بات نہیں سنیں گے، سوائے سلامتی (کے بول) کے

وَ اُدْخِلَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ-تَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا سَلٰمٌ (سورۃ ابراھیم:23)

اور وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے وہ جنتوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، اپنے رب کے حکم سے ہمیشہ ان میں رہیں گے ، وہاں اُن کی ملاقات کی دعا ،سلام ہے۔

 

تفہیم آیات

          درج بالا آیات میں جنت میں لوگوں کے آپس میں باہمی کلام اور معاشرتی ماحول کو بیان کیا گیا ہے کہ جنت میں کوئی بیہودہ کلامی ، فضول کلامی اور نازیبا کلامی نہیں ہو ہر طرف پیار محبت اور امن کا ماحول ہوا گا اور لوگوں کی زبانوں پر سلام ہی سلام ہو گا سب ایک دوسرے کو سلام کریں گے جب کوئی کلام کریں گے تو ابتدا ء سلام سے کریں گے، درج بالا آیات میں جنت کا ماحول بیان کر کے اس دنیا میں آباد انسانوں کو باہمی محبت اور یگانگت کی فضا پیدا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اس فضا کے قائم کرنے کے لیے ایک ایسا  ‘‘ٹول ’’ اور  ‘‘ذریعہ’’  کی ترغیب دی گئی ہے  کہ جس سے باہمی محبت قائم ہوتی ہے اور وہ ٹول اور ذریعہ ایک دوسرے کا  ‘‘سلام کرنا’’ ہے۔

فرشتوں کا اہل جنت کو سلام کرنا

          جنت میں فرشتے اہل جنت کو سلام کر کے خوش آمدید کہیں گےاور پرتپاک استقبال کریں گے ، پھر جنتیوں کے اپنی آرام گاہوں میں پہنچنے کے بعد ان کے محلات میں جا کر ان کو سلام کریں گے گویا اہل جنت کی عزت افزائی کے لیے ان کے پاس حاضر ہوں گے اور کلام کیا ہو گا؟ ان کا کلام سلام ہی سلام ہو گا، ذیل میں چند آیات کا مطا لعہ کرتے ہیں:

اُولٰٓىٕكَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَ یُلَقَّوْنَ فِیْهَا تَحِیَّةً وَّ سَلٰمًا.خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا(سورۃ الفرقان:75,76)

انہیں ان کے صبرکے سبب جنت کا سب سے اونچا درجہ انعام میں دیا جائے گا اور اس بلند درجے میں دعائے خیر اورسلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا۔ ہمیشہ اس میں رہیں گے، کیا ہی اچھی ٹھہرنے اورقیام کرنے کی جگہ ہے۔

وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِیْنَ (سورۃ الزمر: 73)

کنزالعرفاناور اپنے رب سے ڈرنے والوں کو گروہ درگروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے اور اس کے داروغے ان سے کہیں گے: تم پر سلام ہو،تم پاکیزہ رہے تو ہمیشہ رہنے کوجنت میں جاؤ

وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ(23)سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ(سورۃ الرعد: 23,24)

ور ہر دروازے سے فرشتے ان کے پاس یہ کہتے آئیں گے۔ تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم نے صبر کیا تو آخر ت کا اچھا انجام کیا ہی خوب ہے۔

الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ طَیِّبِیْنَۙ-یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْكُمُۙ-ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(سورۃ النحل:32)

فرشتے ان کی جان پاکیزگی کی حالت میں نکالتے ہوئے کہتے ہیں : تم پر سلامتی ہو،تم اپنے اعمال کے بدلے میں جنت میں داخل ہوجاؤ۔

وَ اَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ(90)فَسَلٰمٌ لَّكَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ(سورۃ الواقعہ:90, 91)

اور اگر وہ دائیں جانب والوں میں سے ہو۔تو (اے حبیب!) تم پردائیں جانب والوں کی طرف سے سلام ہو۔

تفہیم آیات

          درج بالا آیات میں اللہ جل شانہ نے اہلِ جنت کی موت سے جنت میں داخلے اور آباد کاری تک کے تمام مراحل میں فرشتوں کی سلامیوں کے ساتھ عزت افزائی کو بیان فرمایا ہے۔فرشتے جب نیک لوگوں کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو ان کو سلام کرتے ہیں جب وہ اہل جنت قبروں سے اٹھتے ہیں تو سلامیاں ہوتی ہیں جب جنت میں داخلے کے لیے جنت کے دروازے پر پہنچتے ہیں رضوان جنت ان کو سلام کرتے ہیں اور جب داخل ہو جاتے ہیں تو فرشتے ان کی خواب گاہوں میں حاضر ہو کر ان کو سلام کرتے ہیں۔

اللہ تعالی کا اہل جنت کو سلام کے شرف سے سرفراز کرنا

          جنت کے مجموعی ماحول اور فضا میں سلام کی بازگشت کے ذکر کے بعد سب سے اہم شرف جو اہل جنت کو عطا ہوگا وہ انہیں ‘‘اللہ تعالی کا سلام کہنا’’ ہے یعنی اللہ تعالی خود اہل جنت کو سلام کہے گا، ذیل میں چند آیات کا مطالعہ کرتے ہیں:

تَحِیَّتُهُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَهٗ سَلٰمٌۖۚ-وَ اَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِیْمًا(سورۃ الاحزاب:44)

جس دن وہ اللہ تعالی سے ملاقات کریں گے اس وقت ان کے لیے ملتے وقت کا ابتدائی کلام سلام ہو گا اوراللہ تعالی نے ان کے لیے عزت کا ثواب تیار کر رکھا ہے۔

سَلٰمٌ- قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ (سورۃ یسن:58)

مہربان رب کی طرف سے فرمایا ہوا سلام ہوگا۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنهما، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: بَیْنَا أَهْلُ الْجَنَّةِ فِي نَعِیْمِهِمْ إِذْ سَطَعَ لَهُمْ نُوْرٌ فَرَفَعُوْا رُؤُوْسَهُمْ، فَإِذَا الرَّبُّ قَدْ أَشْرَفَ عَلَیْهِمْ مِنْ فَوْقِهِمْ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، قَالَ: وَذٰلِکَ قَوْلُ اللهِ: {سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیمٍo} [سورۃ یٰس، 58]، قَالَ: فَیَنْظُرُ إِلَیْهِمْ وَیَنْظُرُوْنَ إِلَیْهِ، فَـلَا یَلْتَفِتُوْنَ إِلٰی شَيئٍ مِنَ النَّعِیْمِ، مَا دَامُوْا یَنْظُرُوْنَ إِلَیْهِ، حَتّٰی یَحْتَجِبَ عَنْهُمْ، وَیَبْقٰی نُوْرُهٗ وَبَرَکَتُهٗ عَلَیْهِمْ فِي دِیَارِهِمْ (سنن ابن ماجہ:184)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت والے اپنی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے کہ اچانک ایک نور چمکے گا۔ وہ اپنے سروں کو اوپر اٹھائیں گے، تو اللہ رب العزت اوپر کی جانب ان پر جلوہ افروز ہو گا اور فرمائے گا: اے اہلِ جنت! اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ (تم پر سلامتی ہو۔) حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کہ (قرآن مجید میں) اللہ تعالی  کے اس فرمان - {سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیمٍo} ’(تم پر) سلام ہو، (یہ) ربِّ رحیم کی طرف سے فرمایا جائے گا۔‘ - کا یہی معنٰی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: پھر اللہ تعالی ان (اہل جنت) کی جانب نظرِ شفقت و محبت فرمائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ (کے جلوۂ حسن) کی طرف محبت بھری نظروں سے تکنے لگیں گے۔ جب تک وہ دیدارِ الٰہی میں مشغول رہیں گے جنت کی کسی اور نعمت کی طرف متوجہ نہ ہوں گے یہاں تک کہ اللہ رب العزت ان سے پردہ فرما لے گا لیکن اس کا نور اور اس کی برکت (کا اثر) ہمیشہ ان کی رہائش گاہوں میں بھی ان پر قائم رہے گا۔

تفہیم  آیات

          درج بالا آیات اس بات کی واضح  خبر دیتی ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالی سے جب ایمان والوں کی ملاقات ہو گی انہیں اللہ تعالی کی طرف سے سلام کہا جائے گا اور اسی طری سورۃ یسن کی آیہ مقدسہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالی جنت میں اہل جنت کو سلام کہے گا اور یقینا یہ اہل جنت کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہو گا۔

 

دنیوی زندگی میں اہل ایمان کو سلام کی تاکید

یہ رہا جنت میں اہل جنت کی آپس کی گفت گو ، اہل جنت کو فرشتوں کی طرف سے اور اہل جنت کو اللہ تعالی کی جانب سے سلام کا احوال ، اب آئیے اب دیکھتے ہیں  کہ کس دنیا میں اہل ایمان کو ایک دوسرت کو سلام کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ سلام کرنا اسلامی معاشرتی آداب میں سے ایک بہت اہم ادب ہے جو معاشرتی اخوت و بھائی چارے ، باہمی امن، باہمی اعتماد ، باہمی ہمدردی اور خیر خواہی  کی ضمانت دیتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں سلام کرنے کی واضح ہدایات اور تاکید کی گئی ہے۔ ذیل میں پہلے قرآن مجید میں بیان کی گئی ہدایات کا ذکر کیا جا رہا ہے اور بعد ازاں احادیث نبوی میں موجود تعلیمات کا بیان ہے۔

قرآن مجید میں بیان کردہ  تعلیمات

          قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:

 

1: وَ اِذَا جَآءَكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَۙ (سورۃ الانعام:54)

ترجمہ: اور جب آپ کی بارگاہ میں وہ لوگ حاضر ہوں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے فرماؤ: ’’ تم پر سلام‘‘ تمہارے رب نے اپنے ذمہ کرم پر رحمت لازم کرلی ہے

2: فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَیِّبَةًؕ (سورۃ النور:61)

ترجمہ: پھر جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو، (یہ) ملتے وقت کی اچھی دعا ہے، اللہ کے پاس سے مبارک پاکیزہ (کلمہ ہے)

3: وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا(سورۃ النساء:86)

ترجمہ: اور جب تمہیں کسی لفظ سے سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر لفظ سے جواب دو یا وہی الفاظ کہہ دو۔ بیشک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے۔

4: وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًاۚ (سورۃ النساء:94)

ترجمہ:  اور جو تمہیں سلام کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں

تفہیم آیات

          درج بالا آیات میں سلام کرنے کی تاکید کی گئی ، اللہ جل شانہ نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرمایا محبوب جب آپ کے پاس کوئی اہل ایمان میں سے آئے تو اسے سلام کہیں ، اسی طرح مسلمانوں کو تاکید کی گئی جب تم گھروں میں داخل ہو تو اہل خانہ کو سلام کہیں ، جب کوئی تمہیں کوئی سلام کہ تو اس کو اسی طرح یا اس سے بہتر انداز میں سلام کا جواب دیں (اس کی مزید وضاحت احادیث مبارکہ میں احادیث کے حصے میں بیان ہو گی) مزید فرمایا کہ جو کوئی تمہیں سلام کہے اس کو کافر نہ سمجھو یعنی سلام کرنا گویا انسان کے اسلام کی نشانی ہے۔

احادیث مبارکہ میں بیان کردہ  تعلیمات

قرآن مجیدمیں بیان کردہ اجمالی اور تفصیلی احکام کی مزید وضاحت اور تشریح احادیث مبارکہ میں موجود ہے ذیل میں احادیث  مبارکہ بیان کی گئی ہیں اور آخر میں ان احادیث  مبارکہ سے ماخوذ تعلیمات کو رواں اسلوب میں فہرست کے اندز میں لکھا گیا ہے۔

1: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتّٰى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتّٰى تَحَابُّوا، أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلٰى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ (صحیح مسلم:54)

ترجمہ:  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ تم مومن ہو جاؤ ، اور تم مومن نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو ۔ کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو ، آپس میں سلام عام کرو

2: عَنْ أَبِي أُمَامَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قال رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِاللّٰهِ مَنْ بَدَأَهُمْ بِالسَّلَامِ(سنن ابی داود:5197)

ترجمہ:  حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ لوگوں میں اللہ کے ہاں سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو انہیں سلام کہنے میں ابتدا کرے

3: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    اعْبُدُوا الرَّحْمَنَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَأَفْشُوا السَّلَامَ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ (جامع ترمذی: 1855)

ترجمہ:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رحمن کی عبادت کرو، کھانا کھلاؤ اور سلام کو عام کرو اور اسے پھیلاؤ، جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو گے

4: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسٌ تَجِبُ لِلْمُسْلِمِ عَلَى أَخِيهِ رَدُّ السَّلَامِ وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ  (صحیح مسلم:5650)

ترجمہ:  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ایک مسلمان کے لیے اس کے بھائی پر پانچ چیزیں واجب ہیں : سلام کا جواب دینا ، چھینک مارنے والے کے لیے رحمت کی دعا کرنا ، دعوت قبول کرنا ، مریض کی عیادت کرنا اور جنازوں کے ساتھ جانا

5: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ ، وَالْمَارُّ عَلَى الْقَاعِدِ ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ (صحیح بخاری: 6234)

ترجمہ:  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” چھوٹا بڑے کو سلام کرے ، گزرنے والا بیٹھنے والے کو اور کم تعداد والے بڑی تعداد والوں کو۔

6: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ ؟ قَالَ :    تُطْعِمُ الطَّعَامَ ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ (صحیح بخاری:12)

ترجمہ:  ایک دن ایک آدمی نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے ؟ فرمایا یہ کہ تم کھانا کھلاؤ ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی ، الغرض سب کو سلام کرو

تفہیم احادیث مبارکہ

          درج بالا احادیث مبارکہ بیان کی گئی تعلیمات کو ذیل میں فہرست کی صورت میں تفصیلی انداز میں تحریر کیا جا رہا ہے:

·        جنت میں داخلے کے لیے انسان کا صاحب ایمان ہونا ضروری ہے اور ایمان کی تکمیل کو آں جناب ﷺ نے باہمی محبت اور الفت کے ساتھ منسوب کیا یعنی اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے سے محبت کریں اور باہمی محبت کا ذریعہ اور کنجی سلام کرنے کو قرار دیا ہے، الفت و محبت پیدا کرنے کے لیے تعلیم دی کہ آپس میں سلام کو پھیلا دو ، کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کیا جائے۔

·        اللہ تعالی کے قریب وہ شخص ہوتا ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے

·        ایک دوسرے کو سلام کرنا اور غربا کو کھانا کھیلانا جنت میں سلامتی سے  داخلے کاسبب ہے

·        سلام کا جواب دینا واجب ہے

·        چھوٹا بڑے کو سلام کرے ، گزرنے والا بیٹھنے والے کو اور کم تعداد والے بڑی تعداد والوں کو

·        اسلام کے بہترین اعمال میں سے ایک دوسرے کو سلام کرنا ہے

·        سلام کرنا بندہ مومن کا حق قرار دیا گیا ہے

·        مکمل جملے سے سلام کرنا یعنی (اَلسَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکَاتُهٗ)  کہنا  ۔ اور جواب میں صرف علیکم السلام کہہ دیں تو یہ کافی ہے

تحقیق و تدوین :  محمد سہیل عارف معینیؔ (پی ایچ ڈی سکالر  یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور)

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive